جھوٹا سچ یا سچا جھوٹ

زبـــــــــــیر سعیدی العمری

احباب!

تکلیف تب زیادہ ہوتی ہے جب تعلیم یافتہ اور سمجھدار لوگ بھی پیغامات کی ترسیل کرتے وقت تحقیق کرنا تو درکنار اپنی عقل سلیم کا رتی برابر حصہ بھی استعمال کرتے نہیں دکھتے۔

میں ان وہاٹس ایپ پیغامات کی بات نہیں کر رہا ہوں جن کا فرضی ہونا اب بآسانی سمجھ میں اب آنے لگا ہے جیسے: ‘یہ تصویری بچہ ملا ہے’ ، ‘کسی کا ابھی ابھی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے جن کی دو کڈنیاں دستیاب ہے’ ، ‘عمان میں انگریزی ٹیچروں کی ضرورت ہے’ یا ‘ہندوستانی فوج میں ماہر اسلامیات کی بھرتی ہو رہی ہے’۔  وغیرہ وغیرہ

بلکہ آج میں آپ کا دھیان کچھ دوسرے پیغام کی طرف مبذول کرانا چاہ رہا ہوں، جن میں جذباتیت کی شراکت بھی ہوتی ہے اس لئے ان کو درست سمجھنا کچھ لوگ عین ایمانی و اسلامی تقاضہ سمجھ لیتے ہیں۔

پچھلے کچھ دن سے لگاتار کسی نہ کسی گروپ پر کوئی نہ کوئی ذی شعور اللَّهُ کا بندہ ایک تصویر اور ایک پیغام ارسال کر رہا ہے… آج بھی تقریباً تین گروپ پر مجھے ذاتی طور سے وہ پیغام موصول ہوا۔

 پیغام میں ایک تصویر ہے، جو رولنگ پارٹی کے معروف ممبر آف پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی اور ان کی بیٹی کی بتائی جا رہی ہے، ساتھ میں کچھ اور لوگ بھی ہیں، لیکن بطور خاص محترمہ کے والد سبرامنیم سوامی کو فوکس کیا گیا ہے، تصویر میں جو محترمہ ہیں وہ اسلامی طرز کا لباس برقع پہن کر سوامی جی کے ساتھ کھڑی ہیں، متصلاً ایک پیغام بھی ہے، جس کے مطابق وہ محترمہ سفرِ حج کے لئے روانہ ہو رہی ہیں اور ان کے والد انہیں الوداع کہنے ائیر پورٹ تشریف لائے ہیں.

وﷲاعلم

تعجب کی بات صرف اتنی ہے کہ اس کو نشر کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اسے دیکھ کر خوش ہونے والے اور دعائیہ کلمات سے نوازنے والوں کی بھی ایک ہوڑ لگی ہوئی ہے اور یہ ہوڑ کیوں نہ ہو، ان کے نزدیک اسلام جو پھل پھول رہا ہے، افسوس ہوتا ہے اس ذہنیت کے حامل افراد پر۔

کچھ بند اے سی کمروں میں بیٹھکر اسلام کی تجارت کرنے والے بھی فخریہ انداز میں اسے قبول کر رہے ہیں اور اپنے اپنے گروپس پر اس پیغام کی ترویج اس انداز میں کر رہے ہیں گویا کوئی بہت بڑا معجزہ پیش آگیا ہو۔

ایک سوال؟

 کیا کسی نے سوچا کہ آخر یہ معاملہ دراصل ہے کیا؟ کیا جیسا دکھایا جا رہا ہے وہی سچ ہے یا کسی گیم کے پلان کا حصہ ہے؟ ایک دوسری ٹؤیٹر پوسٹ کے مطابق وہ کچھ خواتین کی جماعت ہے جو سوامی جی کے ساتھ فوٹو لے رہی ہیں۔

کیوں سوامی جی بھی اس کی صفائی پیش نہیں کرنا چاہ رہے ہیں؟

اور سب سے بڑا سوال

کیوں آئے دن مختلف ہندوستانی سیلیبرٹیز کے انفرادی قبول اسلام کی خبریں ہمیں مسلم آئی ڈیز سے موصول ہوتی رہتی ہیں؟ جبکہ ایک شرما جی کا رجیہ بانو بننا ثابت ہو چکا ہے۔

جملے میں مستعمل لفظ انفرادی پر غور کریں..

