عقل کی حدود اور کانٹ کی فکر پر ایک سوال

ادریس آزاد

جرمن فلاسفر کانٹ کو ماڈرن فلسفہ کا مرکزی کردار سمجھا جاتاہے۔ کانٹ کی سب سے مشہور کتاب (Critique of Pure Reason)تنقیدِ عقل ِ محض ہے۔ عقل ِ محض پر تنقید کرنے سے پہلے کانٹ نہایت سلیقے سے انسانی عقل کی حدود، ساخت اور اس کے طرز ِ عمل کا مشاہدہ کرتاہے۔

اسی مشاہدہ کے دوران کانٹ کچھ نئی اصطلاحات متعارف کرواتاہے۔ جو اب خاصی مشہور ہیں۔ جیسا کہ “اے پری آری” ۔۔۔۔ “اے پوسٹیری آری”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا “نامینا” اور فِنامِنا” وغیرہ۔ عقل کے بارے میں کانٹ کی نہایت محنت سے کی گئی اس منظر کاری کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینے کے بعد کانٹ کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر کانٹ کے مطابق چیزوں کی دو قسمیں ہیں،

۱۔ جیسی وہ سچ مچ ہیں (نامینا)

۲۔ جیسا ہم اُن کا مشاہدہ کرتے ہیں، یا جیسی ہمیں نظر آتی ہیں (فِنامِنا)

مثال کے طور ہم ایک دیوار کو دیکھ رہے ہیں جس کا رنگ ڈارک گرین ہے۔ ہم نے دیوار کا مشاہدہ کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا رنگ ڈارک گرین ہے اور یہ ایک دیوار ہے۔ یہ ہے فنامنا۔

لیکن کیا وہ دیوار فی الاصل بھی ڈارک گرین کلر کی شئے ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں سب کے سب رنگ روشنی کی شعاع کے ریفلیکشن کی وجہ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہماری جگہ کوئی اور جانور اسی دیوار کا مشاہدہ کرتے ہوئے ضروری نہیں کہ ڈارک گرین کلر ہی دیکھے۔

وہ سرخ دیوار دیکھ سکتاہے۔ یہ اس کے مشاہدےپر منحصر ہے۔ جو وہ اپنی دماغ کی ساخت اور عقل کے استعمال کی وجہ سے کرپاتاہے۔ فلہذا اگر دیوار ڈارک گرین نہیں ہے تو وہ کیا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ وہ اصل میں کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔یہ نامنا ہوگا۔ کانٹ کہتاہے کہ نامنا ہمیشہ ناقابل ِ مشاہدہ رہیگا۔

اسی طرح کانٹ کہتاہے کہ علم کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

۱۔ اے پری آری

۲۔ اے پوسٹیری آری

اے پری آری علم وہ ہے جس کا مکمل مشاہدہ کرنا ناممکن ہے۔ جبکہ اے پوسٹیری آری علم وہ ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کہے،

“تمام غیر شادہ شدہ لوگ کنوارے ہیں” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم زمین پر موجود تمام غیر شادی شدہ لوگوں کے پاس جائیں اورپھر انہیں ٹیسٹ کریں کہ آیا وہ سچ مچ کنوارے ہیں؟ اور اگر کسی طرح ہم نے سب کے سب تک رسائی حاصل کربھی لی تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ جو جواب دینگے وہ سچ ہوگا؟

اگر ایک شخص کنوارا نہ ہوا اور اُس نے کہہ دیا کہ وہ کنوارا ہے تو ہمارے پاس کیا ٹُول ہوگاکہ ہم اس کی بات کی تصدیق کرسکیں؟ چنانچہ ایسا کوئی بھی علم جس کا مکمل مشاہدہ ناممکن ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اے پری آری اور اِس لیے ناقابل ِ تصدیق ہوتاہے۔ جبکہ “اے پوسٹیری آری” کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ:

“کچھ شادی شدہ لوگ ناخوش ہوتے ہیں۔”

تو ہم بڑی آسانی سے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ کچھ شادی شدہ لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کرتے ہی ہمیں اس کی تصدیق یا تردید ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا علم جو قابل ِ تصدیق و مشاہدہ ہوتاہے اور جسے کانٹ اے پوسٹیری آری نالج کہتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانی عقل کی تسکین کا باعث ہوتاہے کہ وہ اُن جوابات کی تصدیق کا اہل ہے جو کسی عقل کے پاس کسی قسم کے سوالوں کے لیے موجود ہیں۔

کانٹ بڑا زوردار فلاسفر ہے اور بڑے دماغوں کو اپنی مات منوانا جانتاہے۔ تاہم حقیقی مسئلہ جو کانٹ کے نامنا اور فنامنا سے پیدا ہوتاہے وہ یہ کہ:

اگر یہ بات بلااختلاف درست ہے کہ ہم فنامنا کا مشاہدہ کرنے کے اہل ہیں اور نامنا کا مشاہدہ کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں تو منطقی اعتبار سے کس طرح ممکن ہے کہ کانٹ جیسا دعویٰ قائم کیا جاسکے اور نامنا کے وجود کو فرض کیا جائے؟مختصر الفاظ میں،

“ایک پیدائشی اندھا کیسےجانتاہے کہ وہ اندھا ہے؟”

فی الاصل وہ لوگ جو نابینا نہیں ہوتے اُسے بتاتے ہیں کہ وہ نابیناہے۔فلہذا نامنا ایک بامعنی چیز کیسے ہوسکتاہے جب اس کا مشاہدہ ہی ممکن نہیں؟ فرض کریں کہ ہم سب اندھے ہیں تو پھر ہمیں کون بتائے گا کہ ہم اندھے ہیں؟ اور اس نامنا کا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ باہر ایک دیکھے جاسکنے کے قابل دنیا بھی ہے؟

اس سوال کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ ہم سائے کو دیکھ رہے ہوں تو ہمارے دماغ کو علم ہوتاہے کہ یہ کسی نہ کسی روشنی کی وجہ سے ہے۔ روشنی کے رستے میں کوئی چیزآئی ہے جس سے سایہ بن رہا ہے۔ حالانکہ ہم روشنی کو دیکھ نہیں سکتے۔ ہم صرف سائے کو دیکھ سکتے ہیں۔

ہم فنامنا دیکھ کر ایک نامنا کے ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ وہ جو کہ روشنی ہے۔چنانچہ نامنا تجربے سے نہیں عقل کے خودکار استخراجی عمل سے نمودار ہوتاہے۔عقل سے سرزد ہونے والے اس استخراج کو قیاس بھی کہا جاتاہے۔لیکن اس جواب پر بھی بہت سے اعتراضات وارد ہوتےہیں، جیسا کہ یہ کہ، “قیاس کیا ہے؟” قیاس محض ایک اندازہ ہے جو پھر قابل ِ مشاہدہ نہیں۔

کانٹ کہتاہے “سوچیں بغیر مواد کے خالی ہیں۔ وجدان بغیر تصور کے اندھا”

تبصرے بند ہیں۔