مسائل اور ان کا حل

عالم نقوی

دس سال قبل  جنوری ۲۰۰۸ میں ماہنامہ ’رفیق منزل ‘دہلی نے ’’رہنمائے عہدِ نو ‘‘ کے موضوع پر دو سو دس صفحات پر مشتمل  ایک  یادگار خصوصی شمارہ شایع کیا تھا۔ جریدے کی موضوعاتی  جامعیت اور معنویت کا یہ عالم ہے کہ کہیں سے بھی  کھول کے  دیکھیے، کوئی بھی مضمون پڑھیےلگتا ہے آج ہی لکھا گیا ہے !سید سعادت حسینی نے ’’یہ ہے راستہ ‘‘ کے عنوان سے اپنے آخری مضمون  کے تین صفحوں میں(صفحہ ۲۰۵ تا ۲۰۷ ) دو سو چار صفحات پر پھیلے ہوئے  عہد نو میں نوجوانوں  کی رہنمائی پر مشتمل  ِاِکتالیس مضامین کا نچوڑ  پیش کر دیا ہے۔ آج ہم اپنے قارئین کے لیے اُسی کو اپنے کالم کی ضرورت کے اعتبار سے مزید   اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :

  دور جدید کی نمایاں خصوصیات کو درج ذیل نکات میں پیش کیا جا سکتا ہے :

(۱)جدید دور اور جدید تہذیب کی عمارت جن فلسفوں کی بنیادوں پر کھڑی ہےوہ تمام کے تمام باطل، مادّہ پرست اور اباحیت پسند فلسفے ہیں۔ انہوں نے ’عقل ‘ کو بظاہر فیصلہ کن مقام دے رکھا ہے لیکن ’مادّہ پرستی، دولت اور آسائشوں کی ہوَس، قومی، نسلی (اور لسانی ) تفاخر‘ جیسے رَکیک اِنسانی جذبات ہی اِن فلسفوں کے  بنیادی محرک ہیں۔ اگرچہ گزشتہ اَدوار کے مقابلے میں’’انسانی برابری، جمہوریت، انسانی حقوق، تاجرانہ ایمانداری وغیرہ جیسی قدروں کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے لیکن، ناپائدار نظریاتی بنیادوں کی وجہ سے یہ قدریں ہمیشہ چھوٹے (معمولی ) اور وقتی مفادات کے تابع رہتی ہیں۔

(۲)دنیا میں اِس وقت اِسی مادّہ پرستی کی بنیادوں پر بڑے بڑے تجارتی اداروں کا غلبہ ہے جنہیں ’ملٹی نیشنل ‘ اور ٹرانس نیشنل کمپنیاں ‘کہا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں  MNCs اور TNCsاور ان کے مالکان ایسی معاشی پالیسیاں بناتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں دولت، دنیا کے غریب عوام سے چھِن چھِن کر امیروں کی تجوریوں میں جمع ہونے لگتی ہے اور بے نظیر معاشی نابرابری پیدا ہوتی ہے۔

دنیا کی اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں کا مقصد ان ہی بڑے تجارتی اداروں کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔(بازار کی) ان قوتوں (Market Forces)نے دنیا بھر کے سیاسی نظاموں، نظریوں، دفاعی (جنگی) پالیسیوں اور ’میڈیا‘ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے (وطن عزیز میں امبانی اَڈانی اور بوفورس توپوں سے لے کر رفائل طیاروں تک کے ڈکیتی جیسےاربوں کھربوں روپئے کے  گھوٹالے اس کی بدترین مثال ہیں )۔

(۳)چونکہ یہ سبھی  غاصب طاقتیں اسلام کو اپنےمذموم (اور انسانیت دشمن ) عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ اس لیے اسلام اور پیغمبر اسلام (ﷺ)کو بدنام کرنا اور مسلمانوں (اور ان کی تہذیب و ثقافت ) کمزور کرنا ان کا (مشترکہ )ہدف ِ ہے۔ (اسلامو فوبیا،توہین رسالت  اور مسلم ملکوں  پر جنگوں اور خانہ جنگیوں کا تسلط اسی ابلیسی ہدف کی تکمیل کے مختلف شیطانی طریقہ کار  ہیں)

(۴)جدید نظام تعلیم جو ’بازار کی(ضرورتوں ) اور ترجیحات ‘کے مطابق تشکیل (دیا گیا )ہے (بازار کی قوتوں۔ مارکٹ فورسز۔ اور )استعمار کا ایک اہم ہتھیار ہے۔ استعمار اپنے (ساختہ و پرداختہ) اس جدید نظام (تعلیم)ہی کے ذریعے اپنے ’مخلص، بے زبان، فرماں بردار(اور بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کے وفا دار )خادم تیار کرتا ہے اور نوجوانوں کے دلوں سے  حریت فکر، بغاوت کا جذبہ، اور (ہر طرح کے ظلم و جور سے خالی، عدل و قسط پر مبنی )مثالی دنیا کے خواب دیکھنے کی صلاحیت ختم کر کے نوجوانی کی روح نکال دیتا ہے تاکہ استعمار کے ہمہ گیر استبداد کے خلاف کسی قسم کی جد و جہد کا کوئی امکان  ہی باقی نہ رہے۔ (اور اس کے بعد بھی اگر کچھ انسان دوست  اور غریب دوست لوگ  صدائے احتجاج بلند کریں تو، یا تو انہیں کلبرگی اور گوری لنکیش وغیرہ کی طرح ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے یا اِن حقیقی دیش بھکتوں  پر بغاوت اور غداری کے جھوٹے الزامات لگا کر جیلوں میں غیر انسانی تعذیب کا نشانہ بنایا جائے،جیسا کہ ابھی حال ہی میں مہاراشٹر میں ہوا ہے )۔

