عبدالکریم شاد
یہ ظرف دیکھ کے لوگوں کا، بار دیتا ہے
سو عشق مجھ کو غمِ بے شمار دیتا ہے
…
تجھے میں عشق کا چشمہ پہن کے دیکھتا ہوں
یہ تیرا حسن اضافی نکھار دیتا ہے
…
سیاہ تل جو ترے گال پر نمایاں ہے
یہ چاند رات کی زلفیں سنوار دیتا ہے
…
میں کیا کہوں کہ بڑے ناز سے وہ کہتے ہیں
بھلا کسی کو کوئی اتنا پیار دیتا ہے
…
جگر سنبھال کے میں اس سے بات کرتا ہوں
"وہ باتوں باتوں میں خنجر اتار دیتا ہے”
…
ہے اختیار سمندر کی لہروں پر اس کا
سفینے پر وہ مجھے اختیار دیتا ہے
…
ہٹاؤ اس کو مرے سامنے سے لے جاؤ
یہ آئنہ مرا چہرہ اتار دیتا ہے
…
پکارتا ہے ہرن کو بہ نامِ آزادی
یہ بھیڑیا اسے بہکا کے مار دیتا ہے
…
نہ جانے کون سی حالت میں مانگ لے واپس
یہ وقت شاد کو خوشیاں ادھار دیتا ہے
…
سمجھ لو شاد! کہ دامن میں اس کے گل ہی نہیں
برا نہ مانو اگر کوئی خار دیتا ہے
تبصرے بند ہیں۔