امداد کے نام پہ کرو نہ رسوا کسی غریب کو!

احساس نایاب

بہت تکلیف ہوتی ہے جب ہم اپنے اردگرد یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے ہیں اور درد کی انتہا تواس وقت ہوتی ہے جب ایک باپ اپنے بچوں کے آگے خود کو لاچار محسوس کرتے ہوئے نظریں چرانے لگتا ہے اور ایک ماں اپنے شوہر کی بے بسی پہ آنسو بہاتی ہے تو معصوم بچے اپنے ماں باپ کی حالت زار کو بھانپ کراپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو اپنے دل میں دفن کردیتے ہیں۔

جیسے اُس دن ہوا جب رحمتوں والی چاندرات تھی، سارا عالم خوشی سے جھوم رہا تھا، بازاروں میں خرید وفروخت کی گہماگہمی مچی تھی، سارے شہر کو دولہن کی طرح سجایا گیا تھا کیونکہ اسُ دن آمد رمضان جو تھا، وہیں پہ ایک طرف ان ساری جگمگاہٹوں کے بیچ ایک ایسا گھر نظر آیا جس میں جلنے والی روشنی اتنی دھیمی تھی کہ دیکھنے سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ یہ گھر غربت سے گھرا ہوا ہے۔ شہر کے شورو غل کے بیچ اس گھر میں قیامت کا سناٹا برپا تھا، ہمارے اندر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی، دل کررہاتھاکہ ہم وہاں جائیں اور آخر کار ہم سے رہا نہیں گیا اور ہم دبے قدموں سے جھجھکتے ہوئے اس گھرکی چوکھٹ پہ جا کھڑے ہوگئے اور آہستہ سے سلام کیا، ہماری آواز سن کرایک چھوٹی سی معصوم بچی باہر آئی اور ہمیں دیکھتے ہوئے اپنی امی کو آواز دینے لگی، امی جلدی باہر آئیں مہمان ہیں۔  بچی کی آواز سن کر اس کے بھائی اور بہن بھی کمرے سے باہر آئے اور سہمی آنکھوں سے ہمیں دیکھنے لگے کہ اتنے میں ان بچوں کی بے بس ماں بھی آگئی اور وہ بھی ہمیں حیرت سے دیکھنے لگی، ایسا لگ رہا تھا وہ ہمیں پہچاننے کی کوشش کررہی ہے۔  ہم انہیں اپنے بارے میں بتانے ہی جارہے تھے کہ ایک بچے نے کہا امی ابو آ گئے یہ سنتے ہی ہم جھجکتے ہوئے ایک طرف ہوگئے۔ ہماری جھجک محسوس کرتے ہوئے بچوں کی ماں نے ہمیں بیٹھنے کیلئے کہا، ہم ان کی بات مان کر پاس ہی میں دیوار سے لگی کُرسی پر بیٹھ گئے۔ ہم پریشان ہوکر اپنی ہی کشمکش میں ڈوبے ہوئے تھے، کیونکہ ہم ایک انجان گھر میں بن بلائے مہمان کی طرح چلے آئے تھے، جہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا تھا اور ہمیں کچھ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا کہیں۔۔۔

 اتنے میں آ منہ کہتی ہوئی مردانہ آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی اور بچوں کی والدہ یعنی آمنہ نے جواب میں جی کہتے ہوئے اپنے شوہرسے مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ یہ دیکھیں ہمارے گھر اللہ کی طر ف سے مہمان آئے ہیں، آمنہ کے ان الفاظ میں اتنا اپناپن اور احترام تھا کہ ہم پل بھر کیلئے بھول گئے کہ یہ کوئی اجنبی ہیں جنہیں تھوڑی دیر پہلے ہم جانتے بھی نہیں تھے۔ آمنہ نے ہمارے آگے شربت سے بھرا گلاس بڑھا دیا اور بڑی محبت کے ساتھ ہمارے پاس والی کُرسی پہ بیٹھ گئیں۔

