اسلامک اور انٹرنیشنل!

محمد انور حسین

آپ اگر ایک عدد بچے کے یا دوعدد بچوں کے ماں باپ ہیں اور اگر آپ کے بچے آپ کی گود سے اتر چکے ہیں اور بار بار اتر کے دوڑنے لگے ہیں تو سمجھیے کہ استانی ماں کی گود بھرایی کا وقت آگیا ہے۔

ارے آج کل تو استانی ماں کو "ٹیچر” یا "میام ” کہا جاتا ہے .بہت سی کمپنیاں اپنے پروڈکٹس کو فروخت کرنے کے لیے میڈمس کا سہارا لیتی ہیں۔ ۔تو اب اسکولس میں بھی بہت سی میڈمس آگیی ہیں۔ جیسے پرنسپل میڈم ‘سامان کی خرید وفروخت اور آمدنی اور گھاٹے کا حساب رکھنے کی الٹیمیٹ ذمہ داری ان ہی کی ہوتی ہے۔

دوسری میم ریسپشن میم  ہوتی ہے جن کے پاس لوگوں کا استقبال کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو اپنی حلال برانڈ کی لپسٹک سے والدین کا استقبال کرتے ہوئے اپنی انگریزی سے دونوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہے اور ساتھ ہی اپنی مسکراہٹ کے ذریعے والد کے دل میں رشک اور ماں کے دل میں حسد کا جذبہ پیدا کرنے میں  بھی کامیاب ہوجاتی ہے۔

تیسری میڈم چپراسن ہوتی ہے جو بچوں کے گالوں کو بڑے پیار سے چمٹتی ہیں، بچوں کے فطری تقاضے جب غیر فطری طریقے سے پورے ہوتے ہیں تو   اس قدر والہانہ انداز میں تعاون کرتی ہیں کہ بچوں کو ان کی نانیاں یاد آجاتی ہیں۔

اس کے علاوہ اگر آپ اسکول میں تفریح کریں تو بہت سی میمس نظر آییں گی۔ پی ٹی۔ میم’کمپیوٹر میم، عربی میم، ڈراینگ میم، انگریزی میم جو در اصل ریڈ انڈین جیسی ہی ہوتی ہے، میاتھ میم اور ساینس میم وغیرہ وغیرہ۔

جیسے جیسے والدین اسکول میں گھومتے ہیں یہ ساری میمس ان بچوں  کے ساتھ جو مختلف سامانوں کے بدلے پہلے  ہی حاصل کیے جا چکے ہیں اپنی پرفارمنس کو نمایاں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ خوشنما یونیفارم، کچھ سفید اور کچھ سفیدی مایل چہرے، حلال لبسٹک سے چمکتی مسکراہٹیں۔۔۔جنت ارضی کا سماں پیدا کرتی ہیں۔

جب پرنسپل میم کے پاس سودے بازی اختتام کو پہنچتی ہے اور اپنے بینک بیلنس کی ایک کثیر رقم، جو بچہ پیدا ہونے سے پہلے سے جمع ہورہی تھی خالی ہوجاتی ہے تو ایک اور میم آپ کو اسکول بیاگ، پونیفارم، ٹایی، شوز، چڈی،ہفتہ کا اسکرٹ، جمعہ کا اسکارف، بہت سی کتابیں کمپیوٹر ساینس سے  ماحولیات تک۔ ۔بہت سی کاپیاں ریاضی سے  جی۔ کے۔ تک سب  بڑی نفاست سے والدین کے حوالے کرتی ہے اور خبردار بھی کرتی ہے کہ باہر کی خریدی ہوئی کویی چیز اسکول میں الاوڈ نہیں ہے۔ والدین اپنی گود سے بچے کو اتار کر یہ سب   سامان گود میں بھر کر لے جاتے ہیں۔ اسکول میں داخلہ ہوچکا ہوتا ہے۔

دوسرے دن خلاف معمول اٹھنا، ٹفن بنانا، اسکول بس میں سوار کرانا اور دل تھام کر انتظار کرنا، والد صاحب کا بار بار کلاس ٹیچر سے ربط میں رہنا ایک الگ ہی احساس پیدا کرتا ہے۔ جب بچہ اسکول کی روداد سناتے ہوے ممی اور میم کے بارے میں کنفیوز ہونے لگتا ہے تو اس وقت والد صاحب کی افسانوی خوشی دیکھتے ہی بنتی ہے!!!

