فقہاء عظام کا بد قسمت گروہ!
محمد صابر حسین ندوی
اسلام ایک ایسا دین ہے، جو عند اللہ مقبول اور نیاز مندی کا ذریعہ ہے ’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘(آل عمران:۱۹)یہ آسمانی ادیان ومذاہب میں سب سے آخری دین ومذہب ہے، جس کے اندر ابد تک انسانی زندگی کے ہر گوشہ پر خواہ اس کا تعلق معاشرہ سے ہو، اخلاق سے ہو، خانگی زندگی سے، ملکی سیاست یا بیرونی مکالمات اور انسانی روابط وضوابط سے ہی کیوں نہ ہو، اس کے اندر ابدیت وجامعیت کا سنہرا امتیاز ہے ’’الیوم اکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘(المائدہ:۳)یہی وجہ ہے اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے لے لیا ہے(ا نّانحن نزّلنا الذکر وانّالہ لحافظون‘‘(الحجر:۹)لیکن اس کو پوری انسانیت تک پہونچانے، انہیں راہ راست پر لانے اور پیغمبر ِدوزماں ؐ کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے ہمیشہ انہیں میں سے ممتاز اور چنندہ وچیدہ اشخاص کو اللہ نے منتخب فرمایا؛جنہوں نے دین وشریعت کی تبلیغ واشاعت کا بیڑا اٹھاتے ہوئے اسے ہر طرح کے کتر بیونت(کانٹ چھاٹ) سے محفوظ رکھا، خاص طور سے تین گروہوں کا کردار اس میں سب سے نمایا رہا ہے، ایک قراء وحفاظ کا : جنہوں نے قرآن مجید کے الفاظ اور لبو ولہجہ کی حفاظت کی، دوسرے محدثین وناقدین رجال کا:جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کوامت تک پہونچایا، اور بڑی ذہانت وتندہی کے ساتھ کھرے وکھوٹے کو الگ کیا، تیسرے فقہاء کا: جن کے ذریعہ قرآن و احادیث کے معانی ومفاہیم کی وضاحت ہوئی اور انہوں نے قرآن مجید کو معنوی تحریف سے بچایا۔
حقیقت یہ ہے کہ علماء ودانشمندوں کا یہی گروہ اور بالخصوص فقہاء کرام کی یہ جماعت ہمیشہ طعن وتازیانہ کا مستحق ٹھہری، اور کبھی سنہرے باغ اور فلوس وریال کی آزمائشوں کا محور بنی ؛لیکن آگ کے اس دریا کو اور پھول کے اس سیج کو بڑی محتاط طریقے سے دامن بچاتے ہوئے؛نہ صرف دین شریعت کی حفاظت کی ؛بلکہ تاریخ میں ایک زریں باب رقم کردیا، یہ امام ابوحنیفہؒ ہیں جنہیں ایک دو نہیں سو ؍۱۰۰کوڑے لگائے گئے، قید کی سزا برداشت کرنی پڑی اور قید خانے میں ہی ان کی وفات ہوئی ’’فضرب مأۃ سوط وحبس ومات فی السجن ‘‘(مناقب الامام ابوحنیفہ وصاحبیہ :۱؍۲۷)، یہ امام مالک ؒ ہیں جنہیں جعفر بن سلیمان نے اسی ؍۸۰کوڑے لگوائے، صرف اس لئے کہ وہ حالتِ اکراہ کی بیعت کو نامعتبر قرار دیتے تھے، اور ایک موقع پر ان کے ہاتھ اس طرح کھینچوا دئے کہ بازو مونڈھو سے الگ ہوگیا، (ترتیب المدارک :۲؍۱۳۳)۔ یہ امام شافعی ؒ ہیں قریب تھا کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید ان کو قتل کرا دیتا ؛لیکن امام محمدؒ کی سفارش نے ان کی جان بچائی (الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ لأئمۃ الفقہاء مالک والشافعی وابی حنیفۃ:۱؍۹۶)۔ یہ امام احمد بن حنبل ؒ ہیں ، جن کو ایسی ابتلاء وآزمائش سے گزرنا پڑا کہ اسلام کی تاریخ میں شاید ہی کسی عالم کو دین پر استقامت کی ایسی سزا ملی ہو (سیر اعلام النبلاء:۱۱؍۳۵۵)۔
