ادھوری کہانی

سہیل بشیر کار

مفکر مولانا صدر الدین اصلاحی لکھتے ہیں: "جس طرح کسی مکان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ایک بنیاد ہو جس پر اس کی دیواریں اٹھائی جائیں اور پھر ان دیواروں پر اس کی چھت تعمیر کی جائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ یہ بنیاد اتنی گہری اور مضبوط ہو کہ دیواروں اور چھت کا بار اچھی طرح سنبھال سکے؛ ورنہ وہ ہوا کے کسی ایک بھی تیز جھونکے یا بارش کے کسی ایک بھی تند حملے کی تاب نہ لاسکے گا اور چاہے اس کی دیواریں اور چھتیں اپنی جگہ کتنی ہی ٹھوس اور پائیدار کیوں نہ ہوں؛ اسے ایک کھنڈر کی شکل میں تبدیل ہو جانے سے کوئی شیے بچا نہ سکے گی۔’ (اساس دین کی تعمیر؛ صفحہ 9)

وہ مزید لکھتے ہیں: "ایک پاگل ہی ایسا تصور کرسکتا ہے کہ جاتو رہا ہو اہرام مصر کو شرما دینے والی عمارت بنانے اور اس کے لیے بنیاد کھودے انگلیوں اور انچوں سے ناپ کر۔ ” (صفحہ 10)

اسی کتاب میں موصوف آگے لکھتے ہیں: "دین حق کا وہ حسین اور پر جلال ایوان جس کی تعمیر مدنی دور کے آخری لمحوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی، اس کی بنیاد مکہ کی تیرہ برس لمبی مدت میں ہوئی، وہاں وہ اس حقیقت کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ اس بنیاد کی نچلی گہرائیوں میں جو پتھر جمائے گیے تھے ان کی مجموعی تعداد صرف چار تھی:1۔ اللہ پر ایمان 2۔آخرت پر ایمان 3۔ ذکر 4۔ صبر۔ یہی چار چیزیں ہیں جن کی روح اگر داعیان حق کے دلوں میں اچھی طرح اتری ہوئی ہو تو یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ وہ اپنے نصب العین کی راہ میں سست گامی کو کبھی روا نہ رکھیں گے، اور دین حق کا قیام فی الوقت ایک مضبوط چٹان پر ہورہا ہے۔ "(صفحہ 25)

یہ جو چار بنیادیں ہیں؛ ان میں تین بنیادیں بہرحال کسی نہ کسی صورت میں امت مسلمہ کے ہاں پائی جاتی ہے لیکن جس درجہ کا آخرت پر ایمان تقاضا کرتا ہے وہ موجود نہیں، یہی عقیدہ آخرت ہے جو انسان کے اعمال کو درست کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم عقیدہ پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔

انسان کو اس دنیا کی مختصر زندگی کی صورت میں جو مہلت ملی اس میں انسان کی کہانی ادھوری رہ جاتی ہے، اور یہ کہانی اپنے انجام کو ہر صورت میں آخرت میں پہنچے گی، لیکن بندے کے لیے بھی یہی ایک زندگی ہے جس میں اس کو موقع ہے کہ وہ اپنی کہانی اس طرح لکھیں کہ اس کا انجام جنت ہو۔ یہاں کی زندگی میں بہت سے لوگ تکلیفوں سے گزرتے ہیں، بہت سے لوگوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے، اکثر لوگوں کو وہ نہیں ملتا جو بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ انسان کو ملنا چاہیے، انسان کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان سبھی سوالات کا جواب ابو یحییٰ نے اپنی کتاب "ادھوری کہانی” میں ناول کی صورت میں دیا ہے۔ ابو یحییٰ مقبول ترین مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی اکثر تحریریں خاص کر ناولز تصور آخرت کے اردگرد گھومتی ہے۔ ناول کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ غیر شعوری طور پر قاری کے عقل اور دل پر اثرات ڈالتی ہے۔ ابویحییٰ ایک پاکستانی اسکالراور مصنف ہیں۔  آپ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں اونرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کیں اور سول سائنسز میں ایم فل کیا۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی اسلامک اسٹیڈیز میں مکمل کیا۔ آپ کی  ڈیڑھ درجن سے زیادہ تصانیف ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ معروف کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ ہے؛ جو اردو زبان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ آپ دعوت و اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ "انذار” کے بانی اور ماہنامہ "انذار” کے مدیر ہیں۔ اس کے علاوہ کئی برس تک درس قرآن مجید دیتے رہے ہیں۔

