دنیا کی حقیقت

ریاض فردوسی

یہ اونچے اونچے محل کچھ کام کے نہیں ہیں

یہ عالی شان بنگلے کچھ کام کے نہیں ہیں

دوگز زمین کا ٹکرا چھوٹا سا تیرا گھر ہے​

دنیا کے اے مسافر !منزل تیری قبر ہے

طےکر رہا ہے جو تو دو دن کا یہ سفر ہے​

” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا، صاحب قوت اور زبردست ہے۔ “

( الذاریات۔آیت۔58-56 )

اللہ تمہارے ( پچھلے ) گناہ معاف کردے گا اور تم کو مہلت دے گا ایک معین مدت تک۔ بیشک اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت جب آجائے گی تو وہ ٹالے نہیں ٹلے گی۔ کاش کہ تم اس کو سمجھتے!(نوح۔آیت۔4)

ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: "نصیحت کیلیے موت اور توڑنے کیلیے زمانہ کافی ہے، آج گھروں میں تو کل قبروں  میں رہو گے”(ابن عساکر)

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے

ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے

حضرت شداد بن اوسؓ فرماتے ہیں؛سرکار دو عالمﷺ نے فرمایاکہ عقلمند آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور مرنے کے بعد کے لئے عمل کرتاہے جبکہ عاجز اور درماندہ آدمی وہ ہے جو اپنے آپ کو اپنی خواہش کا تابع بنا لے اور پھر اللہ تعالیٰ سے امید باندھے۔ بہر حال دانش مند دور اندیش اور عقلمند وہی ہے جو ہمیشہ دائمی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہے اور اس چند روزہ زندگی میں لڑکر ہمیشہ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچالے۔(او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)

دنیاوی زندگی میں ہر شخص اپنے فائدے کیلیے محنت و مشقت کرتا ہے، اپنے معاملات سنوارنے اور ذرائع معاش کیلیے کوشش کرتا ہے، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین   اور دنیا  دونوں کو سنوارتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے دنیا میں خیر و برکت سے نوازا اور آخرت میں بھی ان کیلیےبھلائی و کامرانی ہے، نیز انہیں آگ کے عذاب سے بھی تحفظ دیا۔موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کرےگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا، اس کے کان چھوٹے ہیں، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں۔ (او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم )

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔ ”دنیا میں اس طرح رہو، جیسے تم ایک (راہ چلتے) مسافر ہو یا کسی منزل کے راہی‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت سمجھو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو‘‘ (بخاری:6414)

زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”دنیا آخرت کی کھیتی ہے(یعنی دنیا میں ایمان وعمل کی جو فصل کاشت کروگے، آخرت میں اسی کا پھل ملے گا)‘‘ (اِحیاء علوم الدین، جلد:4،ص:24،فیض القدیر، جلد:3، ص:392)

 اسلام دنیا سے لاتعلقی یا مردم بیزاری کی تعلیم نہیں دیتا ہے، اسلام تو وہ دین ہے جس نے رہبانیت کی نفی کی اور رسول اللہﷺ نے ایک بھرپور عملی زندگی گزاری، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے خود اپنی سیرت طیبہ سے عملی نمونے فراہم کیے۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ انسان معاشرے میں فعال کردار ادا کرے اور اُس کی ذات سے جن جن کے حقوق وابستہ ہیں، ان سے عہدہ برا ہو۔ حدیث پاک میں ہے:”نبیﷺ نے حضرت سلمان اور حضرت ابوالدرداء کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا، حضرت سلمان، حضرت ابوالدرداء کی ملاقات کے لیے گئے، اُنہوں نے(اُن کی بیوی) حضرت اُم الدرداء کوخستہ حالت میں دیکھا توان سے پوچھا : یہ آپ نے اپنی کیاحالت بنارکھی ہے ؟اُنہوں نے بتایاکہ تمہارے بھائی ابوالدرداء کو دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر حضرت ابوالدرداء آئے توانہوں نے حضرت سلمان کو کھانا پیش کیا،حضرت سلمان نے کہا: آپ بھی کھائیں تو حضرت ابوالدرداء نے کہا: میں روزے سے ہوں، حضرت سلمان نے کہا: میں اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا، جب تک کہ آپ نہیں کھائیں گے، پھر حضرت ابوالدرداء نے کھانا کھایا، پھر جب رات ہوگئی تو حضرت ابوالدرداء نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، حضرت سلمان نے اُن سے کہا: آپ سو جائیں، سو وہ سو گئے، پھر(تھوڑی دیر بعد) وہ نماز کے لیے اٹھے، پھر حضرت سلمان نے کہا: آپ سو جائیں، پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو حضرت سلمان نے کہا: اب آپ اٹھیں، پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھر اُن سے حضرت سلمان نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے اور آپ کے اہلِ خانہ کا آپ پر حق ہے، آپ ہر حق دار کو اُس کا حق دیں، پھر حضرت ابوالدرداء نبیﷺ کے پاس گئے اور (شکایت کے انداز میں) آپ کو یہ قصہ سنایا (کہ میرے بھائی سلمان نے رات مجھے قیام اللیل سے روکے رکھا) تو نبیﷺ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے‘‘، (صحیح بخاری:196)

آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی.(سورہ بنی اسرائیل۔آیت۔19)

حقیقی سعادت مندی یہ ہے کہ انسان کا خاتمہ بالخیر ہو۔۔۔

معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص کی آخری بات "لا الہ الا اللہ” ہوئی تو وہ جنت میں داخل ہوگا) ابو داود اور حاکم نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

 ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﻮ ﺁﺩﮬﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﺑﮭﯽ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﯿﮟ۔ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺷﺮﺍﺋﻂ 3 ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ۔

ﺳﻮﺍﻝ ﻧﻤﺒﺮ :1 ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺳﻮﺍﻝ ﻧﻤﺒﺮ 2 : ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺳﻮﺍﻝ ﻧﻤﺒﺮ 3 : ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﯿﭩﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ؟

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺑﺼﻮﺭﺕ ﺩﯾﮕﺮ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔

ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﺎﻧﮕﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﯿﮑﯿﺎﮞ ﮔﻨﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﯿﮑﯽ ﺑﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻧﮑﻠﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﭼﻞ ﺳﮑﺎ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺭﺍﺕ ﮨﻮﮔﺌﯽ، ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﻈﺮ ﺁﯾﺎ ﺟﻮ ﮐﮭﺮﭘﯽ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮭﻮﺩ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺎ، ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺟﺴﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺩﺋﯿﮯ،

 جواب۔1ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ۔

جواب۔2 ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ۔

ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﺩﻭﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ، ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ۔ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﺲ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﺻﻄﺒﻞ ﮐﺎ ﻧﮕﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﯽ۔

ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺁﺩﮬﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﮐﺴﺎﻥ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﺅﮔﮯ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﭘﻠﭩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺟﺎﺅﮔﮯ۔

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺁﺩﮬﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺎﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﺎ ﭘﯽ ﮐﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺩﮬﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺑﺲ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﻮ ﭘﯽ ﻟﻮﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﺗﻠﻤﻼ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺳﻮﺳﻮﮞ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﻟﯿﺎ۔ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﺎﻧﮕﺎ، ﺗﻮ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ

” ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﯿﭩﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺫﻟﯿﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ” (سندھ اون لائن)

اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں جو ہم نے ( کافر دنیاداروں کے ) بعض طبقات کو ( عارضی ) لطف اندوزی کے لئے دے رکھی ہیں تاکہ ہم ان ( ہی چیزوں ) میں ان کے لئے فتنہ پیدا کر دیں، اور آپ کے رب کی ( اخروی ) عطا بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔(سورہ۔طہ۔آیت۔131)

ملا علی قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں :

"مچھر جیسی بالکل ادنی مخلوق سے تشبیہ دینے سے مراد دنیا کی حقارت ظاہر کرنا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں مچھر جیسی مخلوق کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اللہ کے ہاں اس دنیاوی مال و متاع کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اگر اللہ تعالی کے ہاں اس دنیاوی مال و زر کی ذرا بھی قدر و قیمت ہوتی تو اللہ تعالی کافر کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نصیب نہ ہونے دیتے۔ کافر دنیاوی نعمتوں سےکیوں مالا مالا ہیں کیونکہ اللہ کے ہاں ان چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں کہ اللہ ان کی بنیاد پر اپنے دوستوں دشمنوں میں فرق کریں۔ ہاں جن چیزوں کی اللہ کے ہاں قدر و منزلت ہے ایمان، تقوی، پرہیز گاری وہ صرف اللہ نے اپنے بندوں کے لیے خاص کی ہیں۔

بلکہ صاحب مرقاۃ کا یہ استدلال بھی ہے کہ اولیاء اللہ کو عموما دنیاوی نعمتوں کا وافر مقدار میں میسر نہ ہونا اس بات میں راز یہ ہے کہ چونکہ یہ حقیر چیزیں ہیں اور اللہ اپنے بندوں کے لیے حقیر چیز کو پسند نہیں فرماتے۔ "

