مری شرابِ تمنّا مرے گلاس میں ہے

ادریس آزاد

 مری شرابِ تمنّا مرے گلاس میں ہے
اِسی لیے تو یہ منظر ابھی حواس میں ہے

نہ اشک پی کے میسر ہوئی وہ سیرابی
جو انتظار کے دوپتھروں کی پیاس میں ہے

میں اپنے آپ سے رہتاہوں دور عید کے دِن
اِک اجنبی سا تکلّف نئے لباس میں ہے

کٹے پھٹے ہوئے دل کو نصیب ہوتاہے
وہ اِک گداز جو دُھنکی ہوئی کپاس میں ہے

بیان کرنے کو سات آسمان تھوڑے ہیں
جو کائنات کی وسعت خداشناس میں ہے

اُٹھا اُٹھا کے عداوت کا بوجھ کاندھوں پہ، اب
جھکی ہوئی مری دیوار التماس میں ہے

تبصرے بند ہیں۔