غزل – پھول سے جب سے دوستی کی ہے

عتیق انظر

پھول سے جب سے دوستی کی ہے
میں نے  کانٹوں پہ  زندگی کی ہے

اک   چراغ  سحر   بچانے   میں
میں نے سورج سے دشمنی کی ہے

میں نے تیری اندھیری راتوں میں
دل  جلایا   ہے   روشنی   کی  ہے

جس کے اثبات میں مٹا ہوں میں
آج   اس  نے  مری  نفی کی ہے

میری کوئی  طلب نہیں  تم سے
کس لیے تم نے بے رخی کی ہے

کیا  بتاؤں  حسب  نسب  اپنا
خاک  اوقات  آدمی  کی  ہے

آب  زر  ہو  عطا  مجھے  یا  رب
گرد  چہرے  پہ مفلسی  کی  ہے

آپ ہنس ہنس کے داد  دیتے  ہیں
میں نے مر مر کے شاعری کی ہے

تبصرے بند ہیں۔