مرزا اسداللہ خان غالب (آخری قسط)

آصف علی

جب آپ کرب، شعور اور دنیاوی بے ثباتی کا مکمل ادراک حاصل کرلیتے ہیں تو پھر آپ کو غالب سمجھ میں آنے لگتا ہے. غالب کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے دنیا کے تلخ تجربات اور تلخ حقیقتوں کا شعور حاصل کر کے آہ و بکا نہیں کی. اپنے گریبان کو نہیں پھاڑا. ہماری طرح وحشت کا شکار نہیں ہوا. وہ چیخا چلایا نہیں بلکہ انتہائی دھیمے انداز میں کلام کیا. اس نے خدا کی حقیقت جان لی لیکن پھر بھی خدا کو گالی نہیں دی. اس نے مفلسی و لاچاری میں زندگی گزاری لیکن پھر بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑا. نا اس دنیا سے نفرت کا اظہار کیا. غالب صرف ایک شاعر نہیں ایک عہد کا نام ہے. ایک تہذیب کا نام ہے. ایک فلسفہ زندگی کا نام ہے. کاش مجھے سعادت حاصل ہوتی کہ میں مغلیہ دربار میں بیٹھ کر اس کے اشعار سنتا اور داد دیتا.

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا 
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا 
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے 
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتاتوکیاہوتا

غالب کےبارےمیں ان کے شاگرد رشیدخواجہ حالی رقم طرازہیں :

٫٫مرزاکےاخلاق نہایت وسیع تھے،وہ ہرایک شخص سےجوان سےملنےجاتاتھا،بہت کشادہ پیشانی سےملتےتھےجوشخص ایک دفعہ ان سےمل آتاتھااس کوہمیشہ ان سےملنےکااشتیاق رہتاتھا.دوستوں کودیکھ کروہ باغ باغ ہوجاتےتھےاوران کی خوشی سےخوش اوران کےغم سےغم گین ہوتےتھے،اس لیےان کےدوست ہرملت اورہرمذہکےنہ صرف دہلی میں بلکہ تمام ہندوستان میں بےشمارتھے. جوخطوط انہوں نےاپنےدوستوں کولکھےہیں ان کےایک ایک حرف سےمہرومحبت وغم خواری ویگانگت ٹپکی پڑتی ہے.ہرایک خط کاجواب لکھناوہ اپنےذمےفرض عین سمجھتے تھے.ان کابہت ساوقت دوستوں کےخطوں کےجواب لکھنےمیں صرف ہوتاتھا.بیماری اورتکلیف کی حالت میں بھی وہ خطوں کےجواب لکھنےسےبازنہ آتےتھے. وہ دوستوں کی فرمائشوں سےکبھی تنگ دل نہ ہوتےتھے.غزلوں کی اصلاح کےسوااورطرح طرح کی فرمائشیں ان کےبعض خالص ومخلص دوست کرتےتھےاوروہ ان کی تعمیل کرتےتھے.لوگ ان کواکثربیرنگ خط بھیجتےتھےمگران کوکبھی ناگوارنہ گذرتاتھااگرکوئی شخص لفافےمیں ٹکٹ رکھ کربھیجتا تھا تو سخت شکایت کرتےتھے،،

بحوالہ یادگارغالب

جب تک طاقت رہی شاگردوں کےکلام کی درستی اوراصلاح اپنافرض سمجھتےتھے.باقاعدہ جواب دینےکاایساالتزام تھاکہ بیماری ,ضعف ومعذوری میں بھی لیٹےلیٹےلکھ یالکھوادیتےتھے.حدیہ ہےکہ مرنےسےایک روزپہلےکئی پہرکےبعدبےہوشی سےافاقہ ہواتو نواب علاءالدین خان کوجواب خط لکھوایا.اس میں ایک فقرہ یہ بھی تھاکہ:

٫٫میراحال مجھ سےکیاپوچھتےہو،ایک آدھ روز میں ہمسائیوں سےپوچھنا،،

وہ ان دوستوں کےساتھ جوزمانےکی گردش سےمفلس اورمحتاج ہوگئےتھے ،بڑااچھابرتاؤکرتےتھے. ان کی تقریربھی ان کی تحریرکی طرح بڑی پرلطف ہوتی تھی،کم بولتےتھےمگرجوکچھ بولتےدلوں پراس کااثرپڑتا.شاعرہونےکےباوجودمشاعروں میں اندھا دھند داد دینے سے پرہیزکرتے,ہاں کوئی شعرپسندآتاتواس کی داددل کھول کردیتے.ذوق کایہ شعرباربار پڑھتےاورتعریف کرتے:

اب توگھبراکےیہ کہتےہیں کہ مرجائیں گے
مرکےبھی چین نہ پایاتوکدھرجائیں گے

مومن خان مومن کےاس شعرپر

تم مرےپاس ہوتےہوگویا
جب کوئی دوسرانہیں ہوتا

یہاں تک کہہ دیاکہ کاش مومن میراسارادیوان لےلیتااورمجھےیہ شعردےدیتا. ایک صحبت میں نواب مرزاخان داغ کےاس شعرکوباربارپڑھ کروجدکرتے:

رخ روشن کےآگےشمع رکھ کروہ یہ کہتےہیں
ادھرجاتاہے,دیکھیں یاادھرپردانہ آتاہے.

غالب نہایت خوش اخلاق انسان تھے,ان کی بات چیت میں شوخی اورظرافت ہوتی تھی.اپنےچھوٹوں کابڑاخیال رکھتےتھےاوربڑوں کی عزت کرتےتھے,طبیعت میں بلاکی تیزی تھی,ہربات کابرجستہ اورمناسب جواب دیتےتھے،جوکچھ دل میں ہوتااس کوزبان سےکہہ دیتےتھےجسےکبھی لوگ برابھی مانتےتھے.ان کی گفتگوبہت دل چسپ ہوتی تھی،دوران گفتگودل چسپ لطیفےبھی بیان کرتےتھے،وہ اپنےشاگردوں اوررشتہ داروں سےبہت محبت کرتےتھےاوردوستوں پرتوجان چھڑکتےتھے،ان کی فرمائشیں خوش دلی سےپوری کرتےتھے.بیوی کےآرام کابہت خیال رکھتےتھے.بیگم کی ضروریات سےکبھی غافل نہ ہوتے.چھوٹےبھائی کودل سےچاہتےتھےایک باروہ بیمارہوکرتندرست ہوئےتوخداکی شکرگذاری اوربھائی کی الفت نےیہ شعرکہلوادیا:

دی مرےبھائی کوحق نےازسرنوزندگی
میرزایوسف ہےغالب،یوسف ثانی مجھے

ملازموں پربڑےمہربان رہتے،ضرورت مندوں کی مددکرتے. ایک بارلیفٹیننٹ گورنرکےدربارسےسات پارچےکاخلعت اورتین رقوم جواہرلےکرآئے،جانتےتھےکہ چپراسی اورجمعدارانعام مانگنےآئیں گےاس لیےگھرآتےہی خلعت اورجواہربازاربھیج دیے،چپراسی آئے توان کوبٹھالیا،بازارسےان چیزوں کی قیمت آئی توان لوگوں کوانعام دےکررخصت کیا. مرزاصاحب کوبچوں سےبڑاانس تھاشائداس کی وجہ یہ ہوکہ ان کااپناکوئی بچہ زندہ نہ بچاتھاانہوں اولادکی محبت،بیوی کےبھانجےعارف کی اولادپرصرف کی.  نہایت متواضع،ملنساراوربےتعصب، زندہ دل انسان تھے.ہندومسلمانوں سےیکساں تعلق اوربرتاؤتھاان کےخطوط کےمکتوب الیہم میں منشی ہرگوپال تفتہ ،ماسٹرپیارےلال آشوب،،منشی بہاری لال مشتاق،بابوہرگوبندسہائے،منشی شیونرائن وغیرہ شاگردتھے.منشی ہرگوپال کومرزاتفتہ کہاکرتےتھے.ان کےنام123خطوط ہیں، اتنےخطوط دوسروں کونہیں لکھے. ان کی عادت تھی کہ اپنی رائےکےمقابلہ میں دوسرےکی رائےتسلیم نہیں کرتےتھےاپنی قابلیت اورواقفیت پران کوکسی حدتک غروربھی تھااسی بعض باتوں میں چاہےوہ غلط ہی کیوں نہ ہوں، وہ اپنی ہٹ پرقائم رہتےتھے.