لیکن پہلے

آپ کی توجہ  دوسری جانب مبذول کراتا ہوں

آئیے ان آیات مقدسہ کی تلاوت کریں

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ (213) وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (214)

ترجمہ بھی دیکھ لیں:

ﷲ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار ورنہ عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو (بھی) ڈراؤ (مطلب یہ وعید سناؤ)

مطلب کچھ سمجھ میں آیا، بتاتا چلوں کہ  قبولیت اسلام کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اپنے سگے رشتہ داروں کو بھی دعوت اسلام دی جائے تاکہ وہ بھی عذاب برحق سے بچ سکیں۔ اللَّهُ اکبر

اب میں اپنے بچپن کے قبول اسلام کے دو واقعات سنا رہا ہوں، جو میرے ہوش سنبھالتے وقت کافی معروف تھے۔

پہلا واقعہ ترچی (ٹمل ناڈو) کا ہے، جہاں ایک شخص نے اسلام قبول کیا اور اس کے ساتھ اس کے تمام گھر والوں نے اور پھر پوری بستی والوں نے اسلام قبول کیا، من جملہ ٣٠٠ افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے

دوسرا واقعہ

غازی آباد (اتر پردیش) کا ہے، وہاں بھی ایک شخص نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے پورے پریوار کو دعوت اسلام پیش کی اور اس پریوار کے بیشتر افراد نے اسلام قبول کیا۔

ان دونوں واقعات میں محرک ایک معروف تحریک کے کچھ افراد تھے (جن لوگوں کو یہ جملہ غیر ضروری لگے وہ حذف کرکے تحریر آگے پڑھیں)

اب آئیں وہیں پر جہاں غور و خوض کے لئے میں نے آپ کو چھوڑا تھا۔

کیا وجہ ہے کہ یہ سیلیبس (چمکتے افراد) انفرادی طور پر اسلام قبول کرتے ہیں؟

یہ کیوں اپنے اہل و عیال کو اس عذاب سے نہیں ڈراتے جس کا حکم اوپر مذکور آیت میں دیا گیا ہے؟

یا یہ صرف دولت، شہرت، پیار، من چاہے رشتے کے حصول اور نکاح ثانی کے لیے ہی اسلام قبول کرتے ہیں؟

جیسا کہ ان سیلیبرٹیز کے کیس میں اکثر دیکھا جاتا ہے۔ اگر یہی سچ ہے تو بخاری کی پہلی حدیث إنما الأعمال بالنيات کے آخر میں ایک ٹکڑا ہے "او الی امرأة……” پیش کر رہا ہوں۔

مطلب اگر کسی نے عورت کے لئے ہجرت کی تو اسے بس وہ عورت ہی ملی، ہجرت کا اجر نہیں… اسی طرح

ان چمکتی لڑکیوں نے اگر صرف لڑکے کے لئے اسلام قبول کیا ہے تو ان کو صرف لڑکا ہی ملا، اسلام کے فیوض و برکات ہرگز نہیں۔

بات صرف ہندوستان کی بھی نہیں ہے، سعودی عرب میں مقیم کچھ امریکی فوجی اچانک اسلام قبول کر لیتے ہیں، اچھا لگتا ہے دیکھ کر کہ اسلام پھل پھول رہا ہے، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھی انہیں امریکی فوج میں رہنا اور طرز معیشت میں شامل حرام کاریوں کو انجام دیتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لگتا!

