مجھ پہ یہ تیرا کرم اور عنایت کیسی
جہانگیر نایاب
مجھ پہ یہ تیرا کرم اور عنایت کیسی
آج امڈی ہے تِرے دل میں محبت کیسی
…
خواب آنکھوں میں سجارکھےتھے ہم نے کیاکیا
سامنے آئی ہے تعبیر کی صورت کیسی
…
ہم تو رہتے ہیں ہر اک حال میں راضی بہ رضا
رنج کہتے ہیں کسے اور مصیبت کیسی
…
راستے میں تُو اگر لطفِ سفر چاہتا ہے
پھر ہے منزل سے گلے ملنے کی عجلت کیسی
…
مطلبی ہو گیا ہے جب یہ زمانہ سارا
اب اگر تم بھی بدل جاؤ تو حیرت کیسی
…
کوئی شے حسن سے خالی نہیں اس دنیا میں
منحصر اس پہ ہےاب کس کی بصیرت کیسی
…
تم تو پربت سے بھی اونچے ہو تمہارے آگے
میں تو رائی بھی نہیں ہوں مِری قامت کیسی
…
میں نہ کہتا تھا اکڑ ٹھیک نہیں ہے بھائی
اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو یہ خفّت کیسی
…
پاکے منزل کو بھی آسودہء منزل نہیں میں
جسم سے لپٹی ہے یہ گرد مسافت کیسی
…
اپنے ہی خول میں سمٹے نظر آتے ہیں جناب
آپ نے پائی ہے نایاب طبیعت کیسی
تبصرے بند ہیں۔