علامہ عبد الرؤف المناوی کہتے ہیں ..دنیا کے حقیر اور بے حیثیت ہونے کی یہ بہترین دلیل ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کے دروازے کافروں کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔(التیسیر ج 2 ص 311)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہیں دے سکے گا اور نہ کوئی ایسا فرزند ہوگا جو اپنے والد کی طرف سے کچھ بھی بدلہ دینے والا ہو، بیشک اﷲ کا وعدہ سچا ہے سو دنیا کی زندگی تمہیں ہرگز دھوکہ میں نہ ڈال دے، اور نہ ہی فریب دینے والا ( شیطان ) تمہیں اﷲ کے بارے میں دھوکہ میں ڈال دے۔(سورہ۔لقمان۔آیت۔33) "اے لوگو!” یعنی "مکہ کے لوگوں”، اپنے رب سے ڈر، اوراس دن سے خوف کرو کہ کوئ  قابل قدر، لائق اعتبارنہیں ہے. "نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آئے گا نہ باپ بیٹے کے۔

مولانا مودودی علیہ الرحمہ تفہیم القرآن میں اس آیت کے متعلق یوں ارشاد فرماتے ہیں۔یعنی دوست، لیڈر، پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آرہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی کہ اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہرگز صحیح نہیں ہے۔اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ دنیا کی زندگی سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کرلو، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور معیار زندگی کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔

یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دنیوی زندگی کے دھوکے سے تعبیر فرمایا ہے۔ الغرور ( دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخص خاص یا شئے خاص کا تعین کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔ اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں۔ کسی کو اس کا دھوکے باز یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے روبرو کیا ہوگا اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرا رہا ہے اور اپنے تقوے کا حکم فرما رہا ہے۔ ارشاد ہے اس دن باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے باپ کو کچھ کام نہ آئے گا ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہوسکے گا۔ تم دنیا پر اعتماد کرنے والو آخرت کو فراموش نہ کر جاؤ شیطان کے فریب میں نہ آجاؤ وہ تو صرف پردہ کی آڑ میں شکار کھیلنا جانتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عزیر علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی تکلیف ملاحظہ کی اور غم ورنج بہت بڑھ گیا نیند اچاٹ ہوگئی تو اپنے رب کی طرف جھکے۔ فرماتے ہیں میں نے نہایت تضرع وزاری کی، خوب رویا گڑگڑایا نمازیں پڑھیں روزے رکھے دعائیں مانگیں۔ ایک مرتبہ رو رو کر تضرع کر رہا تھا کہ میرے سامنے ایک فرشتہ آگیا میں نے اس سے پوچھا کیا نیک لوگ بروں کی شفاعت کریں گے؟ یاباپ بیٹوں کے کام آئیں گے ؟ اس نے فرمایا کہ قیامت کا دن جھگڑوں کے فیصلوں کا دن ہے اس دن اللہ خود سامنے ہوگا کوئی بغیر اس کی اجازت کے لب نہ ہلاسکے گا کسی کو دوسرے کے بدلے نہ پکڑا جائے گا نہ باپ بیٹے کے بدلے نہ بیٹا باپ کے بدلے نہ بھائی بھائی کے بدلے نہ غلام آقا کے بدلے نہ کوئی کسی کا غم ورنج کرے گا نہ کسی کی طرف سے کسی کو خیال ہوگا نہ کسی پر رحم کرے گا نہ کسی کو کسی سے شفقت ومحبت ہوگی۔ نہ ایک دوسرے کی طرف پکڑا جائے گا۔ ہر شخص نفسانفسی میں ہوگا ہر ایک اپنی فکر میں ہوگا ہر ایک کو اپنا رونا پڑا ہوگا ہر ایک اپنابوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا کسی اور کا نہیں۔ روز قیامت ہر انسان نفسی نفسی کہتا ہوگا اور باپ بیٹے کے اور بیٹا باپ کے کام نہ آ سکے گا، نہ کافروں کی مسلمان اولاد انھیں فائدہ پہنچا سکے گی نہ مسلمان ماں باپ کافر اولاد کو۔ طوفان کے وقت جہاز کے مسافروں میں سخت افراتفری ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے تاہم ماں باپ اولاد سے اور اولاد ماں باپ سے بالکل غافل نہیں ہو جاتی۔ ایک دوسرے کے بچانے کی تدبیر کرتا ہے بلکہ بسا اوقات والدین کی شفقت چاہتی ہے کہ ہو سکے تو بچہ کی مصیبت اپنے سر لیکر اس کو بچا لیں۔ لیکن ایک ہولناک اور ہوشربا دن آنے والا ہے جب ہر طرف نفسی نفسی ہو گی۔ اولاد اور والدین میں سے کوئی ایثار کر کے دوسرے کی مصیبت اپنے سر لینے کو تیار نہ ہو گا اور تیار بھی ہو تو یہ تجویز چل نہ سکے گی۔ چاہئے کہ آدمی اس دن سے ڈر کر غضب الہٰی سے بچنے کا سامان کرے۔ آج اگر سمندر کے طوفان سے بچ گئے تو کل اس سے کیونکر بچو گے۔حضرت سعید ابن جبیر (رض) غرور کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ کہ انسان گناہ کرتا رہے اور مغفرت کی تمنا بھی ہو۔ ھو ان یعمل بالمغصیۃ ویتمنی المغفرۃ۔