جیسے وہ ہمیں برسوں سے جانتی ہوں ہمیں بھی ان کے اس روئیے سے اطمینان ہوا۔ ہم دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے اور اُدھر آمنہ کے شوہر ہاتھ میں کپڑے کی تھیلی لیکر باہر نکل گئے۔ شاید انہیں رمضان کی خریدوفروخت کرنی تھی، آمنہ اور ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور آج ہمیں آمنہ کی شکل میں بہت اچھی سہیلی مل گئی تھی، دل تو کررہا تھا کہ اور بھی بہت ساری باتیں کریں پر بہت دیر ہوگئی تھی، ہمیں بھی اپنے گھرجا کر سحری کی تیاری کرنی تھی، یہی سوچ کر ہم آمنہ سے اجازت لیتے ہوئے وہاں سے نکل ہی رہے تھے کہ آمنہ کے شوہر سلام کرتے ہوئے دوبارہ گھر کے اندر داخل ہوئے اور ابا کی آواز سن کر تینوں بچے دوڑتے ہوئے اپنے ابو کے قریب آئے اور اپنے ابو کے ہاتھوں سے تھیلیاں چھیننے لگے، اس امید پر کہ تھیلی میں پھل فروٹ اور بہت کچھ ہوں گے لیکن افسوس بچی نے اپنے ابو کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ابو آپ تو سحری کیلئے سودا اور میوہ لانے کیلئے گئے تھے، یہ کیا ہے تھیلی میں تو کچھ بھی نہیں ہے اس بچی کے ساتھ ساتھ دو بھائی بہن بھی بول پڑے کہ ” ابو ہم سحری میں کیا کھائینگے ؟“ بچوں کی اس بات سے آ منہ کے شوہر شرمسار ہوگئے اور بچوں سے نظریں چراتے ہوئے پھر گھر سے باہر نکل گئے۔ وہیں اپنے شوہرکی بے بسی اوربچوں کی باتیں سنکر آمنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے پر ہماری موجودگی کا احساس ہوتے ہی آمنہ نے جلد ہی دوپٹہ سے اپنے آنسو پوچھ لئے اور بچوں کو دلاسہ دینے لگی کہ بچوں کیوں پریشان ہوتے ہو انشاءاللہ سحری میں ہم آپ کیلئے بہت کچھ بنائینگے، ماں کی اس بات پر گڑیا کا چھوٹا بھائی ببلو اپنی توتتلی زبان میں کہنے لگا امی پکانے کےلئے توگھر میں کچھ ہے ہی نہیں، دو دن سے تو باسی دال چاول کھا رہے ہیں اور آپ نے تو کہا تھا کہ چاندرات کو ابو سامان لائیں گے پر ابو تو کچھ نہیں لائے اب آپ کیا بناؤگی اور ہم روزہ کیسے رکھیں گے؟

اُف ان معصوم بچوں کی ساری باتیں اس وقت ہمارے ضمیر کو جھنجوڑ رہی تھیں اور آمنہ کا لاچار چہرہ ہم سے دیکھا نہیں جارہا تھا پر ہم کسی طرح خود کو سنبھالتے ہوئے اپنے پرس سے کچھ پیسے نکال کر بچوں کو دینے لگے یہ کہتے ہوئے کہ بچوں آپ کی ماسی کی طرف سے یہ آپ کے لئے عیدی ہے جو چاہے لے لو، لیکن اس کے لئے آ منہ نے ہمیں روکنا چاہا پر ہم نے آمنہ کو کچھ کہنے ہی نہیں دیا کیونکہ ہم وہاں کے حالات سے بخوبی واقف ہوچکے تھے۔ بیچاری آمنہ زبان سے تو کچھ کہہ نہ سکی پر ان کی آنکھوں سے جذبات کا ایسا سیلاب امڈا جسے وہ چاہ کر بھی روک نہ سکی۔ آمنہ کی بے بسی انکی یہ حالت دیکھ کر ہماری آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے اور ہم کسی طرح آمنہ سے اپنی نظریں چراتے ہوئے اللہ حافظ کہہ کر وہاں سے نکل آئے۔

اُس دن کے بعد کئی راتیں ہم سو نہیں پائے، ہر لمحہ ہماری آ نکھوں میں آمنہ کا درد سے بھرا چہرہ نظر آتا اور معصوم بچوں کی باتیں ہمیں بے چین کردیتی۔

آج ہمارا یہ سب کچھ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ کنبہ غربت میں بھی اللہ کا شکر گذار اور پُر سکون تھا ان کے درد کی اتنہاء انکے صبر کا باندھ تو اس وقت ٹوٹا جب ہم نے ان کی مدد کرنی چاہی  اور ہم نے تو تنہائی میں مدد کی تھی جس سے انہیں اتنی تکلیف پہنچی کہ وہ اپنے آنسوﺅں کو ضبط نہ کرپائے۔ ۔۔ تو ذرا سوچیں ان لوگوں پہ کیا گزرتی ہوگی جنہیں امداد کے نام پر سرعام رسواء ہونا پڑتا ہے۔ لمبی لمبی قطاروں میں روزہ کی حالت میں تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑے رہنا پڑتا ہے اور ہم لوگ ان کے ساتھ ان کی مجبوریوں اور اپنی دریا دلی کی تصاویر کھینچواتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں، شاید اس وقت تو وہ شرمندگی سے ریزہ ریزہ ہوجاتے ہونگے اور انکی اس رسوائی و شرمندگی کی وجہ ہم خود ہیں , اسلئے جب کسی کی مدد کرنی ہے تو اس طرح کریں جیسے اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں۔ خاموش طریقے سے امداد کے نام پر کسی کی خودداری کو ٹھیس نہ پہنچائیں، ان کی عزت نفس کو تار تار نہ کریں، ایسے ضرورت مندوں کی مدد کریں جو اپنی مجبوری کو دکھا بھی نہیں سکتے، بتا بھی نہیں سکتے اور نہ ہی کہہ کر مانگ سکتے ہیں۔

رمضان کا ماہ مبارک ہے جو بھی کریں بس رب کی رضا کےلئے کریں دنیا کو دکھانے کے لیے نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