صرف یہ دیکھو کہ ہم کیا تھے کیا ہوگئے

حفیظ نعمانی

یہ بات تقریباً چھ مہینے سے کہی جارہی ہے کہ وزیراعظم الیکشن جلد کرادیں گے اس کی دلیل کوئی نہیں بس قیاس ہے۔ اب مودی جی نے پوروانچل اور اس کے بعد مغربی اضلاع میں جگہ جگہ ریلیوں کا پروگرام بنایا تو پھر مس مایاوتی اور اکھلیش یادو نے اسے جلد الیکشن سے جوڑا اور اپنی صفیں درست کرنا شروع کردیں۔ اس وقت ہر مخالف پارٹی مودی جی کو ہرانا چاہتی ہے لیکن جب اس کے لئے  قربانی کی بات آتی ہے تو کوئی ایک سیٹ چھورنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔

اس وقت مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ وغیرہ کے الیکشن سامنے ہیں مس مایاوتی اور جو لوگ الیکشن قبل از وقت ہوجانے کی بات کررہے ہیں وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان صوبوں کے ساتھ ہی وزیراعظم لوک سبھا کے الیکشن کراسکتے ہیں۔ دلیل کسی کے پاس کوئی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم کی جھولی خالی ہے وہ شاید ایسے پہلے وزیراعظم ہوں گے جو الیکشن میں پانچ سال حکومت کرکے جارہے ہیں اور ان کا نامۂ اعمال خالی ہے۔ انہوں نے 2014 ء میں جتنے وعدے بھی کئے تھے اور جتنے خواب بھی دکھائے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ اور انہوں نے جو اپنی عقل سے کیا یعنی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ وزیراعظم بننے کے لائق بالکل نہیں ہیں وہ صرف الیکشن میں جاہلوں اور گنواروں کو اپنی تقریروں سے مرعوب کردیتے ہیں۔ اور ان کے ووٹ لے لیتے ہیں۔

اب یہ فیصلہ تو آر ایس ایس کرے گا کہ اگر عوام ہندی گردی اور مسلم دشمنی میں ہی مست رہنا چاہتے ہیں تو وہ کسے وزیراعظم بنائے؟ اور اگر عوام کو ملک کی فکر ہے اور وہ خود الیکشن کے ذریعہ حکومت بدلنا چاہتے ہیں تو کسے وزیر اعظم بنواتے ہیں؟

ہم نے پرسوں سنجے نام کے ایک تعلیم یافتہ دلت لڑکے کی شادی کا ذکر کیا تھا جس کی گھوڑی پر بیٹھ کر بارات لے جانے کی ضد تھی اور وزیراعلیٰ نے دو ہزار پولیس والوں کے جلوس میں بارات نکلوائی۔ اس واقعہ کے بعد خیال آیا کہ ان دلت لیڈروں کے ضمیر کو کیا ہوگیا جو اپنی وفاداری ان اعلیٰ ذات کے ہندوئوں اور لیڈروں کے قدموں میں ڈال کر وزیر بنتے ہیں جو نہ یہ برداشت کریں کہ وہ برابر بیٹھیں نہ یہ برداشت کریں کہ جو سب ہندو کریں وہی وہ کریں۔ ان کے مندر الگ ان کے راستے الگ تو پھر وہ خود الگ کیوں نہیں ہوتے؟ اور ہر قدم پر ذلت برداشت کرتے ہیں اور انہیں عزت دیتے ہیں۔

اگر 71 برس ملک کو آزاد ہوئے ہوگیا تو وہ کیوں آزاد نہیں ہوئئے؟ اگر وہ کسی ایک لیڈر کی اطاعت نہیں کرسکتے تو ہر شہر اور ہر صوبہ میں اپنا ایک لیڈر کیوں نہیں بنا لیتے جو یہ فیصلہ کرے کہ اس بار کس پارٹی سے اتحاد کرنا ہے اور کسے ووٹ دینا  ہے؟ اترپردیش میں مسلمانوں اور دلتوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ دستور نے دلتوں کے لئے سیٹیں ریزرو کردی ہیں اتنی بڑی طاقت کے باوجود دلتوں کی غلامی کا یہ حال ہے کہ وہ بی جے پی کا ٹکٹ لیتے ہیں یا کانگریس کا ٹکٹ لیتے ہیں۔ وہ کیوں نہیں یہ فیصلہ کرتے کہ ریزرو سیٹوں پر صرف دلت پارٹی کا ٹکٹ لے کر لڑیں گے چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی ہو اس لئے کہ جیتنا دلت کو ہی ہے وہ جیتنے کے بعد بھی اعلیٰ ذات کا غلام بنا رہتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ الگ پارٹی ہوگی تو وہ اپنی مرضی کا مالک ہوگا۔