غالب حالات سےمجبورتھےپھربھی خودداری ان کےخمیرمیں تھی،انہوں نےدولت مندوں اورحاکموں کی مدح سرائی کی ہےمگرخوشامدمیں ایک حدسےآگےنہیں بڑھےوہ رکھ رکھاؤکابڑالحاظ رکھتےتھے،انہوں نےاودھ کےوزیرالسلطنت سےمحض اس لیےملاقات نہیں کی کہ مرزاغالب ان سےاپنی شرطوں پرملاقات چاہتےتھے.دلی کالج کی سوروپیہ ماہ وارفارسی کی مدرسی قبول کرنےسےاس لیےانکارکردیاکہ اس ملازمت کی وجہ سےان کےسرکاری مقررہ مرتبہ میں کمی آتی تھی.

غالب کےحالات میں بعض ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جوان کےاخلاق سےتخالف رکھتی ہیں، غالب غیورتھے,خوددارتھےجیساکہ ذکرکیاجاچکاہےکہ دہلی کالج کی ملازمت کاارادہ اپنےمعیارعزت کوپیش نظررکھ کرترک کردیالیکن دوسرےموقعوں پرتحصیل زرکےلیےجدوجہداورالحاح وزاری میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا.پنشن کےاضافےکےلیےکلکتےکاسفرکیااورانگریزحکام کی خوشامدمیں اس حدتک بڑھ گئےکہ بات بات پرفارسی قصیدےلکھےیہ کوشش مناسب نہ تھی.

پھرغدرکےبعدپنشن بندہوگئی تواس کوجاری کرانےاوردرباروخلعت کوبحال کرانےکی خاطرمدح خوانی وقصیدہ سرائی کی کوئی حدنہ رکھی.ملکہ وکٹوریہ،گورنرجنرل،وائسرائے،لیفٹیننٹ گورنر،کمشنروغیرہ کوئی انگریزحاکم جس کوپنشن کےمعاملہ میں ذراسابھی تعلق تھاایسانہ رہاجس کی تعریف میں قصیدہ یاقطعہ نہ کہاہو,دونوں موقعوں کےلیےفارسی کےپچیس قصیدےاورقطعےکہےہیں .اس کےعلاوہ اپنےخطوط میں پنشن بندہونےکی حسرت,اجراکی ضرورت,آرزو,توقع,انتظار,بےقراری کےجذبات جیسےالفاظ جتنےاورجابجاظاہرکیےہیں وہ بجائےخودعجیب ودل چسپ ہیں .

حلیہ اورلباس

غالب نہایت اچھےڈیل ڈول کےمالک تھے،جوانی میں شہرکےخوب صورت لوگوں میں شمارہوتےتھے،چہرہ مہرہ نہایت دل کش تھاجس کااندازہ ان کی ضعیفی کی تصویرسےبھی ہوتاہے.مرزاکاقدلانبا،جسم سڈول،چہرہ کتابی تھا،پیشانی چوڑی،آنکھیں بڑی بڑی،پلکیں گھنی تھیں .رنگ سرخ وسفیدتھااورکیوں نہ ہوتاجب وہ ایسےخاندان سےتعلق رکھتےتھےجوسرزمین توران سےآیاتھاجہاں کےباشندےصحت وطاقت اورمردانہ حسن کےنمونہ سمجھےجاتےہیں .غالب جوانی میں داڑھی منڈواتےتھےمگرجب بالوں میں سفیدی آگئی توانہوں نےداڑھی رکھ لی،مگربہت بڑی نہیں .قدلمباتھابڑھاپےمیں کمرذراجھک گئی تھی.ایک خط میں رقم طرازہیں :