اور یہ امام محمد بن حسن ؒ ہیں جنہوں نے ایک مظلوم کی حمایت میں فتوی دیا اور حسن بن زیاد نے ان کے فتوی کی تائید کی لیکن قاضی وہب ابن وہب نے خوشآمد میں اس مظلوم کے خلاف فتوی دیا جس کو بادشاہ قتل کرنا چاہتا تھا ؛چناچہ ہارون نے اپنے سامنے پڑی ہوئی دوات اٹھا کر اس زور سے امام محمد کے چہرے پر ماری کہ آپ کا چہرا زخمی ہوگیا، امام محمد باہر نکل آئے اور دیر تک روتے رہے، جب پوچھا گیا کہ ایک زخم پر جو اللہ کے راستہ میں لگا ہے، آپ کس قدر روتے ہیں ؟تو امام محمد ؒ نے فرمایا:نہیں ! اس لئے رورہا ہوں کہ مجھے مخالف فتوی دینے والے سے پوچھنا چاہئے تھا تم نے یہ فتوی کس بنیاد پر دیا ہے ؟ اور حق گوئی سے کا م لیتے ہوئے اس کے خلاف حجت قائم کرنی چاہئے تھی، چاہے میں قتل کردیا جاتا لیکن میں اس کی ہمت نہیں کرسکا (اخبار ابوحنیفۃ واصحابہ:۱۲۶)۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ بھی ایسی ہی آزمائش سے گزرے، علامہ سرخسی ؒ نے اَوَزجند کے قید خانے میں ایک مدت گزاری اور وہیں پندرہ جلدوں میں ’’المبسوط‘‘ جیسی فقہی انسائیکلوپیڈیا مرتب فرمائی (الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ :۲؍۲۸)۔ اور بعض اہل علم کے قول کے مطابق اندھے کنویں میں قید کردئے گئے، وہ وہیں سے کتاب املا کراتے تھے اور ان کے تلامذہ کنویں کے منڈیر اسے تحریر کرتے تھے (تاج التراجم لابن َقطلوبُغا:۲۳۵)۔
امام سعید بن جبیر کو حجاج بن یوسف نے جانور کی طرح ذبح کرادیا ؛لیکن ان کے لہجہ میں کہیں باطل کے سامنے سر نگو ہونے کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوسکا (وفیات الاعیان:۲؍۳۷۳)، امام سعید بن مسیب کو عبدالملک بن مروان نے سرد موسم میں پانی ڈلواکر پٹوایا اور ایک اور موقع پر پچاس کوڑے لگواکر سربازار تشہیر کروائی (وفیات الاعیان:۲؍۳۷۶)، عمیر بن ہبیرہ کو یزید بن عبدالمک کی طرف سے عراق وخراسان کا والی بنایا گیا اور انہوں نے حضرت حسن بصری سے ایک سوال کیا جس کا مقصد ان کو پھنسانا تھا، حسن بصری نے جواب میں فرمایا :اے ابن ہبیرۃ! یزید کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملہ میں یزید کا خوف نہ کرو، اللہ تعالی تجھ سے یزید کے شر کو دفع کر سکتا ہے مگر یزید اس احکم الحاکمین کے قہر کو روک نہیں سکتا (وفیات لاعیان:۲؍۱۷)، والی مصر ابن سہیل امام یزید ابن حبیب تابعی کی عیادت کو آیا اور دریافت کیا :کہ جس کپڑے کومچھر کا خون لگا ہو اس میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟ امام نے غصہ سے کہا تو روزانہ اللہ کے بندوں کا خون بہاتا ہے اور مچھر کے خون کے بارے میں مسئلہ پوچھتا ہے(تذکرۃ الحفاظ :۱؍ ۱۳۰)، امام اوزاعی، سفیان ثوری، امام اعمش کوفی، عبداللہ بن طاؤس وغیرہ کتنے ہی علماء وفقہاء ہیں کہ حق گوئی اور بے باکی نے ان کی جان خطرے میں ڈال دی اور بادشاہوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوتے بچے۔
