مری شرابِ تمنّا مرے گلاس میں ہے
ادریس آزاد
مری شرابِ تمنّا مرے گلاس میں ہے
اِسی لیے تو یہ منظر ابھی حواس میں ہے
…
نہ اشک پی کے میسر ہوئی وہ سیرابی
جو انتظار کے دوپتھروں کی پیاس میں ہے
…
میں اپنے آپ سے رہتاہوں دور عید کے دِن
اِک اجنبی سا تکلّف نئے لباس میں ہے
…
کٹے پھٹے ہوئے دل کو نصیب ہوتاہے
وہ اِک گداز جو دُھنکی ہوئی کپاس میں ہے
…
بیان کرنے کو سات آسمان تھوڑے ہیں
جو کائنات کی وسعت خداشناس میں ہے
…
اُٹھا اُٹھا کے عداوت کا بوجھ کاندھوں پہ، اب
جھکی ہوئی مری دیوار التماس میں ہے
تبصرے بند ہیں۔