٫٫میراقددرازی میں انگشت نماہےجب میں جیتاتھا(جوانی)تومیرارنگ چمپئی تھااوردیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیاکرتےتھے.اب جوکچھ مجھ کواپنارنگ یادآتاہےتوچھاتی پرسانپ پھرجاتاہے,

تادسترسم بودزدم چاک گریباں
شرمندگی ازخرقہ پشینہ ندارم

جب داڑھی مونچھ میں بال سفیدآگئے,تیسرےدن چیونٹی کےانڈےگالوں پرنظرآنےلگےاس بڑھ کریہ ہواکہ آگےکےدودانت ٹوٹ گئے،ناچارمسی بھی چھوڑ دی اورداڑھی بھی……،،

کپڑےبچپن سےہی نہایت اچھےاورصاف ستھرےپہنتےتھےاورآخرعمرتک لباس کےمعاملہ میں اپنی نفاست پسندی کونہیں چھوڑا. گھرمیں عام طورپروہ لباس پہنتےجودہلی کےرئیس اورمعززین پہناکرتےتھے،یعنی ایک برکاپائجامہ،کھلی آستین کاکرتا، انگرکھا،سرپرململ کی گول ٹوپی جس پرکامدانی یاکشیدہ کاری کاکام ہوتاتھا.جاڑےکےدنوں میں گرم کپڑےکاکلی دارپائجامہ اورمرزئی (روئی دار)پہنتےتھے.

جب گھرسےباہرجاتےتوتنگ مہری کاپائجامہ (چوڑی دار)کرتااوراس پرجامہ دارکےکپڑےکی اچکن.اورسب سےاوپرکسی اچھے اورخوب صورت اورقیمتی کپڑےکاچغہ پہناکرتےتھےاورہاتھ میں ایک چھڑی بھی ہوتی تھی.کبھی کبھی شال کارومال بھی کاندھےپرڈال لیتے تھے اورسرپرپوستین کی چوگوشیہ ٹوپی یاکلاہ پاپاخ پہنتےتھے،یعنی وہ سیاہ اونچی ٹوپی جوغالب کی سب سےزیادہ رائج اور پسندیدہ تصویرمیں نظرآتی ہے.بہرحال غالب بڑےجامہ زیب تھےاورہمیشہ اچھالباس پہنتےتھے.

غالب کواچھےکھانوں کاشوق تھا،ان کی سب سےپسندیدہ غذاگوشت تھی،دنبےاوربکرےکاگوشت پسندکرتےتھے. اورکھانے پر گوشت, ہر روزہوتا تھا.کباب کابہت شوق تھا.ترکاریاں بہت کم استعمال کرتےتھے.گوشت،کباب اوردوسرےکھانوں میں چنےکی دال ضرور ڈلواتےتھےاورچنےکی بہت تعریف کیاکرتےتھے.دوپہرکےکھانےمیں آدھ سیرگوشت ضرورہوتاتھا.جب عمربڑھی اورمعدہ کمزور ہوگیاتوپھرمقدارکم ہوگئی، رات کوکھاناعموماًنہیں کھاتےتھے،صحت خراب ہوئی توروٹی اورچاول کھاناچھوڑدیا.صرف دن کےکھانےمیں سیربھرگوشت کی یخنی اورتین چارشامی کباب کھالیتےتھے.ان کی غذاکاحال خودان کےخطوط میں تفصیل سےملتاہے.غالب دسمبر1866کےایک خط میں اپنی غذاکےمتعلق فرماتےہیں :

٫٫صبح کوسات بادام کاشیرہ قندکےشربت کےساتھ.دوپہرکوسیربھرگوشت کاگاڑھاپانی،قریب شام کےکبھی کبھی تین تلےہوئےکباب،چھ گھڑی رات گئےپانچ روپئےبھرشراب خانہ سازاوراسی قدرعرق شیر،،

1867کےایک خط میں فرماتےہیں :

٫٫غذاباعتبارآردوبرنج مفقود.محض صبح کوپان سات بادام کاشیرہ.بارہ بجےآب گوشت,شام کوچارتلےہوئےکباب,بس آگےخداکانام.

