جمیل اخترشفیق
ادب سے نام لیا، مسکرا کے بھول گئے
یہ کیا کہ لوگ مرا دل جلا کےبھول گئے
…
اگر قریب نہ آتے تو کوئ بات نہ تھی
ستم تو یہ ہے کہ اپنا بنا کے بھول گئے
…
بچھڑکے یوں بھی کسے کون یادرکھتاہے
چلو یہ اچھاہوا تم بھی جاکے بھول گئے
…
جنہیں عزیزمیں رکھتا تھا ساری دنیاسے
وہ میری قبر پہ آنسو بہا کے بھول گئے
…
مرے قریب تو آؤ، تمہیں بدل دوں میں
وہ اورہوں گےجورسمیں نبھاکےبھول گئے
…
شفیق تم بھی طبیعت کے کتنے بھولے ہو
ارے! میں کل ہی ملاتھا، رُلاکے بھول گئے
تبصرے بند ہیں۔