مدھیہ پردیش کے بارے میں کانگریس اور بی ایس پی میں کھنچاؤ ہورہا ہے۔ بی ایس پی کے ایک لیڈر نے یہ کہا ہے کہ وہ کنگ میکر بننا چاہتے ہیں اور کانگریس حکومت بنانے کے لئے الیکشن لڑرہی ہے دلت آبادی پورے ملک میں ہر جگہ ہے اور مس مایاوتی اتراکھنڈ میں بھی الیکشن لڑتی ہیں لیکن وہ اترپردیش سے باہر جہاں بھی ہیں ایک دو سیٹوں تک محدود ہیں۔ اب اگر مدھیہ پردیش میں دونوں میں مصالحت نہیں ہوئی تو لوک سبھا کے الیکشن میں متحد محاذ کا خواب چکناچور ہوجائے گا۔ مایاوتی کے جو نمائندے ہیں وہ انہیں وزیراعظم بھی بنانا چاہتے ہیں اور بابا صاحب امیڈکر کے خواب کی تعبیر اس میں نظر آتی ہے لیکن ملک کے سامنے ان کا پانچ سال کا اقتدار ہے انہوں نے کروڑوں روپئے خرچ کرکے ہزاروں ہاتھی بنوادیئے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ ہر چوراہے پر ہاتھ ہو ہر پارک میں ہاتھی ہو۔ انہوں نے اور جو کچھ بنوایا اور جو کچھ بھی کیا حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہم جیسے غیرجانبدار آدمیوں کو بھی بہت مایوس کیا۔ جو سبب وزیراعظم مودی کی ناکامی کا ہے کہ وہ جس ماحول سے آئے تھے اسی کے نمونے انہوں نے پیش کئے ہیں مس مایاوتی نے دکھایا کہ وہ دبی کچلی ترسی ہوئی آئی تھیں انہیں اقتدار ملا تو اسے ہضم نہ کرپائیں اور لاکھوں کروڑ مٹی میں ملادیئے۔ وجہ صرف یہ کہ ترسا ہوا مرد ہو یا عورت اس کی عقل پر اس کی حسرتیں غالب آجاتی ہیں۔

نریندر مودی بھی ترسے ہوئے تھے انہوں نے ملک کو بھکاری بنا دیا ان کے اندھے چاہنے والے کہہ رہے ہیں کہ جو 70  برس میں نہیں ہوا وہ چار برس میں ہوگیا اور ہمارا اپنا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ 67  برس میں بنا تھا اسے مودی نے چار برس میں برباد کردیا جس کی مثال ہمیں اپنے گھر میں نظر آرہی ہے کہ 71  سال پہلے ہمارے پاس ایک سائیکل تھی اور چار سال پہلے میرے صرف میرے بچوں کے پاس 10  گاڑیاں تھیں اور اب ہر بچہ شہر میں اسکوٹی استعمال کرتا ہے اس لئے کہ گاڑیاں تو ہیں پیٹرول اور ڈیزل کے پیسے نہیں ہیں۔ اور ایسا ہی سب کا حال ہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔

ان حالات کو صرف قربانی بدل سکتی ہے اور وہ قربانی راہل کو بھی دینا پڑے گی اور مایاوتی، اکھلیش، ممتا بنرجی، شرد پوار اور شرد یادو کو بھی اور قربانی یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں مایاوتی کو ساتھ ملا لیا جائے اور جہاں کانگریس نہیں ہے یا کم ہے وہاں میدان علاقائی پارٹیوں کے لئے چھوڑدیا جائے اس وقت ملک کو مودی جی کے ہاتھ سے لینا ضروری ہے ورنہ آئندہ پانچ سال میں ملک تباہ ہوجائے گا اور مانگنے سے بھیک بھی نہیں ملے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