خامشی ٹوٹے گی، آواز کا پتّھر بھی تو ہو
عزیز نبیل
خامشی ٹوٹے گی، آواز کا پتّھر بھی تو ہو
جس قدر شور ہے اندر، کبھی باہر بھی تو ہو
مسکرانا کسے اچھّا نہیں لگتا یارب
مسکرانے کا کوئی لمحہ میسّر بھی تو ہو
بجھ چکے راستے، سنّاٹا ہوا، رات ڈھلی
لوٹ کر ہم بھی چلے جائیں مگر گھر بھی تو ہو
بزدلوں سے مَیں کوئی معرکہ جیتوں بھی تو کیا
کوئی لشکر مری ہمّت کے برابر بھی تو ہو
رات آئے گی، نئے خواب بھی اتریں گے ، مگر
نیند اور آنکھ کا رشتہ کبھی بہتر بھی تو ہو
چھوڑکر خواب کا سیّارہ کہاں جاؤں نبیلؔ
کرّہ ء شب پہ کوئی جاگتا منظر بھی تو ہو
تبصرے بند ہیں۔