ابو یحییٰ کی ناول ‘ادھوری کہانی’ ان کتابوں کا تسلسل ہے جو "جب زندگی شروع ہوگی” سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد اس کی دوسری کتاب "قسم اس وقت کی” تیسری کتاب "آخری جنگ "اور چوتھی کتاب "خدا بول رہا ہے "تھی۔ ابو یحییٰ نے ان سب ناولوں میں موت کے بعد کی زندگی کا بیان اتنے دلفریب انداز میں کیا ہے کہ دل بے ساختہ نیک اعمال کرنے کو بے قرار ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اخروی نعمتوں اور آسائشوں کو نہایت خوبصورتی سے قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ دوزخ اور سزا کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن اس نرم طریقے سے کہ انسان خوفزدہ ہونے کے بجائے اس پہ غور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔یہاں ایک آسان فارمولہ ہے۔ اچھے اعمال،اچھا نتیجہ۔ برے اعمال،برا نتیجہ۔جب ‘زندگی شروع ہوگی’ میں ناول کے پیرایے میں موت کے بعد برزخ اور میدان حشر کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے،یہ کہانی اللہ کے ایک نیک بندے عبداللہ سے شروع ہوتی ہے۔ ‘قسم اس وقت کی’  کا موضوع بھی آخرت ہے لیکن اس کا مرکزی کردار عبداللہ کی بیوی ناعمہ ہے۔ ناعمہ پہلے ملحد لڑکی تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کو دین اسلام کے لیے وقف کیا، ‘آخری جنگ’ میں مسلمانوں کی اخلاقی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ چوتھا ناول” خدا بول رہا ہے”کی کہانی عبداللہ کے والدین کے ارد گرد گھومتی ہے، اور اس میں قرآن کریم کے اثرات پر بات کی گئی ہے۔

دنیا امتحان گاہ ہے یہاں انسان کو ہر چیز نہیں ملتی، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، دنیا کی زندگی میں اکثر انسانوں کیلئے داستان ادھوری رہ جاتی ہے لیکن آخرت میں ان ادھوری کہانیوں کو پورا کیا جائے گا، یہ کتاب ہر دکھی دل کو امید کی روشنی سے منور کرتی ہے، اس میں ہر اس شخص کے لئے امید کا پہلو ہے جو اس دنیا میں دکھی رہا، فکر آخرت پیدا کرنے کے لیے ابو یحییٰ نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، ادھوری کہانی ان میں مشکل ترین ہے وہ خود لکھتے ہیں "ادھوری کہانی” میری زندگی کی سب سے مشکل ترین تحریر ہے، اس میں ایک تو وہی مشکل ہے جو "جب زندگی شروع ہوگی” کی تصنیف کے وقت پیش آئی تھی کہ یہ ایسے عالم کی روداد ہے جس کے بارے میں ہمارا علم محدود ہے، "ادھوری کہانی” میں یہ مشکل دوگنی ہوگئ کہ اس دفعہ مستقبل کے ساتھ ماضی کی ان دیکھی دنیا بھی زیر بحث آگئی۔ "(صفحہ 4) مصنف کی خوبی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ناول تو دلچسپ ہو لیکن یہ اصل پیغام پر غالب نہ آجائے، اس ناول میں بھی وہ اس کوشش میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

ایک طرف امت مسلمہ بظاہر آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس عقیدے کے جو اثرات پڑھنے چاہیے وہ نہ ہی امت مسلمہ کی انفرادی زندگی میں نظر آتی ہے نہ ہی اجتماعی زندگی میں۔ ابو یحییٰ کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ میں آخرت سے شعوری تعلق پیدا ہو۔ ‘ادھوری کہانی’ اس سلسلے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔

بظاہر اس ناول کا مرکزی کردار یوسف (جوزف) ہے جو ایک نو مسلم ہے، جوزف ایک ارب پتی باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، جس کے انگلیوں کے اشارے پر دنیا کی نعمتیں جمع ہو جاتی تھیں، وہ آزاد فضاؤں میں اڑنے والا عقاب تھا اور کنول جو پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے؛ کے ارد گرد گھومتی ہے، کنول کی نہ ماں تھی نہ باپ۔ ان کے علاوہ عبداللہ، ناعمہ کا کردار بھی موجود ہے، یوسف کا باپ یہودیوں کے اس طاقتور گروہ کا خاص ممبر تھا جس کی کوشش تھی کہ  دنیا کے سبھی مالیاتی ادارے، ذرائع ابلاغ اور اہم دارالحکومت ان کے کنٹرول میں رہے، یہاں محسوس ہوگا کہ ہر فرد آزاد لگے گا لیکن حقیقت میں سب کچھ ان کی غلامی میں ہونگے، ہر فرد ان کے اصولوں کے مطابق جیے گا، یوسف کا باپ ان کی کمپنیوں کا اہم رکن تھا۔ یوسف کو ورثہ میں زندگی کی ہر آرائش ملی تھی اس کے باپ کو کنسر تھا، اب اس کی جگہ جوزف (یوسف) لینے والا تھا لیکن اسی اثنا میں جوزف کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، جوزف کے والد اپنے بیٹے کا بہترین علاج کروانا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ ہسپتال سے رابطہ کرتے ہیں وہاں سے انہیں ڈاکٹر کنول کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کنول ایک قابل مسلمان ڈاکٹر ہے۔ وہ جوزف کے گھر شفٹ ہوتی ہے، کنول نہ صرف اپنی خدمات بہتر طریقے سے انجام دیتی ہے بلکہ عبادات میں بھی جوزف کے لیے دعا کرتی ہے، آخر کار جوزف ٹھیک ہوتے ہیں، لیکن کنول کی محنت اور لگاو جوزف کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے،ساتھ ہی وہ کنول کے دین یعنی اسلام کا مطالعہ بھی کرتا ہے، وہ کنول کو شادی کا آفر کرتا ہے، حادثہ سے قبل اس کی ملاقات اچانک جہاز میں عبداللہ سے ہوتی ہے، وہ ایک ہی ملاقات میں اس سے متاثر ہوتا ہے، کنول سے دلچسپی کے بعد اس نے عبداللہ کی ویب سائٹ پر اسلام کی تعلیمات دیکھنا شروع کی، اس نے ساتھ ہی قرآن کریم کا مطالعہ بھی کیا، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہ اسلام قبول کرتا ہے اور جب وہ اپنا فیصلہ کنول کو سناتا ہے تو وہ کہتی ہیں "جوزف، مذہب بدلنا ایک سادہ معاملہ نہیں، اس کے سماجی اور تہذیبی نتائج ہوتے ہیں، پھر میں اتنے دن تمہارے گھر میں رہی ہوں، تمہارے والد کو جانتی ہوں، اس پس منظر میں تمہارے لیے یہ کرنا بہت مشکل ہوگا، اگر مجھ سے شادی کے لیے یہ کیا ہے تو پھر اس کام کے نتائج کا سامنا نہیں کر سکوگے، اس لیے جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہ کرو۔ "(صفحہ 133)لیکن جوزف نے شعوری طور فیصلہ کیا تھا، بالآخر وہ شادی کرتے ہیں، قبول اسلام اور مسلمان لڑکے سے شادی؛ وہ بھی وہ شخص جو بہت ہی اہم عہدے پر فائز ہونے والا تھا؛ اس کو وہ کیسے برداشت کرتے۔ بہرحال وہ لوگ کنول کو شہید کرتے ہیں۔ جوزف (یوسف) تنظیم سے بدلہ لینا چاہتا ہے اس نے منصوبہ بھی بنایا، اس سلسلے میں وہ عبداللہ سے ملتا ہے۔ وہ یوسف کو سمجھاتا ہے کہ بدلہ لینے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ عبداللہ بہترین انداز میں سمجھاتا ہے کہ کرنے کا کام یہ ہے کہ "تنظیم کے مقابلے میں خدا کو اپنے ساتھ ملا لیں، خدا سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ ” (صفحہ 200)،م سورہ یوسف کی عملی تعبیر سے یوسف کو واقف کراتے ہیں، یوسف کے ہر سوال کا بہترین جواب دیتے ہیں ، وہ جب عبداللہ سے کہتا ہے کہ تنظیم مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو عبداللہ جواب دیتا ہے” دیکھو، اگر تمہیں مسلمانوں سے حقیقی محبت ہے تو اس محبت کا درست طریقہ یہ ہے کہ انھیں ایمان و اخلاق کے راستے کی طرف بلاؤ جو وہ بیٹھے ہیں، تنظیم جیسی کچھ نہیں، یہ تو خدا کا عذاب ہے جو مسلمانوں کے جرائم کی بنا پر ان پر نازل ہوا ہے۔ "( صفحہ 205) لیکن یوسف کے دل میں انتقام تھا۔ وہ تنظیم کے خلاف منصوبہ بنانے لگا لیکن تنظیم کے پاس وسائل بہت زیادہ تھے لہذا وہ کامیاب نہ ہوا،الٹا تنظیم نے ان کے خلاف کارروائی کی، بہرحال وہ پھر عبداللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ عبداللہ اس کو دعوت دین کے کام میں لگاتا ہے۔ یہ تو ماضی کی کہانی ہے جو ادھوری رہ جاتی ہے۔ مصنف ساتھ ساتھ اصلی زندگی جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے؛ کا نقشہ بھی کھینچے ہیں کہ کس طرح ان کہانیوں کو آخرت میں پورا کیا گیا، کہانی اس خوبصورتی سے ترتیب دی گئی ہے کہ قاری ایک ہی نشست میں ناول کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ناول کی خصوصیت ہے کہ اس میں کئی سوالات کے جوابات ہیں جو اکثر انسانوں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن معاشرہ کے خوف کی وجہ سے وہ یہ سوال پوچھنے سے کتراتا ہے۔ ساتھ ہی جنت کے مختلف مراحل، جہنم کا منظر اور کئی اشکالات کا جواب ہے، یہ کتاب دکھی دلوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ خاص کر آج کل جب امت مسلمہ کی حالت خستہ ہے۔ ساتھ ہی یہ کتاب عروج کا راستہ بھی دکھاتی ہے، ماضی اور مستقبل کی یہ کہانی معمولی کہانی نہیں، عہدِ الست کے بارے میں مصنف نے خوبصورتی سے سمجھایا ہے اور کئی اشکالات کو دور کیا ہے، عام طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان کو دنیا میں صرف مسائل ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ اس کی زندگی دین دار زندگی تھی، کنول جس کے والدین بھی نہ تھے؛ جس نے انتہائی محنت کی اور جب اس کو ایک سچا پیار کرنے والا یوسف ملا تو اس کو قتل کیا گیا؛ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مصنف عبداللہ کی زبان سے جنت کے مقربین درجہ میں بیٹھی کنول؛ جس کے نیچے اصحاب الیمین کے بہت سے درجات تھے؛ سے مخاطب ہوتے ہوئے سمجھاتے ہیں "بے شک تم نے پچھلی دنیا میں بہت دکھ دیکھے تھے مگر تم غور تو کرو انھی محرومیوں، دکھوں، اذیتوں اور تکلیفوں کی بنا پر آج تم خدا کی قربت کے اس مقام پر پہنچی ہو، یہ تمہاری انوسنمنٹ تھی جو تمیں اربوں کھربوں گنا بڑھا کر تمہیں لوٹادی گئی ہے، تم سوچو کہ فانی زندگی کے دکھ ختم ہوگیے، مگر ابدی زندگی کے سکھ تمیں دے دیئے گیے، جنت میں کتنے لوگ ہیں جو پچھلی دنیا میں تم سے کہیں زیادہ نیکیاں کرتے ہیں اور تم اتنے اونچے مقام پر پہنچ گئی ہو۔ تمہیں تمہاری محرومیوں نے یہاں تک پہنچایا ہے۔ "(صفحہ 60)

