فریڈم آف سپیچ یا برداشت کا امتحان
ادریس آزاد
فریڈم آف سپیچ یہ ہے کہ آپ کھُل کر بولو! اور جب آپ کے ’’کھل کر بولے ہوئے‘‘ پر کوئی اور ’’کھل کر بولے‘‘ تو پھر آپ اُسے سہہ سکو تو ٹھیک، ورنہ پھر کھل کر بولو! دوبارہ جب آپ کے ’’کھل کے کر بولنے‘‘ پر کوئی آپ کے خلاف ’’کھل کر بولے‘‘ تو سہہ سکو تو ٹھیک، ورنہ پھر کھل کر بولو! علی ھٰذالقیاس
خیر! جب یہ سلسلہ اِسی طرح چلتا رہا تو اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آپ دونوں فریقین بالآخر گالی گلوچ پر آجاؤگے۔ اب ایک سوال پیدا ہوجائے گا۔ کیا گالی گلوچ بھی فریڈم آف سپیچ میں شامل ہے؟ جواب ہے۔ ’’جی ہاں! اُس نے آپ کو گالی ہی تو دی ہے، مارا وارا تو نہیں، ہاتھ تو نہیں اُٹھایا۔ سو آپ بھی گالی کا جواب گالی سے دو نہ کہ ہاتھ اُٹھاؤ، جلادو! یا ماردو! وغیرہ وغیرہ‘‘
غرض اصل والی فریڈم آف سپیچ یہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی۔ یعنی بات کرنے کی آزادی۔ چاہے گالیاں ہی کیوں نہ ہوں لیکن بات کرنے پر قتل کرنا یا مارنا نہیں ہونا چاہیے۔ فائنل
اب ایک مسئلہ ہے۔ ہرانسان کا ایک بریکنگ پوائنٹ ہوتاہے۔ کیونکہ انسان عقل سے زیادہ جذبات کا بنا ہوا ہے۔ جبکہ فریڈم آف سپیچ کی فلاسفی چاہے وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں اس کے بارے پائی جانے والی منطق ہی کیوں نہ ہو، سب یہ بتاتے ہیں کہ ’’ہاں نا! انسان کو اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ فقط کسی کی زبان سے چند الفاظ سن کر مرنے مارنے پر تیار ہوجائے؟ زبان سے نکلے الفاظ چاہے گالی ہی کیوں نہ ہوں ہیں تو الفاظ ہی۔ کسی کا دل دُکھتاہے تو وہ اپنا دل مضبوط کرنا سیکھے نہ کہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے‘‘۔ اچھا! اب جب فریڈم آف سپیچ کی فلاسفی ہی برداشت کرنا اور عقل استعمال کرتے ہوئے خود پر قابو پانا ہے تو ثابت ہوا کہ یہ ’’بولنے کی آزادی سے زیادہ سہنے اور برداشت کرنے کے مجاہدے کا قانون ہے‘‘۔
بولنے کی آزادی یا برداشت کرنے کی نہایت مشکل مشق؟
چنانچہ اگر اقوامِ متحدہ کے منشور میں ’’ہرکسی کو بولنے کی آزادی ہوگی‘‘ کی جگہ ’’ہرکسی کو سہنے اور برداشت کرنے کا حکم دیا جاتاہے‘‘ کے الفاظ لکھ دیے جائیں تو منطقی اعتبار سے یہ بالکل درست جملہ ہوگا۔ اسی کو کہتے ہیں متبادل بیانیہ۔
وہ نہیں جو میں نے لکھا کہ ’’ہرکسی کو برداشت کرنے کا حکم دیا جاتاہے‘‘، بلکہ وہ جو اقوامِ متحدہ کے منشور میں لکھاہے، ’’ہرکسی کو بولنے کی آزادی ہے‘‘، یہ ہے متبادل بیانیہ۔ متبادل اس لیے کہ اصل مافی الضمیر کو تو چھپا لیا گیا۔ سامراج کا اصل مافی الضمیر تو یہی تھا ، ’’برداشت کرنے کا حکم دیا جاتاہے‘‘، لیکن اُسے کینڈی بنا کر پیش کرنا ضروری تھا۔
برداشت کرنے اور سہنے کا وہ مقام جس کی طلبگار ہماری ’’جدید عقل‘‘ ہے، عامۃ الناس سے توقع کرنا بعینہ ویسا ہے جیسا ’’چرواہا اپنی بھیڑوں سے دوسروں کے کھیتوں میں منہ نہ مارنے کی توقع کرے‘‘۔ جیسے کوئی مصلح اپنے پیروکاروں کو شدید قسم کی ریاضت میں مبتلا کرنے کی توقع کرے۔ یعنی دیکھاجائے تو وہی عمل ہے جو مذہب نے انجام دیا۔
پھر ایک اور سوال، بولنا اور لکھنا بالکل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دونوں کے لیے ایک ہی قانون کیسے بنایا جاسکتاہے؟ جبکہ پوری لبرل کمیونٹی کی طرف سے سمجھا یہی جاتاہے کہ بولنے اور لکھنے، ہردوطرح کی آزادی فریڈم آف سپیچ میں شامل ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ لوگ جو چند ’’کوڈز‘‘ لکھ کر پورے کا پورے بنک لُوٹ لیتے ہیں، الفاظ کی ڈی کنسٹرکشن کے پوسٹ ماڈرن اصول کے تحت، لکھ نہیں رہے ہوتے کیا؟ کہا جاسکتاہے، ان کا لکھنا دراصل بَم کا بٹن دبانے جیسا ہے۔ وہ کوڈ لکھ رہے ہیں۔ وہ کوڈ کاغذ پر لکھتے تو کچھ نہ ہوتا۔ انہوں نے کوڈ لکھا لیکن کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر۔ ان کا لکھا ہوا تعویذ ایک بٹن کی طرح بہت سی مشینوں کو چلانے کا باعث بن گیا اور اس لیے بنک لوٹ لیا گیا۔ چنانچہ ان کا لکھنا اور ہے۔ تب ڈی کنسٹرکشن کہے گی، ثابت ہوا کہ ’’فقط کاغذ پر لکھنا‘‘ لکھنے کی فریڈم آف سپیچ ہے؟