پھلوں میں آم سب سےزیادہ پسندتھااورانگوربھی بہت مرغوب تھا،آم کی غالب نےنظم ونثردونوں میں بہت تعریف کی ہےان کوبنگال کےآم بہت پسندآئے,سفرکلکتہ کےزمانےمیں ان کوبنگال کےآم کھانےکاموقع ملاتھا,دوست،احباب ان کوبطورتحفہ آم بھیجاکرتےتھے.
آم کی تعریف میں لکھتےہیں کہ:

٫٫آم مجھ کوبہت مرغوب ہیں، انگورسےکم عزیزنہیں .مالدےکےآم یہاں پیوندی اورولایتی کرکےمشہورہےاچھاہوتاہے.یہاں دیسی آم انواع واقسام کےبہت پاکیزہ،لذیذ،خوش بوافراط سےہیں، پیوندی آم بھی ہیں .رام پورسےنواب صاحب اپنےباغ کےآموں سےاکثربسبیل ارمغاں بھیجتے رہتےہیں .شیخ محسن الدین مرحوم سےبطریق تمناکہاگیاتھاکہ جی یوں چاہتاہےکہ برسات میں مارہرہ جاؤں اوردل کھول کراورپیٹ بھرکرآم کھاؤں، اب وہ دل کہاں سےلاؤں، طاقت کہاں سےپاؤں .آموں کی طرف رغبت، نہ معدےمیں اتنی گنجائش،نہارمنھ،میں آم نہ کھاتاتھا……..،،

غالب حقہ بھی پیتےتھےاوربڑےاہتمام سےدن میں کئی بارحقہ بھرواتےتھےالبتہ پان نہیں کھاتےتھے۔ غالب ابتداہی سےشراب پینےلگےتھےاس بری عادت نےان کی صحت خراب کردی،چاہتےتھےکہ اچھی ولایتی شراب ملےاوراس کےلیےشاگردوں اوربعض دوستوں سےمددلیتےتھے.مگرکھلےعام پینےکی عادت نہ تھی.شروع میں توکئی کئی بارپیتےتھےمگرجب لوگوں نےسمجھایااورصحت پر برا اثر پڑا تو بار بار پینا ترک کردیا،صرف رات میں پی لیاکرتےتھے.مقداربھی کم کردی تھی،آخرزمانہ میں شراب کی تیزی کم کرنےکےلیے اس میں عرق گلاب ملالیتےتھے.ان کےخطوں سےمعلوم ہوتاہےکہ وہ زیادہ ترولایتی شراب پیتےتھےجس کانام ان کی اصطلاح میں ٫فرنچ،تھا.غدرکےبعدولایتی شراب بہت گراں ہوگئی تھی,چنانچہ وہ بابوہرگوندسہائےسےکاس ٹیلن اوراولڈ ٹام کانرخ پوچھتےہیں ,ایک خط میں فرماتےہیں :

٫٫لیکورایک انگریزی شراب ہوتی ہے قوام کی بہت لطیف اوررنگت کی بہت خوب اورطعم کی ایسی میٹھی جیساقندکاقوام پتلا.دیکھواس لغت کےمعنی کسی فرہنگ میں ہوتو،،

.بعض حالات سےاندازہ ہوتاہےکہ غالب کواس بری عادت کااحساس اورافسوس تھامگرعادت ایسی پختہ ہوگئی تھی کہ چھوڑنامشکل تھااورآخرعمرتک پیتےرہے.

