مسلمانوں کا زرعی نظام

ڈاکڑ غلام قادر لون

زراعت انسان کا بنیادی پیشہ ہے۔ دوسری تمام ضروریات کسی نہ کسی شکل میں اس پیشے سے جڑی ہوئی ہیں۔ روٹی ‘کپڑا اور مکان میں پہلی ضرورت زمین ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ باقی دو ضرورتوں کی فراہمی میں بھی اساسی رول ادا کرتی ہے۔ اس لئے انسان نے ابتداء ہی سے زراعت پر توجہ دی ہے۔ زراعت کے فروغ اور اس کی ترقی کے لئے دنیا کی مختلف قوموں نے تجربے اور علم کی روشنی میں نئے نئے ایجاد کئے ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس معاملے میں دنیا کی رہبری کی ہے۔

  قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں کا زرعی نظام سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ جس کا اعتراف مغرب کے نامور مورخین نے کیا  ہے۔ مسلمانوں نے زرعی نظام کو سائنسی بنیادوں پر مستحکم کیا تھا۔ اور پرانے طور طور طریقوں کو یا تویکسر بدل دیا تھا یا ان میں اصلاح کی تھی۔

 مسلم ماہرین زراعت نے زمین کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا تھا۔ وہ نمی اور حرارت کی بنیاد پر زمین کی زرخیری معلوم کرتے تھے۔ انھوں نے تجربوں اور مشاہدوں سے پتا لگا یا تھا کہ کونسی زمین کس فصل کے لئے موزون ہوتی ٍہے۔ مسلمانوں سے پہلے بعض زمینوں کے بارے میں یہ خیا ل  عام تھا کہ ان سے کوئی فصل نہیں اُگ سکتی۔ مگر مسلم ماہرین زراعت نے مسلسل تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کی ہر قسم کوئی نہ کوئی فصل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے حتیٰ کہ بنجر اور ریگستان بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔

  پرانے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ زمین کی زرخیزی میں فصل اگنے سے کمی ہوتی ہے۔ چناچہ رومی اور بازبطی دو سال میں کھیت سے صرف ایک فصل لیتے تھے  باقی مدت کے لئے زمین کو بیکار چھوڑدیا جاتا تھا۔ مسلم ماہرین نے بعض فصلوں کے بارے میں انکشاف کیا کہ ان کی بئوائی سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ان پھلوں کی بھی تفصیل بیان کی ہے جن کی وجہ سے زمین کمزور ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں نے کھیتوں اور باغوں کی زر خیزی بڑھانے کی غرض سے وسیع پیمانے پر کھاد کا استعمال کیا۔ وہ الگ الگ پودوں اور فصلوں کے لئے کئی طریقوں سے کھاد تیار کرتے تھے۔ بھیڑ اور بکریوں کی منگیاں ‘ گھروں کا گندہ پانی اور کیچڑ ‘کنوئوں اور عمارتوں کا ملبہ کھاد کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اصفہان میں کبوتروں کی بیٹ خربوزے اور ناشپاتی کی کاشت کے لئے اچھی اور کار آمد کھاد تصور کی جاتی تھی۔ کرمان میں پستے کے درختوں کے لئے مچھلیوں کی کھاد استعمال ہوتی تھی۔ امام فخر الدین رازیؒ نے پرندوں کی بیٹ اور سنکھیا کے مرکب کا تذکرہ بطور کھاد کے کیا ہے۔ قرون وسطیٰ میں گجرات کے کسان گنے کی کاشت کے لئے مچھلی کی کھاد استمال کرتے تھے۔ علم الفلاحتہ پر تحریر کی گئی کتابوں میں راکھ اور چونا ملی ہوئی مٹی کی کھادوں کا تذکرہ بھی ہوتا تھا۔ اندلس کے مسلمان کھاد کی مختلف اقسام تیار کرنے میں بہت آگے تھے۔ وہ ناکارہ اناج ‘ گلے سڑے پھل‘ ہڈیاں ‘خون اور راکھ کو کھاد کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان کے یہاں کھاد سنگبس حوضوں میں جمع کی جاتی تھی۔ یہ حوض اس طرح بنائے جاتے تھے کہ نہ تو کھاد کی بوباہر آکر راہ گیروں کی تکلیف یا ہوا میں کثافت کا باعث  بنتی تھی اور نہ ادھر ادھر پھیل کر ضائع ہوسکتی تھی۔ کھاد کی تیاری کے علاوہ اس کے استعمال کے عجیب و غریب طریقے ایجاد کئے گئے تھے۔ زمین کی زرخیری میں اضافہ کی خاطر دل بدل کر فصل بونے کے طریقے سے بھی کام لیا جاتا تھا۔

 قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے آلات کشاورزی اور کلوں کے استعمال میں بھی ترقی پسندی کا شاندار مظاہرہ کیا تھا۔ انھوں نے زراعت کے روایتی طور طریقوں میں تبدیلی لائی اور نئے تجربے کئے۔ زمین کی جوتائی کا کام عام طور پر بیلوں سے لیا جاتا تھا۔ یورپ میں بھی یہی طریقہ رائج تھا۔ مسلمانوں نے اندلس میں گدھوں ‘خچروں اور گھوڑوں سے ہل جوتنے کا طریقہ متعارف کرایا۔ جو بیلوں کے مقابلے میں سب سے تیز رفتار ہوتے ہیں۔ زمیں کی مختلف اقسام اور فصلوں کیلئے کئی ہل استعمال کئے جاتے تھے۔ زمین کی جوتائی ‘بیج کی بوائی ‘فصلوں کی کٹائی دنوائی اور اوسائی کے لئے مسلمانوں نے مختلف قسم کے آلات میں بہتری لائی اور بعض نئے آلات تیار کئے۔ زرعی آلات میں ہل ‘ہینگے ‘چھکیے ‘ہنسیاں درانتیاں ‘پھاوڑے ‘کدال اور بیلچے قابل ذکر ہیں۔ آلات کشاورزی میں سب سے اہم آلہ ہل ہوتا ہے۔ عہد وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے اس کی کئی قسمیں تیار کیں۔ مصر میں گنے کی کاشت کے لئے بھاری ہل استعمال ہو تے تھے اور کاشت سے پہلے زمین چھ بار جوتی جاتی تھی۔ مشہور ماہر زراعت ابن بصال کپاس کا بیج بونے سے پہلے زمین کو دس بار تک جوتنے کے قائل تھے۔ آلات کشاورزی کی تیاری میں جو لوہا استعمال کیا جا تا تھااس کے معیار ی نگرانی کی جاتی تھی۔ یہ بات محسّب کے فرایض میں شامل تھی کہ وہ لوہار وں کی نگرانی کرئے تاکہ وہ آلات کی تیاری میں غیر معیاری اور گھٹیا لوہا استعمال نہ کریں

 قرون وسطیٰ کی مسلم تہذیب میں زراعت کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ اس کے لئے آبپاشی کے نظام پر توجہ دی گئی۔ مسلمانوں کے یہاں نہروں ‘ بندوں ‘ ترنالوں ‘حوضوں اور تالابوں کی تعمیر و مرمت کا کام حکومت کے ذمہ ہوتا تھا۔ پانی کی منصفانہ تقسیم اور بوقت ضرورت کھیتوں کی سیربی کے لئے چھوٹی نہروں اور نالیوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ نہروں پر پھاٹک تعمیر کئے جاتے تھے۔ سرکاری عملے کی نگرانی میں کھیتوں کی آب رسانی کے لئے نظام الاوقات پر عمل کیا جاتا تھا۔ برساتی پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بڑے حوض اور تالاب بنائے جاتے تھے۔ آبپاشی کے نظام میں مسلمانوں کی جدت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نلوں اور پیپوں کے ذریعہ آب رسانی کا طریقہ متعارف کرایا تھا۔ انھوں نے آب رسانی کے لئے قوانین مدون کئے تھے اور اس کی ضابطہ بندی کی تھی۔ مسلمانوں آبپاشی کا مصری نظام اسپین میں رائج کیا جس سے آج تک اسپین والے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اسپین میں رائج زراعت سے متعلق الفاظ زیادہ تر عربی زبان سے ماخوذ ہیں جو اسلام کے اثرات کا بین ثبوت ہیں۔

 قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانون نے زرعی سال کی ترتیب بدل دی۔ عام طور پر فصلیں سردی کے موسم میں اُگائی جاتی تھی۔ گرمیوں میں زمین خالی ہوتی تھی۔ مگر کھانڈ ‘چاول اور کپاس کیلئے گرم آب ہوا کا ہونا ضروری تھا۔ اس لئے مسلمانون نے ایک تو ان فصلوں کیلئے پانی کی فراوانی کو یقینی بنانے کی غرض سے آبپاشی کے نظام پر توجہ دی دووسری طرف نئے زرعی موسم کو رائج کی اجس سے انتہائی گرم علاقوں  کے سوا اکثر علاقوں میں چاول ‘ کپاس ‘گنا گیہوں اور تربوزے خریف فصل کی حیثیت سے کاشت کی جانے لگی۔ زرعی موسم کی تبدیلی سے زمین کا استعمال کثرت سے ہونے لگا۔ مسلمان جونہی زمین سے ایک فصل کاٹ لیتے تھے فوراً دوسری فصل بوتے تھے۔ فصلوں کی گردش سے مسلمانوں نے ایک سال کے اندر دو دو اور تین تین فصلیں لینا شروع کیں جو عہد وسطیٰ میں رومیوں اور بازنطینوں کے مقابلے میں ایک نیا زرعی انقلاب تھا۔ جس سے زمین کی پیداواری صلاحیت  میں چارسے چھ گنا اضافہ ہوگیا۔

 قرون وسطیٰ ے مسلمانوں کے یہاں گیہوں کو اولیت حاصل تھی۔ جسے عام خوراک کے طور پر استمال کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یورپ والے گیہون کی روٹی سے نا آشنا تھے۔ وہاں کے امراء اور روساء بھی رئی کی خوراک کھانے کے عادی تھے۔ مسلمانون کی پیروی میں انھوں نے قرون وسطیٰ کے آخری دور میں گندم کی روٹی کھانی شروع کی۔ دوسری طرف عالم اسلام میں آٹے پیسنے کی صنعت عروج پر تھی۔ آٹے کی کئی قسمیں تیار کی جا تی تھیں۔ قسم قسم کی چکیوں سے آٹا پیسا جا تا تھا۔ بغداد میں ایک چکی کے پاٹوں کے ایک سو جوڑے تھے۔ جو تقریباًً تیس ہزار میڑک ٹن اناج سالانہ پیستی تھی۔  روٹی کی بارہ قسمیں بنائی جاتی تھیں۔ ایک قسم کو ’’کعک‘‘ کہا جاتا تھاجو آج Cake کی شکل میں رائج ہے۔ اور دسترخوان کی زینت بنا ہوا ہے۔ گندم کے بعد چاول کے کاشت پر مسلمانوں نے توجہ دی۔ گیہوں کی مہنگائی کا توڑ کرنے کے لئے چاول کی کاشت کی جا تی تھی۔ گنا ہندوستان کی پیداوار مانا جاتا تھا۔ اور یہاں سے دوسرے ملکوں میں اس کی کاشت رائج ہوئی مگر اسے کھبی اشیاء خوردنی میں اہمیت حاصل نہ ہوسکی۔ قرون وسطیٰ میں مسلمانوں نے گنے کو اہمیت دی اور اسے اشیاء خوردنی اور ادویات میں شامل کردیا۔ گنا اگرچہ کاشت کیا جا تا تھا مگر مسلمانوں سے پہلے اسے کہی غذائی اجناس میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے اس کی کاشت وسیع پیمانے پر کی۔ انھوں نے نہ صرف مصر ‘شام ‘اردن اور شمالی افریقہ میں اسے رواج دیا بلکہ وہ اسے صقلیہ اور اسپین لے گئے۔ مسلمانوں نے شکر سازی کی صنعت رائج کی اور شکر سازی کئے متعد طریقے ایجاد کئے۔ اس باب میں ان کی مہارت کا شہرہ مشرق بعید کے ملکوں تک پہنچا ہوا تھا۔ پورپی سیاح مارکویولو کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ مصر کے ماہر شکر ساز چین بلائے جاتے تھے جہاں وہ چینیوں کو شکر سازی سکھاتے تھے۔ ویسٹ انڈیز میں سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے نیشکر کی کاشت کی تھی۔ یورپ میں لوگ نیشکر سے ناواقف تھے۔ وہ لوگ چینی کا کام شہد سے لیتے تھے۔ مسلمانوں نے اسپین میں نیشکر کی کاشت کی اور شکر سازی کی صنعت رائج کی۔ رابرٹ برلفیاٹ کے بقول مسلمانوں نے نیشکر کو رواج دیا جس سے یورپ والوں کو مٹھائیاں چکھنے اور شربت پینے کا موقعہ ملا۔ عالم اسلام میں شکر سازی کی صنعت اس زمانے میں عروج پر تھی۔ اردن مصر اور شا م میں شکر سازی کی صنعت بے حد ترقی یافتہ تھی۔ ان ملکوں سے چینی دنیا کے دوسرے خطوں کو برآمد کی جاتی تھی۔ مصر اور شام میں شکر سازی کے لئے ہوائی چکیوں کا استعمال عام تھا۔ اردن میں پانی سے چلنے والے چینی بنانے کے بتیس کارخانے تھے۔ مصر کے شہر قسطاط میں چینی کے اٹھا ون کارخانے  کام کرتے تھے۔

