مرے پہلو میں وہ بیٹھا ہوا تھا

مقصود عالم رفعت

مرے پہلو میں وہ بیٹھا ہوا تھا

کسی کی یاد میں کھویا ہوا تھا

یوں چہرہ چاند کا نکھرا ہوا تھا

اجالا دور تک پھیلا ہوا تھا

اچانک   پاس  دولت آ گئی تھی

سو اس کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا

مکیں اس میں کوئی رہتا بھی کیسے

مکان  دل ہی جب ٹوٹا ہوا تھا

میں عادی تھا سدا حق بولنے کا

سر محفل جو میں رسوا ہوا تھا

نہیں  تھا بے وفا محبوب میرا

یقینا عشق کا سودا ہوا تھا

منانے وہ مجھے آئیں گے رفعت

میں بس یہ سوچ کر روٹھا ہوا تھا

تبصرے بند ہیں۔