لفظ ‘کافر’ میں اہانت کا مفہوم نہیں ہے!
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوتو کی عَلَم بردار تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ ساز شری رام مادھو نے مسلمانوں کو ایک فارمولہ پیش کیا ہے، جس سے وہ بھارت میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے تین نکات ہیں : (1) مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں۔ (2) وہ خود کو عالمی مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں۔ (3) وہ نظریۂ جہاد سے خود کو الگ کرلیں۔
اِس وقت مذکورہ فارمولے کے صرف پہلے نکتے پر کچھ اظہارِ خیال مقصود ہے۔
موجودہ دور میں لفظ ‘کافر’ کو گالی کے مثل سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لیے جب مسلمان دوسرے مذاہب والوں کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بُرا بھلا کہا جا رہا ہے اور مطعون کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اس ملک میں پُر امن بقائے باہم چاہتے ہیں تو دوسرے مذاہب والوں کے لیے اِس لفظ کا استعمال ترک کردیں۔ حالاں کہ یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے ان کے اس مطالبے کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
‘کافر’ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں ‘نہ ماننے والا’۔ اسلام کی کچھ بنیادی تعلیمات ہیں۔ کچھ لوگ اس کو مانتے ہیں، کچھ نہیں مانتے۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ چاہے اس پر ایمان لائے، چاہے نہ لائے۔ قرآن مجید میں ہے : ” دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ ” (البقرۃ : 256) پیغمبرِ اسلام کو بھی سختی سے منع کیا گیا کہ ایمان لانے کے معاملے میں کسی پر جبر سے کام نہ لیں : "اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (یونس : 99)
اسلام ایک نظریاتی مذہب ہے۔ انسانوں کو آزادی ہے۔ جو لوگ چاہیں اسے مانیں، جو چاہیں نہ مانیں۔ جو اسے مان لیتے ہیں انہیں قرآن مجید ‘مومن’ (یعنی ایمان لانے والا) کہتا ہے اور جو اسے نہیں مانتے انہیں ‘کافر’ (یعنی ایمان نہ لانے والا) کہتا ہے۔ یہ حقیقتِ واقعہ کا بیان ہے۔ اس میں اہانت اور مذمّت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر دوسرے اہلِ مذاہب کا رویّہ ان سے دشمنی اور جنگ و جدال کا نہ ہو تو وہ بھی ان سے خوش گوار سماجی تعلقات رکھیں، ان سے اچھا برتاؤ کریں اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں۔ صرف ان لوگوں سے دوستانہ اور رازدارانہ تعلقات رکھنے کی ممانعت ہے جو دشمنی پر آمادہ ہوں اور مسلمانوں کے جانوں اور مالوں کے درپے ہوں۔ قرآن مجید میں ہے : ” اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہےاور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اِخراج میں ایک دُوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔ ” (الممتحنۃ :8 – 9)
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ لفظ ‘کافر’ میں دوسرے مذاہب والوں کے لیے اہانت یا تذلیل کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ بات سمجھائی جائے تو ان کی غلط فہمی دور ہوجائے گی۔
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستگی کے زمانے میں، سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری، جو اُن دنوں ادارہ کے سکریٹری تھے، انھوں نے مجھے اس موضوع پر کام کرنے کی ہدایت کی۔ یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ‘کفر اور کافر قرآن کی روشنی میں’ کے نام سے شائع ہورہی ہے۔ صفحات : 60، قیمت :30 روپے۔
مولانا سید جلال الدین عمری کے ایک کتابچے میں بھی اس موضوع سے بحث ملتی ہے۔ اس کا نام ہے : بعض اسلامی اصطلاحات اور ان کی تشریح۔ اس کی اشاعت بھی مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ہوئی ہے۔
صفحات : 32، قیمت : 18 روپے۔
تبصرے بند ہیں۔