جانے کن راہوں سے اس شہر میں لایا گیا ہوں
عزیز نبیل
جانے کن راہوں سے اس شہر میں لایا گیا ہوں
ایسا لگتا ہے یہاں پہلے بھی آیا گیا ہوں
میں تو گھر ہی میں ہوں، پر لوگ بتاتے ہیں کہ مَیں
دشت و صحرا میں بھٹکتا ہوا پایا گیا ہوں
میں نہ یوسف ہوں نہ ایسا کوئی نایاب صفت
کیا خبر کس لیے بازار میں لایا گیا ہوں
کاش اک روز کوئی چھو کے بتائے مجھ کو
کون ہوں؟ کون سی مٹّی سے بنایا گیا ہوں
میرے قدموں میں ستارے تھے مرے ہاتھ میں چاند
مدّتوں تک سرِ افلاک سجایا گیا ہوں
اتنی حیرت سے نہ دیکھو مجھے اے دیدہ ورو!
میں یہاں خود نہیں آیا ہوں، بلایاگیا ہوں
تبصرے بند ہیں۔