  باورچی خانے تمام تہذیبوں میں انسانی خواہشات کا مرکز رہا ہے۔ مسلم تہذیب میں اس کی خاص اہمیت رہی ہے۔ اس موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں انواع و اقسام کے پکوانوں کا ذکر آیا ہے۔ ان پکوانون کی تعداد کے بارے میں یہ کہنا کافی ہوگا کہ ساتویں صدی ہجری کی ایک تحریر میں بغداد کے ایکسو تریپن پکوانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ باورچی خانے کے لذیذ کھانوں میں ایک اہم جزتیل خوردنی رہا ہے۔

تیل خوردنی عہد وسطیٰ میں زیتون ‘ تل ‘بنولہ ‘خشخاش ‘جیسی اجناس سے حاصل کیا جا تا تھا۔ السی اور بید انجیر کا تیل صنعتی مقاصد کے لئے استمال ہوتا تھا۔ بہترین تیل ٍروغن زیتون مانا جا تا تھا۔ قرآن حکیم میں زیتون کی تعریف کی گئی ہے۔ اس بنا پر مسلمانون کے یہاں زیتون کو وقعت کی نگا ہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ نیز زیتون کے درخت کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے اس لئے یہ درخت مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ قرون وسطیٰ میں مسلمانون نے اس درخت کو مختلف خطوں میں متعارف کرایا۔ انھوں نے شام ‘ المعرب‘اور اندلس میں اس کے باغات کثرت سے لگائے۔ ٹیونس زیتون کے باغوں کے لئے مشہور ہوا روغن زیتون نے شام ‘ المعرب ‘ اور اندلس میں اہم صنعت کی شکل اختیار کرلی اور عروج پر پہنچ گئی۔ نابلس روغن زیتون کے لئے مشہور تھا۔ یہاں سے روغن زیتون مصر اور دوسرے خطوں کو برآمد کیا جاتا تھا۔ ٹیونس میں روغن زیتون کے تین سو ساٹھ کارخانے تھے۔ نبا تاتی تیل تل‘بنولہ اور خشخاش سے بھی حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ تیل کھاناپکانے میں استعمال ہوتا تھا۔ السی اور رنیڈی کے تیل میشینوں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ حیوانی چربی اور دودھ سے تیارشدہ گھی بھی خوردنی تیل کے کام آتا تھا۔ عہد وسطیٰ میں مسلمانوں نے تیل نکالنے کے کئی طریقے ایجاد کئے تھے۔ غذائی اجناس کی تجارت دنیائے اسلام کے بڑے شہروں میں زوروں پر تھی صرف قاہرہ میں دس سے بارہ ہزار غذا فروش کھانا بیجتے تھے۔

 قرون وسطیٰ کے دوران مسلمان مختلف قسم کی شربتیں دودھ ‘انگور ‘گاجر اور تربوزے سے تیار کرتے تھے۔ برف سے ٹھنڈا کیا ہوا پانی موسم گرما میں استعمال ہوتا تھا۔ عرق گلاب اور دوسری خوشبووں سے پینے کے لئے پانی تیار کیا جاتا تھا۔ کافی کا استعمال آٹھویں صدی ہجری میں ہوا۔ ۹۵۱/۱۵۵۴ء میں حلب اور دمشق سے آئے ہوئے دو اشخاص نے استنبول میں پہلا کافی ہاوس کھولا۔ ایک سو سال بعد پیرس میں کافی ہاوس کھولے گئے۔