(۵)اسلامی دنیا اگرچہ (اپنے قدرتی و انسانی )  وسائل  اور مواقع کے اعتبار سے مالا مال ہے لیکن مسلمانوں کے تاریخی زوال، مغرب کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی موجودگی اور باہمی اتحاد و اتفاق کے فقدان کی وجہ سے عالم ِ اسلام استعماری طاقتوں (اور بازار کی ابلیسی قوتوں ) کے لیے مؤثر چیلنج ثابت نہیں ہورہی ہے۔

(۶)جدید عالمی استعمار نے دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مختلف محاذوں پر  اَنتھَک محنت کی ہے۔ بازار (مارکٹ ) کا نیا تصور، بڑے مالیاتی ادارے، شاپنگ مال،(انٹر نٹ، آن لائن شاپنگ ) فضول خرچی، تعیش پسندی، اشتہارات، فلموں اور ڈراموں وغیرہ  کے ذریعے اشیا کی بے ضرورت خریداری  کا جنون پیدا کر دینا،لہو و لعب اور تفریحات وغیرہ وہ پُر فریب تدابیر ہیں جن کے ذریعے عالمی استعمار (اور بازار کی قوتوں کے مالک مٹھی بھر افراد  )اپنی دولت اور قوت میں اندھا دھند اضافہ کرتے ہیں اور دوسری طرف انسانیت کے ایک بڑے حصے کو عیش و تفریح کی افیم پلا کر سلا دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے جبر و استبداد اور مکر و فریب کے خلاف آواز اٹھانا یا کھڑے ہونا تو درکنار ایسی کسی بات کے لیے سوچ بھی نہ سکیں۔

(۷)ذرائع ابلاغ (میڈیا ) کے تمام وسائل اور ذہن سازی کے دیگر ادارے پہلے ہی انہوں نے اپنے قبضہ تصرف میں لے رکھے ہیں (آپ کو شاید حیرت ہو گی کہ دنیا کا نوے فی صد سے زائد میڈیا (پرنٹ، الکٹرانک اور ڈیجیٹل سب ) انہی ایم این سیز اور ٹی این سیز کے قبضے میں ہے۔ وہ صرف اپنے مفاد کی چیزیں دکھاتے بتاتے اور سناتے ہیں اور ہر وہ مسئلہ جس کا تعلق دنیا کی  اَسّی فی صد آبادی سے ہے اُسے یوں نظر انداز کیا جاتا ہے جیسے ان کا تعلق  اس دنیا سے نہیں کسی دوسری دنیا سے ہو !

( رویش کمار کے لفظوں میں اس ’گودی میڈیا )کو   اب ’ فیک نیوز‘ پھیلانے کا آلہ بنا   دیا گیا   ہے جس کا واحد مقصد  عوام کو گمراہ کرنا اور نوجوانوں کے مخصوص گروہوں کو مشتعل کر کے انہیں ’ماب لنچنگ ‘ جیسے  مذموم مقاصد کے لیے استعمال  کرنا رہ گیا ہے )۔

خبروں کو اِس طرح ڈھالا جاتا ہے کہ استعمار کے مخالفین دنیا کے لیے بھیانک خطرے کی صورت میں سامنے آئیں( اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور ظلم سے نبرد آزما، بے گناہ ’دہشت گرد ‘ نظر آئیں ) اوراستعمار کے حامی اور غلام انسانیت کے سچے ہمدرد ظاہر ہوں ! اخباری کالموں، ٹی وی سیریلوں، نوجوانوں اور عورتوں کے لیے مخصوص رسالوں، ناولوں اور نام نہاد ادب کے ذریعے ایسے ’لائف اسٹائل ‘ اور ایسے ’نان اشوز ‘ کو فروغ دیا جاتا ہے جو (بازار کی قوتوں۔ مارکٹ فورسز ) اور استعمار کے لیے مفید ہو۔

(۸)بلا شبہ، دنیا میں عدل و انصاف کے قیام اور (صہیونی و مشرکانہ ) استعمار کے خاتمے کے لیے(مسلمانوں اور مسلم دنیا کے علاوہ بھی )  بہت سی تحریکیں  چل رہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے  ایک سنہری موقع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ استعمار کے ظلم و استبداد کے  شکار صرف مسلمان ہی نہیں، دنیا میں اور بھی غریب، کمزور، سیاہ فام اور رنگ دار  اقوام  اور سماجی و معاشی اعتبار سے  پسماندہ و درما  ندہ طبقات بھی مظلومین و محرومین کی صف میں شامل ہیں۔  (مثلاً وطن عزیز میں وہ جنہیں  درج فہرست ذاتوں اور قبائل۔ ایس سی، ایس ٹی۔ کے نئے سرکاری نام سے جانا جاتا ہے کئی ہزار سال سے نام نہاد اعلیٰ ذات والوں کے مظالم کے شکار ہیں،جن کی مجموعی تعداد ملکی آبادی کے پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں، لیکن وہ پچاسی فی صد آبادی کے حقوق غصب کیے بیٹھے ہیں) اور یہ  سارے مستضعفین بجا طور پر عدل و انصاف، بنیادی حقوق کے حصول اور برابری کے خواہاں ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ  ان کی ایک قابل ذکر تعداد اسلام کو جدید عہد کے مسائل کے واحد حل کے طور پر دیکھ بھی  رہی ہے۔ اُن کے اور انکے حامیوں کے ذہن و فکر میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ بڑی حد تک اسی رُخ پر ہیں جو اسلام  دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے۔

 اب نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ اور بقول اقبال :

دنیا کو ہے اس مہدی بر حق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلہ ء عالم ِ افکار !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