اے ذوق دیکھ  دختر رز کو نہ منھ  لگا
چھٹتی نہیں ہےمنھ سےیہ کافرلگی ہوئی

اگرغالب شراب خوری اورجوئےکی بری عادتوں میں مبتلانہ ہوتےتووہ ایک انسان کی حیثیت سےبھی بہت بلندہوتے. غالب خاندانی اعتبارسےسنّی تھےلیکن ان کی تحریروں سےجوعقائدظاہرہوتےہیں ان کےمطابق شیعہ تھے.وہ مذہبی معاملات سےبہت کم دل چسپی رکھتےتھے.اپنےایک خط میں رقم طرازہیں:

موحدخالص اورمومن کامل ہوں، زبان سےلاالہ الااللہ کہتاہوں اوردل میں لا موجودالااللہ لاموثرفی الوجودالااللہ سمجھےہوئےہوں .انبیاسب واجب التعظیم اوراپنےاپنےوقت میں سب مفترض الطاعتہ تھے.محمدعلیہ السلام پرنبوت ختم ہوئی،یہ خاتم المرسلین اوررحمتہ للعالمین ہیں .مقطع نبوت کامطلع امامت کااورامامت نہ اجماعی بلکہ من اللہ ہےاورامام من اللہ علی علیہ السلام ہےثم حسن اسی طرح تامہدی علیہ السلام.

بریں زیستم ہم بریں بگذرم

ہاں اتنی بات اورہےکہ اباحت اورزندقےکومردوداورشراب کوحرام اوراپنے کوعاصی سمجھتاہوں .اگرمجھ کودوزخ میں ڈالیں گے تومیراجلانامقصود نہ ہوگا بلکہ دوزخ کاایندھن ہونگااوردوزخ کی آنچ کو تیزکرونگا تاکہ مشرکین اورمنکرین نبوت مصطفوی اورامامت مرتضوی اس میں جلیں .نہ مجھےخوف مرگ بہ دعوائےصبرہے.میرامذہب بخلاف عقیدہ قدریہ جبرہے.صاحب !بندہ اثناعشری ہوں ,ہرمطلب کےخاتمہ پر12کاہندسہ کرتاہوں، خداکرےمیرابھی خاتمہ اسی عقیدےپرہو.

غالب کاپسندیدہ مشغلہ کتابوں کامطالعہ تھاایک بڑےشاعراورادیب کےلیےضروری ہےکہ وہ زیادہ سےزیادہ اچھی کتابیں پڑھے. مرزاغالب کوکتابیں پڑھنے کاازحدشوق تھالیکن دل چسپ بات یہ ہےکہ وہ کبھی قیمت دےکرکوئی کتاب خریدتےنہیں تھےبلکہ مانگ کرپڑھ لیتےتھے،کرایہ پربعض کتب فروشوں سےلےلیاکرتےتھےاورپڑھ کرواپس کرتےتھے.ایک خط میں لکھتےہیں :

٫٫دوپہرکورضی الدین نیشاپوری کاکلام ایک شخص بیچتاہوالایامیں توکتاب دیکھ لیتاہوں مول نہیں لیتا،،

اسی لیےان کااپناکوئی کتب خانہ نہیں تھانہ وہ کتابوں کی خریداری پرایک پیسہ خرچ کرتے.دوست احباب ان کوبطورتحفہ کتابیں بھیجا کرتے تھے، مگرغالب سےجس نےکوئی کتاب مانگی دے دیتےاورعموماًواپس نہیں لیتےتھے. غالب کوملکی اورسیاسی حالات سےبھی دل چسپی تھی اس لیےوہ اخبارات کامطالعہ ضرورکرتےتھے,دہلی سےجواخبارات نکلتےتھےغالب ان کوضروردیکھتےتھے،اورملک کےدیگربڑےشہروں کےاخبارات بھی منگواتےتھے.

٫٫دہلی اردواخبار،،دہلی سےنکلتاتھاغالب اس کوپڑھتےتھے.لکھنؤسے٫٫اودھ اخبار،،منگواتےتھےاوراس کازرِسالانہ پابندی سےاداکرتےتھے.غالب اس زمانہ کےحالات سےباخبررہتےاوربعض معاملات کےمتعلق اخباری مراسلات بھی لکھاکرتےتھے.ان کےدومراسلے٫٫اودھ اخبا،،1862 میں شائع ہوئےتھےجس سےاندازہ ہوتاہےکہ وہ ایڈیٹرکےنام خطوط لکھاکرتےتھے،جیساکہ آج کل رواج ہے.اس سےیہ بھی معلوم ہوتاہےکہ ان کواپنےملک اورپڑوسی ملکوں کےحالات سےدل چسپی تھی.