 کچھ دنوں کے بعد بچوں کی کاپیاں بھرنے لگتی ہیں، ہوم ورک پر ہوم ورک۔ ریاضی، انگریزی ، ہندی، ڈراینگ اور کرافٹ بھی ہوم ورک میں دیے جانے لگتے ہیں۔ ساتھ میں ہدایت بھرے کامنٹس بھی کہ ہوم ورک ٹھیک سے کرواییے، کرسیو رایٹنگ صحیح نہیں آرہی ہے۔ ٹیبلس یاد نہیں ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

  جب ماں اپنا ہوم ورک نوکرانی سے کرواکر فارغ ہوتی ہے تو بچوں کا ہوم ورک  سامنے آجاتا ہے۔ ہوم ورک کراتے وقت اپنے گریجویٹ ہونے پر شرمساری کا جو احساس ہونے لگتا ہے اس شرم کے کیا کہنے!

ماں چالاکی سے یہ کام بحکم باپ کے اختیار میں دے کر  بہت خوش ہوتی ہے کیونکہ باپ کو یاد نہیں کہ ضرب اور تقسیمِ میں حاصل کہاں لکھتے ہیں۔ ۔اس شکست خوردگی پر ماں کے تبصرے جگر کو چھلنی کر دیتے ہیں اور لازمی نتیجہ ہاضمہ کی خرابی اور ڈایبیٹیز پر جاکر رکتا ہے۔

  سال کے اختتام پر پروگریس کارڈپر گریڈ اے A۔کا نشان ملتا ہے اور پرسنٹیج 98.93%..والدین کی خوشی کا عالم  مت پوچھئے۔۔جب غور سے پڑھتے ہیں تو اچانک مسکراتے چہرے بار بار اپنے بچے کو اور پروگریس کارڈ کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ۔جہاں لکھا ہوتا ہے ” آپ کے بچے کو مطالعہ کا بہت شوق ہے”.ساینس میں بہت زیادہ دلچسپی ہے وغیرہ وغیرہ۔ "

یہ نتیجہ تھا ان تمام ہدایات پر عمل کرنے کا جو پرنسپل میڈم کی طرف سے ملتی رہتی تھیں کہ” کرسیو رایٹنگ کا ٹیوشن لگانا پڑے گا "اس کی سہولت ہمارے اسکول ہی میں ہے ہمارے پاس ایک کرسیو میم بھی موجود ہے۔ اس طرح ساینس، انگریزی، اور ریاضی سب کے ٹیوشن اسکول ختم ہونے کے بعد اسکو ل ہی میں لیے جاتے ہیں۔

حقیقتاًبچہ کی حالت اس یتیم کی طرح ہوجاتی ہے  جس کی کفالت کرنےوالے اس پر ظلم و جبر کر رہے ہوں۔ ماں باپ کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب بچہ آیی آیی  ٹی، اور نیٹ میں اسکور نہیں کرتا ہے۔ ۔۔۔۔اور پونجی کی پونچی غایب ہوجاتی ہے۔ کیونکہ بہت سارے انٹرنیشنل اور اسلامک کے نام سے چلنے والے اسکولس نسل نو کے قبرستان پر اپنے خوشنما محل تعمیر کر رہے ہیں۔

نہ وہ بچوں کو اسلامک بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں نہ انٹرنیشنل۔

تبصرے بند ہیں۔