عام طور پر ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ جنت جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی، جہاں موت کبھی نہیں آئے گی وہاں کی زندگی کیا بوریت کی زندگی نہیں ہوگی؟ جب موت ہی ختم ہوگی تو زندگی کا حسن بھی ماند پڑھ جائے گا، جنت میں اہل جنت کیا کیا کریں گے اور زندگی کس قدر خوشگوار ہوگی؛ اس کے بارے میں مصنف نے تمثیلی طور پر قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بظاہر وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔  مصنف کا ماننا ہے کہ ہماری ارواح نے جو شعوری وعدہ اللہ سے کیا تھا جس کو عہد الست کہتے ہیں میں جس روح نے جنت کا انتخاب کیا اس نے راستہ اور جنت کے درجہ کو خود ہی چن لیا، کچھ نے جنت کے لیے مشکل راستہ چنا اور کچھ نے تسلسل والا راستہ، جیسےکنول جوزف سے کہتی ہے کہ میں نے عہد الست میں دکھوں میں اضافے کے لیے محبت میں ناکامی اور جوانی کی موت مانگی تھی مجھے یہ دونوں مل گئی۔ "(صفحہ145) مزید لکھتے ہیں:” ہر چیز تمہارا اپنا انتخاب تھی، تم کب اور کہاں پیدا ہوئیں، کن حالات میں زندہ رہیں، زندگی میں کیا کردار ادا کیا، ان میں سے ہر چیز تم نے اپنی مرضی اور پورے شعور کے ساتھ خود چنی تھی، اس وقت فرشتوں نے تمہیں ہر فیصلے کے مضمرات و امکانات اور اثرات اور نتائج سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا۔ "(صفحہ 152), عہد الست کی مصنف نے کیا خوبصورت توجیہ کی ہے، اور اس سب کا استدلال قرآن مجید کے سورہ احزاب اور سورہ بقرہ کے آیات سے کرتے ہیں۔ (صفحہ 222) کتاب میں ناول کی  صورت میں بہت سے مسائل کو بہترین اسلوب میں بیان کیا گیا ہے مثلاً خدا کو کیسے پایا جائے ؟ ” خدا کو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے، اسلام یعنی خدا کے سامنے غیر مشروط طور پر جھک جانے کے ذریعہ پایا جاتا ہے، خدا کو یوسف علیہ السلام کی طرح صبر اور احسان کرکے پایا جاتا ہے، خدا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت یعنی ایمان و اخلاق کا نمونہ بننے سے پایا جاتا ہے، ایمان کا مطلب ہے کہ خدا ہر چیز سے اہم ہو جائے، انسان اس کی بے پناہ طاقت اور بے انتہا کرم کے احساس میں زندہ رہنے لگے۔۔۔ (صفحہ  207) عام طور پر جو سوال کہ جنت کی زندگی میں بغیر مقصد اور بے کار زندگی کیسی عجیب زندگی ہوگی نہ کوئی چلینج نہ موت کا ڈر، ان سب سوالوں کا جواب بھی کتاب میں دیا گیا ہے، مصنف جنت کے مناظر کوخوبصورتی سے پیش کرتے ہیں، لکھتے ہیں: "یہاں لوگ صرف ایک دوسرے سے ملتے ہی نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے کے لیے خوشی و مسرت کا سامان بھی فراہم کرتے تھے، یہاں ہر شخص کسی نہ کسی چیز کا ماہر ہے کوئی خوبصورت نغمے تخلیق کرتا، کوئی بے مثل خوشبوؤں کو جنت کے پھولوں سے کشید کرتا، کوئی مصوری کا ماہر، کوئی اعلی اشعار سے ذوق سلیم کو تسکین دیتا، کسی کا ذوق مزاج لوگوں میں خوشیاں بکھیرتا، کوئی کھانے پینے میں ایسی مہارت دکھاتا کہ لوگ بار بار فرمائش کرتے (صفحہ 306) ایک اور جگہ لکھتے ہیں "جنت نفیس اور اعلی انسانوں کے رہنے کی جگہ تھی، یہاں ہر شخص جذبات رکھنے کے باوجود اعلی اخلاقی روایات کا لحاظ کرتا ہے، یہاں بلندی اور سرفرازی اصلاً ایک ہی ہستی کے لیے تھی، یہ خدائے ذوالجلال کی ہستی تھی، باقی سب لوگ مراتب اور درجات کے فرق کے باوجود ایک دوسرے کا لحاظ کرتے تھے۔ "(صفحہ 110) جنت کے کھانے پینے کی اشیاء کی خصوصیت یہ تھی کہ صرف ذائقہ فراہم کرتی، نہ اہل جنت کو طاقت کی ضرورت تھی؛ نہ یہ ان غذاؤں کا مقصد تھا، یہ لذت کام و دہن کا بندوبست کرتیں اور جسم سے خوشبو کی شکل میں پسینہ کی جگہ نکل جاتے، نہ ہاضمے کا مسئلہ تھا نہ سیری کا، نہ بھوک تھی نہ پیاس کی شدت، بس راحت پر سامان تھا۔ (صفحہ 48) کون ایسا شخص ہوگا جس کے سامنے اس قدر خوبصورت مناظر ہونگے اور وہ نیک اعمال کے لئے سبقت نہیں لے گا۔مصنف جہنم کے مناظر بھی دکھاتے ہیں ایک منظر کو اس طرح پیش کرتے ہیں "جہنمیوں کی چینچ و پکار اور آہ و فغان نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، ایک طرف بھڑکتی آگ جس کے سامنے بہت سے جہنمی ستر گز زنجیروں سے بندھے ہوئے پڑے تھے، دو انتہائی خوفناک اور مہیب صورت فرشتے وہاں ایک ہاتھ میں کوڑے اور دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑے لے کر گھوم رہے تھے۔” (صفحہ 292) جنت اور جہنم کی منظر کشی کے دوران مصنف کی کوشش رہی ہے کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ہی استدلال کیا جائے،ناول ہونے کے باوجود اس کتاب میں بہت سے اہم علمی موضوعات پر مصنف روشنی ڈالتے ہیں، مثلا جنوں اور انسانوں میں فرق، (صفحہ 293)،الحاد کا بہترین جواب (صفحہ 177)،دعا اور تقدیر (صفحہ 164)،کیا تقدیر میں رد و بدل ہو سکتا ہے (صفحہ 160)وغیرہ.