  عطر سازی کی صنعت مسلم تہذیب کی ایجاد ہے۔ دوسری تہذیب میں بحیثیت صنعت اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے پودوں اور پھولوں سے عرق گلاب ‘عطریات ‘اور خوشبودار تیل تیار کرنے پر توجہ دے کر اسے ایک صنعت کی شکل دی۔ سائنس کے مورخین نے اسی بنا پر اسے ایک مسلم صنعت مانا ہے۔ عطر سازی کی صنعت دمشق‘حندی شاپور‘کوفہ اور اسپین میں پھیل گئی۔ ان جگہوں پر عطر سازی اور عرق گلاب کشید کرنے نیز خوشبودار تیل تیار کرنے کے کارخانے موجود تھے۔ عطر سازی کے موضوع پر مسلم مصنفیں نے بھی توجہ دی۔ مشہور فلسفی الکندی نے اپنے ایک رسالے میں عطر تیار کرنے کے ایک سو سات طریقے بیان کئے ہیں۔ عہد وسطیٰ کے سب سے بڑے زرعی سائنسدان ابن العوام الاشیلی نے عطر سازی کے موضوع پر نو عربی کتابوں کے نام لئے ہیں۔

 عرب کھجوروں میں پیوند لگانے سے واقف تھے۔ حدیث میں تابیرنخل کا واقعہ آیا ہے۔ قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے قلمبندی اور پیوند کاری کے ذریعے پھلوں اور پھولوں کی سینکڑوں قسمیں پیدا کی۔ وِل دوران کے بقول مسلم ماہرین نباتات جانتے تھے کہ پیوند کاری کے ذریعے کس طرح نئے میوئے پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے گلاب کی جھاڑی اور بادام کے درخت کو ملایا تاکہ ایک نادر اور خوبصورت پھول پیدا ہو۔ ’’مسلمان پیوند کاری کے آٹھ طریقوں سے واقف تھے۔ انھوں نے پیوند کاری سے زراعتی میدان میں ایک ایسا انقلاب لایا جس کی نظیر دنیا پیش کرنے سے قاصر تھی۔ شام میں انگور کا پود ا کہیں سے چوتھی صدی عیسوی میں لاکر اُگا یا گیا۔ مگر بنو اُمیہ کے دور میں اس کی کاشت پر توجہ دی گئی۔ مقدسی کے بیان کے مطابق دمشق میں انگور کے بیسیوں باغات تھے۔ پیوند کاری سے مسلمانون نے نوین صدی ہجری تک انگوروں کی پچاس قسمیں پیدا کی تھیں۔ اسی زمانے کی ایک تصنیف میں انگور کی مذکورہ اقسام کے علاوہ ناشپاتیوں کی اکیس اور گلاب کی چھ قسموں کا بیان ہے۔ بارھویں صدی ہجری میں عثمانی ترکوں نے ایک پھول گل لالہ کی آٹھ سو انتالیس قسمیں تیار کی تھیں۔ مسلمانوں نے مختلف پودوں مثلاً کھجور اور سن جیسے پودوں میں جنسی فرق کا مشا ہدہ کیا۔ انھوں نے پودوں کی درجہ بندی کی کہ کونسے پودے قلم اے اُگتے ہیں۔ کونسے بیج سے اُگتے ہیں اور کون سے پودے خود رو ہوتے ہیں۔ مسلم سائینسدان تجربے کی روشنی میں بڑی احتیاط کے ساتھ نتائج اخذ کرتے تھے۔ نصیر الدین طوسی کھجور کی باربرداری کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بسا اوقات کھجور کے پچاس مادہپودوں کو بار بردار کروانے کے لئے دو نر پودے کافی ہوتے ہیں۔ البیرونی کے اس انکشاف کا تذکرہ سائنس کے بڑے بڑے مورخین نے کیا ہے کہ پھول کی پتیاں ہمیشہ ۳‘۴‘۵‘۶ یا ۱۸ہوتی ہیں ۷ یا نو کھبی نہیں ہوتیں۔

