ادب سے نام لیا، مسکرا کے بھول گئے 

جمیل اخترشفیق

ادب   سے نام  لیا، مسکرا کے بھول گئے

یہ کیا کہ لوگ مرا دل جلا کےبھول گئے

اگر  قریب نہ آتے  تو   کوئ  بات نہ تھی

ستم تو یہ  ہے کہ اپنا  بنا کے  بھول گئے

بچھڑکے یوں بھی کسے کون یادرکھتاہے

چلو یہ اچھاہوا تم بھی جاکے بھول گئے

جنہیں عزیزمیں رکھتا تھا ساری دنیاسے

وہ  میری  قبر پہ آنسو  بہا کے بھول گئے

مرے  قریب تو آؤ،  تمہیں  بدل  دوں میں

وہ اورہوں گےجورسمیں نبھاکےبھول گئے

شفیق تم بھی طبیعت  کے  کتنے بھولے ہو

ارے! میں کل ہی ملاتھا، رُلاکے بھول گئے

تبصرے بند ہیں۔