وہ باتوں باتوں میں خنجر اتار دیتا ہے

عبدالکریم شاد

یہ ظرف دیکھ کے لوگوں کا، بار دیتا ہے

سو عشق مجھ کو غمِ بے شمار دیتا ہے

تجھے میں عشق کا چشمہ پہن کے دیکھتا ہوں

یہ تیرا حسن اضافی نکھار دیتا ہے

سیاہ تل جو ترے گال پر نمایاں ہے

یہ چاند رات کی زلفیں سنوار دیتا ہے

میں کیا کہوں کہ بڑے ناز سے وہ کہتے ہیں

بھلا کسی کو کوئی اتنا پیار دیتا ہے

جگر سنبھال کے میں اس سے بات کرتا ہوں

"وہ باتوں باتوں میں خنجر اتار دیتا ہے”

ہے اختیار سمندر کی لہروں پر اس کا

سفینے پر وہ مجھے اختیار دیتا ہے

ہٹاؤ اس کو مرے سامنے سے لے جاؤ

یہ آئنہ مرا چہرہ اتار دیتا ہے

پکارتا ہے ہرن کو بہ نامِ آزادی

یہ بھیڑیا اسے بہکا کے مار دیتا ہے

نہ جانے کون سی حالت میں مانگ لے واپس

یہ وقت شاد کو خوشیاں ادھار دیتا ہے

سمجھ لو شاد! کہ دامن میں اس کے گل ہی نہیں

برا نہ مانو اگر کوئی خار دیتا ہے

تبصرے بند ہیں۔