غضب الٰہی کو دعوت

مولانا عبد البر اثری فلاحی

’’فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْماً فَاسِقِیْنَ ۔فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنَاھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ فَجَعَلْنَاھُمْ سَلَفاً وَّ مَثَلاً لِّلْاٰخِرِیْنَ‘‘(الزخرف:54۔56)
’’اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ ۔ آخر جب انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا اور بعد والوں کے لئے پیش رواور نمونۂ عبرت بنا کر رکھ دیا‘‘۔
ان آیات میں فرعون اور اس کی قوم کا رویہ بیان کیا گیاہے ۔ ا ن کے رویوں کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کا انجام بھی بیان ہوا ہے ۔
سب سے پہلے یہ بات بتائی گئی ہے کہ ’’’فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ ‘‘ فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور بے وزن و حقیر بنادیا تھا یعنی انہیں اپنے جیسے انسانیت کے درجے سے گرادیا تھا۔ نہ ان کا احترام کرتا، نہ ان کی عزت و آبرو کا پاس و لحاظ رکھتا بلکہ ان کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھتا گویا کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا جیسا کہ آج کی سپر پاور س عراق، افغانستان اور فلسطین میں کررہی ہیں یا جیسا کہ ہمارے ملک میں حکمراں طبقہ کمزوروں اور مسلمانوں کے ساتھ کررہاہے ۔
پھر یہ بتایا گیا کہ ’’فَاَطَاعُوْہُ‘‘ پس قوم نے اس کی (فرعون ) کی اطاعت کی ۔ یعنی فرعون جو کچھ کرتا رہا اس کو وہ صحیح مانتے رہے ۔ اس کی ہی ہمنوائی کرتے رہے ۔ اس کے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔ بلکہ خاموش تماشائی بنے رہے یا اس کی تائید ہی کرتے رہے حالانکہ وہ کھلے آنکھوں سے یہ محسوس کرتے تھے کہ جو رویہ ہے وہ غلط ہے، جو سلوک کیا جارہاہے وہ مناسب نہیں ہے جیسا کہ آج سپرپاور عراق، افغانستان اور فلسطین میں جو کچھ کررہا ہے اسے سب غلط سمجھتے ہیں لیکن کوئی اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا۔ اس ظلم کو روکنے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھتا گویا سب عملاً اس کے ساتھ ہی ہیں۔ یہی حال ہمارے ملک کی عوام کا بھی ہے وہ ہر طرف دیکھ رہے ہیں ظلم روا ہے ۔ خواہ وہ گجرات کے فسادات میں ہو یا ملک کے دوسرے فسادات میں۔ حال ہی میں بابری مسجد قضیہ کا فیصلہ سامنے آیا ہے وہ ظلم ونا انصافی کی بد ترین مثال ہے ۔ لیکن کوئی نہیں جو اس ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائے اور مظلوم کو اس کا حق دلائے گویا سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ فیصلہ غلط ہے۔ اس غلطی کی اصلاح کے لئے کوئی حرکت نظرنہیں آرہی ہے ۔
ذہن میں سوال اٹھ سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ پوری قوم بے حس کیوں ہوگئی ہے یا ہوجاتی ہے ۔ آیت کے اگلے حصے میں اس پرروشنی ڈالی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اِنَّھُمْ کَانُوْاقَوْماً فَاسِقِیْنَ ‘‘بے شک وہ بدکردار قوم تھی یعنی فسق میں مبتلا تھی۔فسق کا مطلب ہوتا ہے ایک چیزکو صحیح اور حق سمجھتے ہوئے بھی اس کے برخلاف عمل کرنا خواہ بزدلی کی وجہ سے کرے ، خواہ لالچ اور دباؤ کی وجہ سے کرے ،ایسا انسان کب کرتا ہے جب وہ مفاد پرستی کے مرض میں مبتلا ہو تا ہے گویا اسے سب سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اس کے آگے وہ ہر چیز کو نظر انداز کردیتا ہے ۔ عموماً یہ بیماری خوشحال طبقے میں زیادہ پیدا ہوتی ہے وہ چین و سکون اور آرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اگر ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں تو خود ان کا چین و سکون خطرے میں پڑ سکتاہے اس لئے وہ خاموش اور حکومت وقت کی تائید ہی میں عافیت سمجھتے ہیں خواہ دوسروں پر کچھ بھی گزرے۔ اس بے حسی کا مشاہدہ آج بھی ہر جگہ صاف کیاجا سکتا ہے ۔
جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو اللہ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے۔ فرعون صفت لوگ اور ان کے ہمنوا پیرو نیست و نابود کردئیے جاتے ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ’’فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنَاھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا۔
ایسا اس لئے ہے کہ جب مظلوم کی کوئی نہیں سنتا تو صرف اللہ کی ذات ہی اس کا آخری ملجا و ماویٰ ہوتی ہے۔ جب مظلوم اللہ کو پکارتا ہے تو گویا اس کے عدل و انصاف کی صفت کی دہائی دیتا ہے پھر کیوں نہ اللہ انصاف فرمائے ۔ چنانچہ اس کا غضب بھڑک اٹھتا ہے ۔ اس لئے فرمایا گیا ’’اللہ اور مظلوم کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ‘‘۔ بلکہ تاکید کی گئی کہ ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو‘‘۔
جب اللہ کا غضب بھڑکتاہے تو صرف نیست و نابود ہی نہیں کرتا بلکہ آنے والوں کے لئے نمونہ عبرت بنادیتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کرسکیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ’’فَجَعَلْنَاھُمْ سَلَفاً وَّ مَثَلاً لِّلْاٰخِرِیْنَ‘‘ بعد والوں کے لئے پیش رو اور نمونہ عبرت بناکر رکھ دیا۔
عالمی سطح پر فرعونیت کا جو کھیل کھیلا جارہاہے اور ننگا ناچ ناچا جارہاہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ظلم و استحصال کی جو چکی چلائی جارہی ہے اور کمزور طبقات کو پیسا جارہاہے لیکن اس کے خلاف نہ عالمی سطح پر کوئی زور دار رد عمل ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر کوئی معقول بیداری اور اصلاح حال کی کوشش ہے بلکہ فرعون وقت کے سامنے سب کے لب سلے ہوئے ہیں۔ مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سب کشاں کشاں مجرمین کے کٹہرے میں کھڑے ہورہے ہیں اور اپنی بے حسی سے غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ ’’اَعَاذَنَا اﷲُ مِنْہٗ‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