غزل
راجیندر منچندہ بانی
سیر شبِ لامکاں اور میں
ایک ہوئے رفتگاں اور میں
سانس خلاؤں نے لی سینہ بھر
پھیل گیا آسماں اور میں
سر میں سُلگتی ہوا تشنہ تر
دَم سے الجھتا دھواں اور میں
اسمِ ابد کی تلاشِ طویل
حسنِ شروعِ گماں اور میں
میری فراوانیاں نو بہ نو
اب ہے نشاطِ زیاں اورمیں
دونوں طرف جنگلوں کا سکوت
شور بہت درمیاں اور میں
خاک و خلا بے چراغ اور شب
نقش و نوا بے نشاں اور میں
پھر مرے دل میں کوئی تازہ کھوٹ
پھر کوئی سخت امتحاں اور میں
کب سے بھٹکتے ہیں باہم الگ
لمحۂ کم مہرباں اور میں
دور چھتوں پر برستا تھا قہر
چپ رہے کیوں تم یہاں اور میں
غیر مطالب کہیں اور ڈھونڈ
سہل بہت شرحِ جاں اور میں
تبصرے بند ہیں۔