عرشِ مقبولیت – جاہ و حشمت نہ تختِ شہی چاہئے

امجد علی سرور

جاہ و حشمت نہ تختِ شہی چاہئے
میں ہوں بندہ ، تری بندگی چاہئے

نورِ عرفاں سے ہو جائے روشن جبیں
دل میں توحید کی روشنی چاہئے

تو نوازے تو سچ ، ورنہ دعوے غلط
فکر و فن کیلئے آگہی چاہئے

ابرِ رحمت سروں پر ہے سایہ فگن
بسکہ قلب و نظر ملتجی چاہئے

شوقِ دیدار کہتا ہے جلوہ ترا
یا خدا آج کیا ، بس ابھی چاہئے

چاند سورج تجھی سے ہیں منّت کناں
روشنی چاہئے ، روشنی چاہئے

جو ملی سرمدؔ ؒ و شمسؔ ؒ و منصورؒ ؔ کو
ہاں وہی مے ، وہی تشنگی چاہئے

تجھ سے خضر و مسیحا ہیں فریاد کن
زندگی چاہئے ، زندگی چاہئے

اک تری ذات ہی سے رکھے رابطہ
زندگانی جسے دائمی چاہئے

تجھ سے کہتا ہے شوقِ جنوں وجد میں
بے خودی چاہئے ، بے خودی چاہئے

تجھ کو دیکھو ں تو بس دیکھتا ہی رہوں
میری آنکھوں کو وہ روشنی چاہئے

غیر کے در پہ جھکنے کو بیتاب ہو
کیا جبینو! تمہیں گمرہی چاہئے؟

گر دعا کو ملے عرشِ مقبولیت
تیرے در کی مجھے حاضری چاہئے

سرورِؔ کم ہنر حمد اور یہ زمیں ؟
اسکی خاطر تو کاریگری چاہئے

تبصرے بند ہیں۔