علامہ زبیدی لفظ غرور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: والغرور ایضا وما غزک (من انسان وشیطان وغیرھما قالہ الاصمعی وقال المصنف فی البصائر من مال وجاہ وشھوۃ وشیطان اویخص بالشیطان لانہ یغر الناس بالوعد الکاذب والتمنیۃ وبہ فر قولہ تعالیٰ ولا یغرنکم باللہ الغرور (تاج العروس) ترجمہ: جو چیز تجھے دھوکہ دے اسے غرور کہتے ہیں، چاہے انسان ہو یا شیطان یا کوئی اور یہ اصمعی کا قول ہے۔ مصنف نے بصائر میں لکھا ہے مال، جاہ، شہوت اور شیطان، سب کو غرور کہا جاتا ہے۔ یا اس لفظ سے مراد صرف شیطان ہے کیونکہ وہ جھوٹے وعدوں اور سنہری تمناؤں سے انسان کو دھوکہ دیتا ہے۔ اس آیت میں الغرور کی تفسیر شیطان سے ہی کی گئی ہے۔

علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کسی کے دل میں اس آیت سے یہ شبہ پیدا ہو کہ حدیث شریف میں تو مذکور ہے کہ جس آدمی کے تین کم سن بچے فوت ہو جائیں، تو اسے دوزخ کی آگ نہیں جلائے گی۔ الا تحلۃ القسم مگر صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ دوسری حدیث شریف میں ہے: من ابتلی بشیی من ھذہ البنات فاحسن الیہن کن لہ حجابا من النار۔ جس کو بچیوں کا باپ بننے کے امتحان میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو وہ بچیاں اس کے لیے دوزخ سے حجاب بن جائیں گی۔

احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کمسن بچے اور بچیاں والدین کی نجات کا باعث بنیں گی، لیکن آیت سے اس کے برعکس۔ علامہ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ گناہ تو کیا ہو بیٹے نے اور دھر لیا جائے اس کے باپ کو یا نافرمانی تو کی ہو باپ نے اور اس کی جگہ پکڑ لیا جائے اس کے بیٹے کو۔ بلکہ ہر ایک اپنے اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوگا۔ البتہ شفاعت کا دروازہ کھلا ہوگا اور جس کو اذن شفاعت ملے گا، وہ شفاعت کرے گا اور ان لوگوں میں نابالغ بچے بھی ہیں اور بچیاں بھی۔ علامہ پانی پتی نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے۔ اے لایجزی فیہ والد مومن عن ولدہ الکافر ولا مولود مؤمن عن والدہ الکافر (مظہری) یعنی مومن والد کا فر کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔ اس تفسیر کے بعد کوئی شبہ پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ شفاعت گنہگار اہل ایمان کے لیے ہے کافر کے لیے نہیں۔وہ دن آنے والا ضرور ہے، کیونکہ اس کی نسبت اللہ کا وعدہ ہے۔ ایسا نہ ہوکہ اس دنیا میں منہمک ہوکر اس دن سے غافل رہو۔موجودہ دنیا میں امتحان کی مصلحت سے لوگوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اس امتحانی آزادی کو آدمی حقیقی آزادی سمجھ لیتا ہے۔ یہی سب سے بڑا دھوکا ہے۔ تمام انسانی برائیاں اسی دھوکہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔بارش، پیٹ کا بچہ، معاشی مستقبل، موت، ان چیزوں کے بارے میں کوئی قطعی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ تاہم اس علمی محدودیت کے باوجود انسان ان حقیقتوں کے واقعہ ہونے کو مانتا ہے۔

(تفسیر جلالین ترجمہ۔۔تفسیر ابن کثیر۔تفہیم القرآن۔کنزالایمان- تفسیر عشمانی،تفسیر ضیاء القرآن۔تفسیر بیان القرآن،  تذکیر القرآن،)

تبصرے بند ہیں۔