غالب بڑےزندہ دل،حاضرجواب اورظرافت پسندتھےان کی گفتگودل چسپ ہوتی تھی.بےتکلف دوستوں کی محفل میں وہ سب پراپنارنگ جمالیتےتھے.ان کی بات چیت میں ہنسی،دل لگی کی باتیں ضرورہوتی تھیں، اس لیےسننےوالےکواکتاہٹ نہیں ہوتی تھی.کوئی سوال کرتاتوبرجستہ مناسب جواب دیتے.علمی وادبی سوالوں کےجواب بھی بڑےدل چسپ اندازمیں دیتےتھے.ایک بارکسی محفل میں بحث ہورہی تھی کہ٫رتھ،مذکرہےیامؤنث؟

توغالب نےکہا:

اگررتھ میں عورتیں بیٹھی ہوں تومؤ نث اوراگرمردبیٹھےہوں تومذکرہوگا.حالاں کہ یہ لفظ کی صحت کامعاملہ تھامگرغالب نےاپنی فطری ظرافت کی وجہ سےیہ جواب دیا.بعدمیں اپنےایک شاگردکےپوچھنےپرسنجیدگی سےبتادیاکہ رتھ مذکرہے.

غالب کواردو،فارسی میں مہارت حاصل تھی.تمام ضروری ضروری علوم وآداب مجلس کےعلم سےواقف تھےاس لیےجس محفل میں بیٹھ جاتےاسےباغ وبہاربنادیتےتھے.غالب کی طبیعت میں ظرافت بہت تھی،ایک طرف وہ مالی پریشانیوں اوردوسری فکروں میں پریشان رہتےتھےمگردوسری طرف ہنسی مزاق کی باتیں بھی کرتےتھے،یہ ظاہرنہ ہونےدیتےکہ ان کوکوئی پریشانی بھی ہےبلکہ بےفکراپن ظاہرہوتاتھا.

مولاناالطاف حسین حالی نے٫٫یادگارغالب،،میں ان کےبہت سےلطیفےلکھےہیں جوبےحددل چسپ ہیں ,اسی طرح محمدحسین آزادنے٫٫آب حیات،،میں ان کےلطائف بیان کیےہیں .

غالب کےچندلطیفےملاحظہ فرمائیں جن سےان کی طبیعت اورذہانت کااندازہ ہوگا.حالی نےلکھاہےکہ غالب زیادہ نہیں بولتےتھےلیکن جوکچھ ان کی زبان سےنکلتاوہ لطف سےخالی نہ ہوتاتھا.

لطیفہ:

ایک دفعہ بعدرمضان شریف غالب قلعہ میں گئے.بادشاہ نےپوچھا:مرزاتم نےکتنےروزےرکھے؟جواب دیا:
٫٫پیرومرشد! ایک نہیں رکھا.

لطیفہ:

ایک بارآموں کی فصل میں بہادرشاہ ظفرباغ میں ٹہل رہےتھے.کچھ لوگ ساتھ تھےجن میں غالب بھی تھے.آموں کےپیڑطرح طرح کےآموں سے لدےہوئےتھے،یہاں کےآم بادشاہ اوربیگموں کےلیےمخصوص تھے.غالب باربارآموں کوبہت غورسےدیکھتےتھے.بادشاہ نےپوچھا:مرزااس قدر غورسےکیادیکھتےہو؟

غالب نےبرجستہ جواب دیا:

٫٫پیرومرشد !کسی بزرگ نےجوکہاہے،ہردانہ میں اس کےحصہ دارکانام صاف لکھاہوتاہے،اس کودیکھتاہوں کہ میرااورمیرےباپ داداکانام بھی لکھاہےکہ نہیں ؟بادشاہ مسکرائےواپسی پرایک بہنگی مرزاغالب کےگھربھجوادی.