دراصل سلف صالحین کی یہ قربانیاں اور علماء ربانیین کی تاریخ حضور اکرم ﷺ کے فرمان:’’افضل الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان جائرأو امیر‘‘(ابوداود:۴۳۴۴)کا نتیجہ ہے، یعنی دین حق کی ترجما نی وتبلیغ میں بے لوچ ولچک رویہ رکھنا خواہ اسکے لئے گردنوں کو تھالیوں میں سجا کر دینا پڑے ؛قبول کرنا تھا، حضور ﷺ نے میدان جنگ میں سیف وسنان سے جہاد کرنے کو اگرچہ افضل قرار دیا ؛لیکن علماء ربانیین کے کلمہ حق کو افضل الجہاد سے تعبیر فرمایا، اس نکتہ پر بحث کرتے ہوئے اور اسکی حکمت بیان کرتے ہوئے ’’ انما صار ذلک افضل الجھاد لأن من جاھد العدو کان مترددا بین رجاء وخوف لایدری ھل یغلب أو یغلب وصاحب سلطان مقھور فی یدہ فھو اذاً قال الحق وأمرہ بالمعروف فقد تعرض للتلف فصار ذلک افضل أنواع الجھاد من أجل غلبۃ الخوف ‘‘(معالم السنن :۴؍۳۵۰)یعنی سب سے بہتر جہاد یہ اس لئے ہے کہ جو دشمن سے جہاد کرتا ہے وہ امید اور خوف کے درمیان ہوتا اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ غالب ہوگا یا مغلوب اور بادشاہ کے سامنے یہ مقہور ومغلوب ہوتا ہے لہذا جب اس نے حق بات کہی اور بھلائی کا حکم دیا تو اس نے اپنے آپ کو راہ حق میں ہلاکت کے لئے ہی پیش کیا، لہذا خوف کے غالب ہونے کی وجہ سے یہ جہاد کی افضل شکل ہے۔
’’کلمہ حق ‘‘کا لفظ عام ہے اور اس میں مظلوم کی نصرت کے ساتھ ساتھ دین حق اور شریعت کی نصرت بھی شامل ہے اسلئے رسول اللہ ﷺ نے ان علماء کو پسند نہیں فرمایاجو دربار شاہی کا چکر لگاتے رہتے ہوں ؛ کیونکہ جو لوگ حکمرانوں کے یہاں آمد ورفت رکھتے ہیں وہ عام طور سے فتنوں سے محفوظ نہیں رہ پاتے’’ومن أتی ابواب السلطان افتتن ‘‘(ترمذی:۲۲۵۶)، ایک دوسری حدیث میں ہے ’’فمن دخل علیھم فصدقھم بکذبھم واعانھم علی ظلمھم فلیس منی ولست منہ ولیس بوارد علی الحوض ومن لم یصدق علیھم ولم یعنھم علی ظلمھم ولم یصدقھم بکذبھم فھو منی وانا منہ وھو وارد علی الحوض‘‘ (نسائی:۴۲۰۷)یعنی جو ان بادشاہوں کے پاس جائے اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے تو نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نا میرا اس سے اور نہ وہ میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا اور جو ان کے پاس آمدورفت نہیں کرے، اور ظلم میں ان کا تعاون نہ کرے اور نہ ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام ایک طرف میدان کارزار کے مجاہدوں اور سرفروشوں کے سرخ رنگوں سے لالہ زار ہے تو دوسری طرف علمائے کرام ومفتیان عظام کے جہدو اجتہاد اور پایۂ استقامت وثبات، جرأت مندی، ہمت وحوصلہ اور ربانیت وللہیت سے گلِ گلزار ہے، خیال کیجئے! ہم مصر وشام، قیصر وکسری، یوروپ کا بعض حصہ اور مشرق ِوسطی اور اقصٰی کے صرف فاتح ہوتے لیکن قرآن وحدیث کی تشریح وتوضیح اور جدید پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنے اور عوام الناس کے لئے اسلام کی رہبری کو ثابت کرنے والے علماء نہ ہوتے تو دین اسلام معتصم باللہ کے خلقِ قرآن، یونانیوں کے فلسفہ، اکبر کے دینِ اکبری اور آگے چل کر مغربی عقلیات کی بھینٹ چڑھ چکا ہوتا، جس میں بعض علمائے سوء اور مارآستین ہی اسلامی شریعت ودین حنیف کی جگ ہنسائی کراچکے ہوتے ؛لیکن قربان جائے امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن رشد، امام غزالی، علامہ رومی، خانوادہ شاہ ولی اللہ دہلوی، سید احمد شہید، سید اسماعیل شہید نوراللہ مرقدھم کے مقدس کارناموں پر جنہوں نے اپنے دور کے علمی فکری ارتداد کا مقابلہ کیا اور اسلام کے حق میں سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔
عصر حاضر میں علماء ربانیین اور فقہاء عظام کے ساتھ ناروا سلوک کے متعلق استاذی فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتھم رقمطراز ہیں :’’افسوس کہ سائنسی اور صنعتی ترقی کے اس دور میں بھی بیشتر مسلم ممالک میں جمہوریت وشورائیت کے فقدان اور آمرانہ نظام کے غلبہ کی وجہ سے صورت حال میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے، ان کے یہاں سیاسی قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے اور ان قیدیوں میں بڑی تعداد علماء کی ہے ؛اسی لئے وہاں کے اہل علم کی ایک اچھی خاصی تعداد مغربی ملکوں میں پناہ لئے ہوئی ہے ؛کیونکہ مسلمان ملکوں کے مقابلہ انہیں وہاں زیادہ امن، انصاف اور آزادی میسر ہے، مسلمان اقلیتیں بشمول مسلمانان ہند چونکہ جمہوریت کے زیر سایہ زندگی گزاررہے ہیں ؛اس لئے اس طرح کے مسائل انہیں کم درپیش ہیں ؛لیکن ان کی آزمائش زیادہ تر ترہیب کے بجائے تحریص سے کی جاتی ہے، طمع دے کر ایسی باتیں کہلوانے کی کوشش کی جاتی ہے جو اسلام کے موقف اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہو ں ، انہیں لوہے کی زنجیر کے بجائے سونے کی زنجیر سے مطیع وفرمانبردار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہندوستان میں بھی مسلمان اس وقت اسی صورت حال سے گزررہے ہیں ، اور کوشش کی جارہی ہے کہ کچھ نام نہاد علماء سے وہ باتیں کہلوائی جائیں ، جو فاشسٹ طاقتیں چاہتی ہیں ، اور ان کو میڈیا کے ذریعہ اس طرح نمایا کیا جائے کہ گویا مسلمانوں کے اصل ترجمان یہی ہیں ، یہ ایک بہت ہی خطرناک صورت حال ہے، اللہ کا شکر ہے کہ سلف صالحین کی طرح آج سرکٹانے کی آزمائش درپیش نہیں ہے ؛لیکن کم ازکم اتنا تو ہو کہ کفر کے سامنے سر جھکانے سے اپنے آپ کو بچایا جائے‘‘(ماخوذاز:کلیدی خطبہ۔ برائے:ستائیسواں فقہی سمینار ممبئی)۔
تبصرے بند ہیں۔