وﷲ أعلم کے ساتھ لکھ رہا ہوں

مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سب اپنے اپنے مشن پر بہ خوبی عمل پیرا ہیں، حرمین کی زیارت کے لئے چونکہ قبولیت اسلام شرط اولین ہے اس لئے یہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ان کے مشن کا حصہ ہوتا ہے

ورنہ صدق دل سے اسلام قبول کرنے والا تو بیچین ہوتا ہے، وہ گڑگڑاتا ہے، اپنے رب کے حضور اپنے پچھلے تمام گناہوں کی معافی تلافی کرتا ہے، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ﷲ کے عذاب سے ڈراتا ہے اور اس راہ میں آنے والی تمام مشکلات کا سامنا بھی کرتا ہے۔

ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے نو مسلموں کو اپنے رشتہ داروں کی اذیّتوں سے بچنے کے لئے چھپ چھپ کر زندگی گزارتے بھی دیکھا ہے۔

لیکن وہ اپنے راستے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ لیکن آجکل کے یہ سیلیبرٹی نو مسلمین جن میں کوئی مسز شاہ نواز کی شکل میں موجود ہے، کوئی مسز نقوی کی شکل میں، کوئی کسی کی بیٹی کی شکل تو کوئی کسی ابھی نیتا کی دھرم پتنی کی شکل میں ہے، سب کے سب کتنے خود غرض نو مسلم ہیں، کسی نے اپنے قریبی رشتہ دار کو اس عظیم نعمت کے بارے میں بتایا ہی نہیں۔

اگر سبرامنیم سوامی کی بیٹی حج پر ہی جارہی ہوگی تو مجھے لگتا ہے کہ وہ حج پر اپنے مشن پر جارہی ہوگی جس کے لئے اسے مقرر کیا گیا ہوگا۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سب نو مسلموں کو شک کی نظر سے دیکھا جائے

بلکہ ایک پیمانہ تو وضع کرلیا جائے۔

اوپر دو مثالوں کے ذریعے میں نے یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے پہلے اپنے پورے کنبے کو دعوت دیتے ہیں پھر اللَّهُ بھی سب کی ہدایت کا سامان کرتا ہے۔

میں یہ سب اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہم اپنی صفوں میں شامل ہونے والوں دوستوں اور دشمنوں کی تمیز کرنا سیکھ لیں۔

ہم اسلام کے آمین ہیں، محافظ ہیں، اور امانت داری اور حفاظت کے کچھ اصول ہوتے ہیں، ان پر عمل کرنا بھی فرض ہوتا ہے۔

اگر میری بات بالکل بھی سمجھ سے پرے لگ رہی ہو تو تاریخ سے بھی ایک بڑی مثال پیش کر رہا ہوں، سن لیں۔

سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے دارالعلوم دیوبند سے ریشمی رومال نام کی ایک تحریک شروع ہوئی تھی، کیا سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی ناکامی کی اصل وجہ کیا تھی؟

اس وقت بھی مسلمانوں کی صف میں کچھ منافق مسلمان بن کر شامل ہوگئے تھے جو انگریزوں سے ملے ہوئے تھے، جنہوں نے نہ صرف انگریزوں کے سامنے خلافت قائم کرنے کے منصوبے کا راز فاش کیا بلکہ ان تمام لوگوں کے نام بھی افشا کردئے جو اس تحریک میں شامل تھے، پھر ان کا وائسرائے نے جو انجام کیا، وہ بھی تاریخ نے دیکھا تھا… سب کو قتل کر دیا گیا تھا ۔

اے کاش کہ ہماری مستقل میں آنے والی کوئی تحریک ان دشمنوں کی وجہ سے ناکام نہ ہوجائے، جو منافق ہیں اور ہماری صفوں میں شامل ہو گئے ہیں، فی الحال تو کوئی تحریک ایسی نہیں چل رہی ہے، مجھے تو بس فکرِ مستقبل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