انانیت کا نشہ

مدثراحمد

ایک واقعہ ہے کہ حضرت جنید بغدادی اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے۔ انکے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور، نحیف اور لاغر شخص آگیا۔ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا۔ مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا دیکھو جنید ! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے میں بے انتہائی غریب اور مجبور ہوں۔ اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازے گا۔ لیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندو بست کرنا میرے لیے مشکل ہوجائیگا۔ مقابلہ ہوا اور جنید بغدادی ہار گئے۔ بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اس نے دوبارہ اور پھر سہہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں دفعہ ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی۔ بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور تمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو جائیگا جنید پر تھوکتا ہوا جائیگا۔ جنید بغدادی کی انا خاک میں مل گئی لیکن ان کی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لیے آسمانوں پر سنا دیا گیا۔

 آج قوم مسلم کے پاس اس طرح کی سوچ، فکر،طریقہ عمل کا ایک فیصد حصہ آجائے تو یقیناََ قوم کامیابی حاصل کرسکتی ہے،لیکن ہمارے انانیت و مفادات مادہ اس قدر بھرا ہو اہے کہ ہم کسی بھی حال میں اپنی انانیت کو قربان کرنا نہیں چاہتے،با ت چاہے سیاست کی ہو یا ملی خدمات کی،ہم اپنی انانیت کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ ہمارے کاموں میں کامیابی ملتی ہے نہ ہی ہماری سوچ کی وجہ سے ملت کو فائدہ پہنچتا ہے۔آج جس دورسے ہم گذر رہے ہیں وہ پُر آشوب دور ہے۔ہم مسلسل سیاسی میدان میں ناکام ہوتے جارہے ہیں، ہماری قیادت ناپید ہوتی جارہی ہے،ہماری نمائندگی نہ کہ برابر ہوچکی ہے۔اس کی وجہ صر ف اور صرف انانیت ہے۔ہم اپنوں کو ہی شکست دینے کیلئے کمر بستہ ہوتے ہیں، ہمارے پاس نہ کسی کی بھلائی کرنے کاجذبہ ہے نہ ہی ہم خود کسی کا بھلا چاہ رہے ہیں۔ صرف اپنے اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کونیچا دکھانا،دوسروں کو نقصان پہنچنا ہمارے لئے شان کی بات ہوچکی ہے۔ہمارے درمیان جو قومی وملی ادارے ہیں وہ ادارے بھی انانیت پر قائم ہوتے ہوئے دوسروں کانقصان کررہے ہیں۔ سیاست کے نام پر دوسروں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنوں سے ہی مقابلہ کررہے ہیں۔

 اس مقابلے کی وجہ سے ہماری قوم کو بہت بڑا نقصان اٹھاناپڑرہا ہے،کیونکہ غیر جان چکے ہیں کہ مسلمانوں کونقصان پہنچانے کیلئے ہمیں کسی طرح کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اُن کے درمیان ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو منافقانہ سوچ رکھتے ہیں اور منافقانہ رویہ رکھتے ہیں۔ جب منافق اور مفاد پرست مل جائیں تو تیسرے کی ضرورت نہیں پڑتی۔آج اُمت مسلمہ کو مفاد پرست اداروں، تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی انانیت کو بلائے طاق رکھتے ہوئے قوم وملت کی فلاح وبہبودی چاہیں، اپنے مطلب یا ذاتی دشمنی کونکالنے کیلئے اداروں اور تنظیموں کا استعمال کرنے والوں کی آج قوم کو ضرورت نہیں ہے۔

دراصل یہ انانیت اور مفاد پرستی اُس وقت آتی ہے جب ادارے،تنظیم یا پھر سیاسی جماعت میں کوئی ایک فرد حاکم بن جائے اور وہ اپنے ماتحت رہنے والوں پر ایسا مسلط ہوجائے کہ جیسا کہ وہ بادشاہِ وقت ہو۔ اس کی بہترین مثال ہمیں بی جے پی میں ہی دکھائی دیتی ہے،آج بی جے پی میں صرف ایک آدمی کے احکامات چل رہے ہیں اور باقی سب محکوم ہوتے جارہے ہیں۔ اسی طرح سے ہماری تنظیموں اور اداروں میں بھی ایک شخص مسلط ہوکر نہ صرف پوری تنظیم کو برباد و تباہ کرتا ہے بلکہ ان کی انانیت سے قوم کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ قوم ایسے لوگوں کو درکنار کرے جو اپنی انانیت و مفاد پرستی کی خاطر کام کررہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