لطیفہ:

جب مرزاغالب قیدسےچھوٹ کرآئے توکالےشاہ صاحب کےمکان میں آکررہےتھے،ایک روزشاہ صاحب کےپاس بیٹھےتھےکسی نےآکرقیدسےچھوٹنےکی مبارک باددی.غالب نےکہا:

٫٫کون بھڑواقیدسےچھوٹاہے؟پہلےگوروں کی قیدمیں تھااب کالےکی قیدمیں ہوں، ،

لطیفہ:

غالب کےایک دوست حکیم رضی الدین خان کوآم پسندنہ تھے.ایک دن وہ غالب کےمکان کےبرآمدےمیں بیٹھےتھے.ایک گدھے والا گدھے لے کرادھرسےگذرا. راہ میں چھلکے پڑےتھے، ایک گدھےنےسونگھ کرچھوڑدیے. حکیم صاحب نےغالب سےکہا: دیکھیےآم ایسی چیزہے کہ جسےگدھابھی نہیں کھاتا.غالب نےکہا:

٫٫ہاں گدھا آم نہیں کھاتا،،

تصانیف غالب

مرزاغالب نےفارسی اوراردو نظم ونثرمیں حسب ذیل تصانیف اپنی یادگارچھوڑی ہیں جن کی بدولت انہیں بقائےدوام کی نعمت حاصل ہوئی اوردونوں زبانوں کےادب میں بیش بہااضافہ ہوا.

فارسی نثر:  پنج آہنگ
یہ کتاب پانچ حصوں پرمشتمل ہے.

آہنگ اول میں ………….القاب وآداب
آہنگ دوم میں ………..مصطلحات(لغات)
آہنگ سوم میں ..اشعارمنتخب ازدیوان غالب
آہنگ چہارم میں …….تقاریظ
آہنگ پنجم میں ……مکاتیب

مہرنیمروز……….تاریخ از تیمورتاہمایوں
دستنبو……انقلاب 1857کےہنگامہ میں لکھی گئی.غدرکےحالات پرمشتمل
قاطع برہان…فارسی لغت برہان قاطع کی ردمیں لکھی گئی.

نظم فارسی….کلیات نظم فارسی..فارسی کلام کامجموعہ
سبدچمن….مثنوی وغیرہ
دعائےصباح…حضرت علی کی دعاؤں کامنظوم ترجمہ
متفرقات غالب..خطوط،نظمیں اورمثنوی بادمخالف پرمشتمل

اردونظم….دیوان غالب

اردونثر….عودہندی..خطوط کامجموعہ
اردوےمعلی.        اردوخطوط کامجموعہ
مکاتیب غالب.نواب رام پورکےنام خطوط
نادرات غالب..دوست کےنام لکھےگئےخطوط
نکات غالب،ورقعات غالب..
ماسٹرپیارےلال آشوب کےنام لکھےگئےخطوط کامجموعہ

قادرنامہ…عارف کےبچوں کےلیےغالب نےآٹھ صفحےکامختصررسالہ تصنیف کیاتھا.

غالب کی وفات پرمولاناحالی نےایک بلندپایہ مرثیہ لکھاہےاس کےچندشعروں سےغالب کی عظمت کابخوبی اندازہ ہوتاہے.

بلبل ہند مرگیا ہیہات
جس کی تھی بات میں اک بات

نکتہ داں ,نکتہ سنج,نکتہ شناس
پاک دل,پاک ذات,پاک صفات

تھیں تودلی میں اس کی باتیں تھیں
لےچلیں اب وطن کوکیاسوغات

اس کےمرنےسےمرگئی دلی
خواجہ نوشہ تھااورشہربرات

اب نہ دنیامیں آئیں گےیہ لوگ
کہیں ڈھونڈےنہ پائیں گےیہ لوگ

تبصرے بند ہیں۔