مرزا غالبؔ کے عہد شباب کی یکتائے زمانہ تصویر کا اجرا اور نمایش

روداد نگار:  ڈاکٹر فیصل حنیف

(بانی و صدر، گزرگاہِ خیال فورم، دوحہ، قطر)

مارا زمانے نے اسدؔ اللہ خاں تمہیں

وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا کیوں کہ ماضی میں سفر کرنا ممکن نہیں۔ ماضی کو کوئی بدل نہیں سکتا مگر ایک شخص کے، اور وہ ہے مورخ۔ انھی خطوط پر  چلتے ہوئے یہ  بھی طے ہے کہ رخشِ عمر کو پیچھے کی طرف دوڑانا تو کجا روکنا یا اس کی رو کو کم کرنا بھی کسی طور ممکن نہیں۔ عالمِ پیری میں آدمی فقط نور کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ اپنی دلجوئی کی خاطر کوئی چاہے تو اپنی پرانی تصاویر دیکھ لے اور بیک وقت خوش اور اداس ہو جائے۔ پرانی تصویر اگر عنقا ہو تو کیا کرے کوئی۔ تاریخ کے معاملہ میں جو کرامات مورخ کر سکتا ہے، عالمِ شباب کو واپس پھیرنے کے معاملے میں وہی سحر طرازی ایک مصور کے دست ہنر میں ہے۔ غالبؔ کا حسنِ طبیعت اس کی رنگیں نوائی میں  کھلا ہے۔ لیکن اس فسوں گری کے پیچھے کیا چہرہ ہے اس کی ہوس ہر محبِ غالبؔ کو ہے۔  غالبؔ کی عُمرِ شباب کے یک قدم استقبال کے لیے جز گزرگاہِ خیال فورم، جس کو غالبؔ سے ایک خاص نسبت ہے، اور کوئی  بروئے کار نہ آیا۔

غالبؔ کے عالمِ شباب  کی تصویر کی عدم موجودگی سے دل میں  غم کی پیچ دار گرہ پڑتی تھی، جس کو کھولنے کی خاطر، گزرگاہِ خیال فورم کے بانی و صدر جناب ڈاکٹر فیصل حنیف کی تحریک اور ایماء پر قطر کے معروف و منفرد مصور جناب شجاعت علی نے مرزا غالبؔ کی نوجوانی کے دور کی نظارہ و خیال کا سامان لیے ہوئے ایک اچھوتی  تصویر بنا ڈالی اور اردو کی تاریخ میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا۔

عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم گزرگاہِ خیال فورم نے 10 ستمبر 2015 بروز جمعرات، لایتوال ہوٹل المطار قدیم، قطر  میں "شام غالبؔ” کے عنوان سے ایک خصوصی  تقریب کا انعقاد کیا تھا جس میں جناب شجاعت علی کی بنائی ہوئی نوجوان مرزا غالبؔ کی تصویر کا اجراء اور نمایش کی گئی۔

مرزا غالبؔ کو اس سے قبل ان کی نوجوانی کے عہد کے مطابق پینٹ نہیں کیا گیا۔ غالبؔ کی تمام تصاویر اور پورٹریٹ جو آج کتابوں میں یا انٹرنیٹ پر موجود ہیں وہ غالبؔ کی پیری کے زمانے کی ہیں۔ یعنی غالبؔ کے عہد شباب کے عالم کو کسی مصور نے آج تک اپنی چشمِ تصور کا نخچیر نہیں کیا۔  انٹرنیٹ پر موجود غالبؔ کی مقبول عام تصویر جس میں مرزا نے گلابی رنگ کا فرغل زیب تن کر رکھا ہے، ایک جرمن مصور کی کاری گری ہے جسے ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنی طالب علمی کے دور میں 1920ء کی دہائی میں برلن جرمنی میں اپنی نگرانی میں بنوایا تھا۔اس خیالی تصویر میں  غالبؔ  کی عمر لگ بھگ ستر برس ہے۔