بنیادی غلطی وہاں ہے جہاں ہمارے دماغ فِٹ ہوگئے ہیں کہ جو کچھ مغرب نے سوچ لیا وہی سب سے بہترین سوچ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب نے بہت کچھ ایسا سوچا کہ جو بَڑھیا ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مغرب نے جوکچھ بھی سوچا وہ سب کا سب بَڑھیا ہے۔ فی الحقیقت فریڈم آف سپیچ کا امکان محال ہے۔ کم ازکم عامۃ الناس میں محال ہے۔ کیونکہ انسانی برداشت ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔
اگر انسان برداشت اور انسانی آزادی آپس میں متصادم ہونگے تو ہمیں آزادی پر پابندیاں لگانا ہونگی نہ کہ برداشت پر۔ اور یہ بات کسی قانون کی طرح طے ہے کہ ’’فریڈم آف سپیچ اور سامع کی برداشت آپس میں بالعکس متناسب ہیں‘‘۔
انسانیت کی آزمودہ بات ہے کہ آزادی پر پابندیاں لگانا ممکن ہے اور ہمیشہ سے انسان نے خود پر کتنی ہی پابندیاں فقط اپنے معاشروں کی بہتری کے لیے قبول کی ہیں۔ اسی کا نام قانون ہے۔ اپنے جذبات یعنی آزادی پر انہی پابندیوں کو قبول کرکے ہم نے اتنی بڑی انسانی تہذیب کھڑی کی ہے۔ اوریہ بھی اصول ہے کہ انسانی برداشت کے لیے ہمیشہ اخلاقی ارتقا کی ضرورت رہی ہے۔ جس کے لیے انبیا تشریف لائے۔ اولیا کوشاں رہے۔ برداشت تربیت سے سکھائی جاتی ہے، ایک دم پیدا نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ یہ قطعی طور پر استخراجی مقدمہ ہے کہ فریڈیم آف سپیچ کا نظریہ لازمی طور پر برداشت کے ساتھ کنٹراڈکٹ کرتا ہے۔ ہرکسی کو بولنے کی آزادی دینا بالکل ایسا ہے جیسے ہرکسی کے ہاتھ میں اسلحہ تھما دینا۔ زبان کسی اسلحہ سے کم نہیں۔ ورنہ کبھی بھی رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’زبان اور ہاتھ‘‘ سے دوسروں کو محفوظ رکھنے کی تاکید نہ فرمائی ہوتی۔ جب زبان اسلحہ کی جگہ پر موجود ہے تو پھر ڈھال کی جگہ پر کیا چیز موجود ہوگی؟ فریڈم آف سپیچ کے ماننے والوں کی طرف سے یہاں کہا جائیگا کہ ڈھال کے طور پر ’’برداشت‘‘ موجود ہونی چاہیے۔ اچھا! لیکن اسلحہ کے سامنے ڈھال بھی ہوتی ہے تو اسلحہ کے سامنے اسلحہ بھی لانا جائز ہوتاہے۔ کیا زبان سے ہونے والی فائرنگ برداشت نہ ہورہی ہو تو اسلحہ کے مقابلے میں اسلحہ لایا جائے؟ یعنی گالی کا بدلہ گالی سے دیا جائے؟ فریڈم آف سپیچ کے ماننے والوں کی جانب سے جواب آئے گا کہ ’’جی ہاں!‘‘ گالی کا جواب گالی سے دیا جائے ہاتھ سے نہیں اور یہ سلسلہ جب تک جاری رہے رکھا جائے۔
اتنی بحث سے تو ایک ہی بات ثابت ہوگی کہ فریڈم آف سپیچ کا نظریہ بنیادی طورپر انسانوں کی تربیت کے لیے وارد ہوا ہے اور وہ تربیت بعینہ وہی تربیت ہے جو مذہب کی ذمہ داری رہی ہے یعنی اخلاق کے ذریعے برداشت سکھانا۔
غرض فریڈم آف سپیچ کا نظریہ بنیادی طور پر آزادی کا نظریہ نہیں ہے بلکہ پابندی، قید اور بنیادی حقوق سلب کرنے کا نظریہ ہے۔ یہ فی الاصل برداشت سکھانے کا نظریہ ہے اور یکایک برداشت سکھانے کے احمقانہ تصور پر مبنی ہے۔ کسی کو برداشت پر مجبور کرنا حاکمانہ طرزعمل ہے، وہی جو آقاؤں کا طرزِ عمل ہوا کرتا تھا اپنے غلاموں کے لیے، اور اس لیے یہ کسی صورت آزادی نہیں کہلاسکتی۔ اسی لیے میں نے کہا کہ یہ سامراج کا متبادل بیانیہ ہے اور یہ بات استخراجی لاجک سے ثابت ہوتی ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