گھر کا ماحول اور تعلیم

تحریر: محمد اسحاق … ترتیب: عبدالعزیز

بہت عرصہ پہلے ایک ضلع کے مستقر پر ’لائبریری ویک‘ منایا گیا جس میں کلکٹر اور ضلع کے عہدیدار اور وکلاء شریک تھے۔ احقر کو بھی کچھ کہنے کا موقع ملا۔ میں نے بتلایا کہ وہ بچہ بڑا ہی بدقسمت ہے جو اپنے گھر میں کوئی کتاب، رسالہ یا اخبار برسوں میں بھی نہیں دیکھ پاتا۔اسی زمانے میں ضلع پریشد کے چیئر مین نے ایک خوبصورت عالیشان مکان تعمیر کروایا تھا لیکن وہاں پر کوئی ایک الماری کتابوں کی نہیں تھی۔ اس گھر میں کالی داس، شیکسپیئر، ٹیگور، غالبؔ اور اقبالؔ کا کہیں گزر نہیں تھا، حالانکہ یہ سب اور بہت سی ایسی شاہکار کتابیں ہیں جنھوں نے ہمارے تہذیب و تمدن کے ہزاروں میل کے سفر کو چند برسوں میں مختصر کر دیا ہے۔ جو بچے ان گھروں میں بڑے ہوتے ہیں وہ اپنے تہذیبی ورثہ اور مشاہیر کے شاندار علمی کارناموں سے بے خبر رہ جاتے ہیں۔
جس گھر کے بڑے اکثر فلمی رسالے، جاسوسی ناول اور ادنیٰ قسم کا لٹریچر پڑھتے ہیں وہی بچوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ بعض طلباء ان رسالوں کو چھپاکر اپنے ساتھ اسکول لاتے ہیں۔ کلاس روم میں آٹھ دس طلباء ان رسالوں کی تصاویر دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ گھنٹہ ختم ہوجاتا ہے، جو سبق پڑھایا گیا وہ ان کے سروں پر سے گزر گیا۔ گاندھی جی نے لکھا ہے کہ فحش لٹریچر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جب اس کا چسکا لگ گیا تو پڑھنے والا فحش سے فحش لٹریچر کا دلدادہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے علم میں ایک بزرگ ایسے بھی ہیں جو روزانہ کسی پان شاپ سے جاسوسی ناول کرایہ پر لاکر پڑھتے ہیں، جب تک وہ جاسوسی ناول ختم نہیں ہوجاتا انھیں چین نہیں آتا۔ یہاں تک کہ باتھ روم میں بھی وہ کتاب ان کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ مطالعہ میں مصروف رہتے ہیں۔ اس شوق کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاتا۔ ان کے بچے بڑے ہوگئے، گھر کے ماحول کی مجرمانہ فضا کا اثر ان کے اخلاق و آداب پر پڑے بغیر نہیں رہا۔ اونچی کرسیوں تک پہنچ جانے کے بعد بھی ان کے قول و فعل سے یہ سارے برے اثرات آج بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
جس گھر کا ماحول پڑھے لکھے لوگوں کا ہوتا ہے وہاں پر بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ترقی کرتے ہیں۔ کسی اونچی ملازمت کیلئے جب یہ انٹرویو دینے آتے ہیں تو ان کے اچھے خاندان اور ماحول کے اثرات صاف ظاہر ہوتے ہیں۔ جاہل خاندان کے امیدواروں کو پہچان لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ دستورِ ہند میں پسماندہ ان طبقات اور شیڈولڈ کاسٹ کو اگر تحفظات نہ دیئے جاتے تو آئی اے ایس میں ہر سال ان طبقات کے شاید ایک دو افراد ہی منتخب ہوسکتے جبکہ ہر سال ایک سو پچاس سے زائد امیدواروں کی کھیپ منتخب ہوجاتی ہے۔
گھر کے ماحول میں پڑھنے کیلئے بچوں کے واسطے علاحدہ کمرے، میز، کرسی، روشنی، ہوا اور پرسکون فضا کی بہت ضرورت ہے۔ ان خاندانوں کے بچے جو تنگ وتاریک گھروں میں یا صرف ایک ہی کمرے میں رہنے کیلئے مجبور ہیں ان کی ترقی کا ریکارڈ کبھی شاندار نہیں ہوسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ اس ماحول سے بھی کبھی کبھی کوئی ایک ذہین طالب علم کسی طرح او پر آجاتا ہے لیکن ایسے حادثات شاذ و نادر ہوتے ہیں۔ ایسے ذہین طالب علم دوسروں کے مقابلے میں احساسِ کمتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اونچے مقام پر پہنچنے کیلئے اندرونی شدید جذبہ، حوصلہ اور خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر کے ماحول نے انھیں پہلے ہی چھوٹا بنا دیا ہے تو وہ خود اپنے کو کب بڑا بنا سکتے ہیں۔ احساسِ کمتری کی دوسر ی شکل یہ بھی ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کی داستانیں بے وقت بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن تو ہے، اسے عام ہونے میں کیا دیر ہے۔ پروگرام صبح سے رات کے 12بجے تک چلتے ہی رہتے ہیں۔ اس گھر کے بچے صبح سے شام تک اس بکس کے سامنے سے ٹلتے ہی نہیں۔ انھیں پڑھنے لکھنے اور ہوم ورک کیلئے وقت کہاں ملے گا۔ پست معیار کے گانے، ڈائیلاگ، مار دھاڑ، ڈسکو، ڈانس نے گھر کے ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹی وی پروگرام ختم بھی ہوجائے اس ڈرامے کے اچھے یا برے اثرات تا دیر قائم رہتے ہیں۔ ایسے میں پڑھنے کا موڈ آجانا کوئی کرشمہ ہی ہوسکتا ہے۔ ایک سال تک اس ماحول میں رہنے کے بعد کسی طالب علم سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کامیابی سے سرفراز ہوگا خود فریبی کی مثال ہے۔ آخر اس ماحول کے ذمہ دار کون ہیں، خود والدین کو بغیر ٹی وی اور ویڈیو کیسٹ کے چین نہیں آتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ٹی وی کے بعض اچھے پروگرام نہ صرف ضروری ہیں بلکہ ان کے عام معلومات اور خود اعتمادی کیلئے بہت کار آمد ہیں۔ یہاں صرف پروگرامس کو کنٹرول کرنے کا سوال ہے۔
گھر کی خوشحالی، ماں باپ کی طرزِ زندگی اور بچوں کے ساتھ سلوک کا بھی بچوں کی تعلیم و تربیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ جس گھر کا ماحول خوشگوار ہو، ماں باپ میں موانست ہو اور ایک دوسرے کی راحت کا خیال رکھتے ہوں وہ بچے سچ مچ خوش نصیب ہیں۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ وہ خاندان دولت مند بھی ہو۔ وہ بچے بڑی مصیبت میں ہیں جہاں پر ماں باپ آئے دن آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے کو طعن و تشنیع سے نوازتے رہتے ہیں، جہاں پر دونوں کا غصہ چڑھ گیا، بس گھر کے ماحول میں زلزلہ ہی آگیا۔ اس ماحول میں بچے کیا خاک پڑھیں گے۔ بعض گھر ایسے بھی ہیں جہاں پر نہ تو غصہ ہے، نہ تو زلزلہ کے آثار ہیں لیکن سارا گھر خاموش ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھر کی فضا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ ایک پوشیدہ راز ہے، اس کو تناؤ (Tention) کہتے ہیں۔ ہر ایک اپنی جگہ خاموش ہے۔ ابا جان کا مزاج ہی ایسا ہے کہ سب دم سادھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سکتہ کا عالم بھی پڑھنے لکھنے کیلئے مناسب نہیں۔ جو بچے مسلسل اس ماحول میں رہتے ہیں اچھے تعلیمی ریکارڈ کے باوجود شدید احساس کمتری کے کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر دن رات تناؤ کی سی کیفیت رہتی ہے، ایسے گھر کے ماحول سے خدا کی پناہ!
بعض والدین کو بچوں کو نصیحتیں کرنے کا شوق مرض کی حد تک ترقی کرجاتا ہے۔ اس کے منفی اثرات بچوں کی تعلیم پر ہوتے ہیں۔ بعض والدین بات بات پر مار دھاڑ پر اتر آتے ہیں۔ غصہ بری بلا ہے، بچے ہمیشہ سہتے رہتے ہیں، ان کی شخصیت کی نشو و نما ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے، یہ کسی انٹرویو کا سامنا نہیں کرپاتے۔
یہ مضمون جتنا آسان اور عام نظر آتا ہے اتنا ہی زیادہ ہم اور عالیشان ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیں اپنے دوستوں، رشہ داروں اور دوسرے مسائل سے بہت دلچسپی ہے، لیکن خود اپنے گھر کے ماحول سے بے خبر رہیں۔ کیا آپ کیلئے ممکن نہیں کہ اپنے بچوں کیلئے ماحول دے سکیں تاکہ ان کی شخصیت میں نکھار آئے اور وہ اپنی زندگی کو کامیاب بناسکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