اس میں کوئی شق نہیں کہ مسلمانوں کے اکثر مسائل خود ان ہی کی غفلت کی وجہ سے ہے لیکن یہ کہنا کہ باہر کے مسائل ہے ہی نہیں ایسا بھی درست نہیں مصنف لکھتے ہیں” مسلمان کو خارج سے کوئی نقصان نہیں پہچ سکتا، مسلمان دنیا کے سب سے خوش نصیب لوگ ہیں، عالم کے پروردگار نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے، چنانچہ امت محفوظ ہیں، انھیں کوئی ختم نہیں کر سکتا ہے۔مگر مسلمان اس خوش نصیبی کو بھول کر اپنے سیاسی اور فرقہ وارانہ نظریات، اپنی خواہشات اور تعصبات میں لگ گئے۔ ۔۔” (صفحہ 266) مسلمان لیڈر شپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ”۔۔۔۔ ان کے مسائل وہی ہیں جن کے لیے تم پریشان ہو رہے تھے، یعنی غیر مسلموں کی سازش، غیر مسلموں کے غلبے سے نجات پاکر اپنا غلبہ قائم کرنا، جو لوگ یہ نہیں کرتے وہ فرقہ واریت، ظاہر پرستی اور بدعات و توہمات کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں "(صفحہ 267)،یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی نصرت حاصل کرنے کے لیے ہمیں ذاتی کردار کو بلند کرنا ہوگا لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اجتماعی کوشش چھوڑ دیں ، مصنف کی اس بات سے اتفاق کرنا بھی مشکل ہے” اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس دنیا میں انسان کوئی جنت بنا لیں،ان کی یہ اسکیم ہے ہی نہیں کہ موجودہ دنیا کو جنت بنایا جائے،”( صفحہ 268) حالانکہ قرآن کریم کے ارشادات اس سلسلے میں واضح ہے، کہ انسانوں کو اس دنیا میں بھی عروج ملے گا.

بہرحال فکر آخرت کو پیدا کرنے کے لیے ابو یحییٰ کی یہ سیریز نہایت ہی اہم ہے، مسلمانوں کو خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی یہ کتابیں پڑھانی چاہیے۔ ہندوستان میں یہ کتاب ‘الرحمن فاونڈیشن کرناٹک’ نے عمدہ طباعت میں چھاپی ہے اور 350 صفحات کی قیمت صرف 200 روپے ہے۔

رابطہ :9906653927

تبصرے بند ہیں۔