مقصود عالم رفعت
مرے پہلو میں وہ بیٹھا ہوا تھا
کسی کی یاد میں کھویا ہوا تھا
…
یوں چہرہ چاند کا نکھرا ہوا تھا
اجالا دور تک پھیلا ہوا تھا
…
اچانک پاس دولت آ گئی تھی
سو اس کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا
…
مکیں اس میں کوئی رہتا بھی کیسے
مکان دل ہی جب ٹوٹا ہوا تھا
…
میں عادی تھا سدا حق بولنے کا
سر محفل جو میں رسوا ہوا تھا
…
نہیں تھا بے وفا محبوب میرا
یقینا عشق کا سودا ہوا تھا
…
منانے وہ مجھے آئیں گے رفعت
میں بس یہ سوچ کر روٹھا ہوا تھا
تبصرے بند ہیں۔