یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے

عزیز نبیل

Aziz

 

یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے
کہ آج روند کے گزرا ہے میرا سایہ مجھے

میں جیسے وقت کے ہاتھوں میں اک خزانہ تھا
کسی نے کھودیا مجھ کو کسی نے پایا مجھے

نہ جانے کون ہوں، کس لمحۂ طلب میں ہوں
نبیلؔ چین سے جینا کبھی نہ آیا مجھے

میں ایک لمحہ تھا اور نیند کے حصار میں تھا
پھر ایک روز کسی خواب نے جگایا مجھے

اِسی زمیں نے ستارہ کیا ہے میرا وجود
سمجھ رہے ہیں زمیں والے کیوں پرایا مجھے

جہاں کہ صدیوں کی خاموشیاں سلگتی ہیں
کسی خیال کی وحشت نے گنگنایا مجھے

اک آرزو کے تعاقب میں یوں ہوا ہے نبیلؔ
ہوا نے ریت کی پلکوں پہ لا بٹھایا مجھے

تبصرے بند ہیں۔