 مرزا غالبؔ  کا حلیہ غالبؔ  کے شاگردِ رشید مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اپنی کتاب ‘یادگارِ غالبؔ’ میں رقم کیا ہے۔  حالیؔ لکھتے ہیں "اہلِ دلی میں سے جن لوگوں نے مرزا کو جوانی میں دیکھا تھا ان سے سنا گیا ہے کہ عنفوان شباب میں وہ شہر کے نہایت حسین و خوش رو لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ اور بڑھاپے میں بھی جبکہ راقم نے پہلی بار ان کو دیکھا ہے، حسانت اور خوبصورتی کے آثار انکے چہرے اور قدوقامت اور ڈیل ڈول سے نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔ مگر اخیر عمر میں قلت خوراک اور امراض دائمی کے  سبب وہ نہایت نخیف و نزار ہو گئے تھے۔ لیکن چونکہ ہاڑ بہت چکلا قد کشیدہ اور ہاتھ پانو زبردست تھے اس حالت میں بھی وہ ایک نووارد تورانی معلوم ہوتے تھے۔”

غالبؔ نے خود بھی اپنے خطوط میں اپنا حلیہ باندھا ہے، خاص طور پر مرزا نے اپنے عنفوان شباب کی ذکر حسرت اور تفصیل سے کیا ہے۔ غالبؔ اپنے کو یوں بیان کرتے ہیں "میں ترک قوم کا سلجوقی ہوں۔ دادا میرا ماورا النہر سے شاہ عالم کا نوکر ہوا۔ میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے۔ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستایش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں! مجھ کو رشک آیا اور میں نے خون جگر کھایا تو اس بات پر کہ داڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے، وہ مزے یاد آ گئے۔ کیا کہوں جی پر کیا گزری؟ بقول شیخ علی حزیںؔ:

تادسترسم بود، زدم چاک گریباں

شرمندگی از خقۂ پشیمنہ ندارم

جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی۔”

آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا

تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے

 لو  حسرتِ دیدار کا خاتمہ ہوا۔  جناب شجاعت علی نے حالیؔ اور غالبؔ کے بیان کردہ حلیے کو اساس بنا کر غالبؔ کی نوجوانی کی تصویر تخلیق کی ہے۔ جناب شجاعت علی الجزیرہ قطر میں سیاسی کارٹونسٹ ہیں۔ ٢۔ڈی سیاسی متحرک ایمیجنگ کی درجہ بندی میں  امریکہ کے مارک فیور کے بعد جناب شجاعت علی دنیا میں دوسرے نمبر پر مانے جاتے ہیں۔

‘شام غالبؔ’ کی اس خصوصی نشست میں انڈیا اردو سوسایٹی کے بانی، شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی اوربزم اردو قطر کے سرپرست اعلی، قطر کی معروف سماجی شخصیت اور تاجر جناب عظیم عبّاس نے بطور مہمان  اعزازی، لایتوال ہوٹل کے جنرل مینجر جناب مرزا عمران بیگ اور  انڈیا اردو سوسایٹی کے صدر جناب عتیق انظر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔  یہ شام بزم اردو قطر کے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحی کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کی نظامت بزم اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے کی۔

اس خصوصی نشست میں شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو دس اراکین پر مشتمل جیوری کے فیصلے کے مطابق  ‘فخر المتغزلین’ کے خطاب سے نوازا گیا، جس کی تفصیل ایک الگ روداد کی شکل میں پیش کی جائے گی۔ جیوری کے چئیرمین صدارتی ایوارڈ یافتہ اقبال اکیڈمی اسکینڈینیویا ڈنمارک کے بانی و چئیرمین اور ماہر اقبالیات جناب جی صابر ہیں۔  جیوری اراکین میں علامہ اعجاز فرخ (ہندوستان)، پروفیسر ناصر علی سید (پاکستان)، ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ)، جناب نصر ملک (ڈنمارک)، جناب شمس الغنی (پاکستان)، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (ہندوستان)، ڈاکٹر نور صوبرس خان (برطانیہ)، جناب سید عبد الحئی (قطر)، ڈاکٹر فیصل حنیف (قطر) شامل ہیں۔

گزرگاہِ خیال فورم 2009ء سے ادبی منظر نامے پر متحرک ہے۔ 2012ء سے گزرگاہ خیال فورم نے غالبؔ مذاکروں کی شروعات کی تھی جس کے تحت ہر ماہ تواتر سے غالبؔ مذاکرہ ترتیب دیا جاتا ہے جس میں قطر کی معروف ادبی شخصیات شرکت فرماتی ہیں۔ اس خصوصی پروگرام کا اہتمام  پچھلے تین برس میں فورم کے غالبؔ کی پچاس غزلوں پر مباحثوں کی تکمیل کے حوالے سے کیا گیا تھا۔

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری

تقریب  کچھ   تو   بہرِ   ملاقات   چاہیے

تبصرے بند ہیں۔