 مسلمانوں کی زرعی مہارت کا شاندار مظاہرہ مسلم اسپین میں ہوا ہے۔ نباتیات اور زراعت کے معاملے میں مسلم اسپین پورے یورپ ی رہنمائی کررہا تھا۔ اسپین نے ابن عبدالبرابوبکر ابن العرلی‘مفسر قرطبی‘امام ابن حزم ‘ابن حیان ‘ابن رشد‘ابن عربی ‘جابر بن افلح ‘ابوالقاسم الزھراوی‘ابن خلدان جیسے محدث ‘مفسر ‘سیرت نگار ‘عالم‘مفکر ‘صوفی سائینسدان ‘طبیب اور مورخ پیدا کئے ہیں۔ مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قرطبہ ‘طلیطلہ‘اشبیلیہ‘غرناطہ اور المیریہ کے ابن وافد ‘ ابن عبدون ‘ابن العوام جیسے زرعی ماہرین بھی اسپین نے پیدا کئے ہیں۔ قرون اسطیٰ کے سب سے بڑے ماہر نباتا ت ابن البیطاراسپین کے شہر مالقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عہد وسطیٰ کے سب سے بڑے زرعی سائینسدان ابن العوام اشبیلیہ کے رہنے والے تھے۔ مسلمانوں نے اسپین میں زراعت و بے حد ترقی دی۔ فلپ ہٹی کے بقول یہ زراعتی ترقی اسپین کے لئے ایک پائیدار تحفہ تھی۔ اسپین کے مسلمانوں نے شام سے نارنگی اور انار ‘مصر سے نخیل‘عرب سے ریحاں بربر سے املی لاکر ان کی کاشت اسپین میں شروع کی۔ انھوں نے گنے کو متعارف کرایا۔ موسیوسیدیو کے بیان کے مطابق مسلمان اسپین میں الیشیا کلدہ اور شام سے لائے گئے علمی اصولوں پر کاشت کرکے سال میں تین فصلیں کاٹا کرتے تھے اور کپاس ‘شہتوت ‘نیشکر ‘نخل‘پستہ‘کیلا‘کانسائے سرخ و سفید کے پودے اور انواع و اقسام کے پھول اور ترکاریاں بویا کرتے تھے جو یورپ کے تمام بلاد غربی میں پہنچے۔ ڈریپر کے بقول چاول‘نیشکر اور کپاس جیسی اہم اجناس کے علاوہ باغ بغیچوں کے تقریباً تمام پھلوں ‘نیزپالک اور زعفران جیسے کم اہم پودوں کے لئے بھی مغرب مسلمانوں کا احسانمند ہے۔ وِل دوران کے بقول مسلم اسپین نے چاول ‘نیشکر ‘کپاس ‘پالک مارچوبہ‘ ریشم ‘کیلے‘گیلاس ‘سنترے ‘لیموں ‘بہی ‘ترنج‘آڈو‘کھجور‘اسٹابری ‘ادرک اور گوند ایشیا سے لاکر ان کی کاشت عیسائی یورپ کو سکھادی۔ مسلمانوں نے بہترین پھل پیدا کرنے کی طرف توجہ دی ان کی بدولت اہل مغرب توت فرنگی ‘لیموں ‘ بہی‘انجیر‘ پستہ‘بادام ‘زعفران اور دوسری اشیاء سے روشناس ہوئے۔ اسپین میں دریائے ایبرو کی وادی میں پھلوں کے باغات اس کثرت سے لگائے گئے کہ اس کا نام ہی’’ پھلوں کا دریا ‘‘ پڑگیا تھا سر قسطہ‘طلیطلہ‘المیر یہ اور دوسرے شہروں کے گرد میلہا میل تک باغات پھیلے ہوئے تھے۔ اسپین کے بڑے بڑے شہروں کے نزدیک پہنچکر میلوں تک میوہ دار باغات ‘خوشبودار پھلواریاں اور مہکتی ہوائیں سیاحوں کا استقبال کرتی تھیں۔ پورا خطہ چمن زار معلوم ہوتا۔ پھلوں اور پھولوں کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ قرطبہ میں ساڑھے بارہ سیر گلاب دو درہم میں اور مالقہ میں چار سیر انگور ایک درہم میں ملتے تھے۔ قرطبہ ‘ غرناطہ اور بلنیہ پارکوں ‘زیتون اور میوئے کے باغوں سے گلستان عالم بنے ہوئے تھے۔ میورقہ میں کھجور کے باغات تھے بعد میں اس کا نام اسی بنا پر جزئرۃ الخضراء پڑگیا۔ قنطرہ کے خربوزے بہت بڑے ہوتے تھے۔ درو کا میں ڈیڑھ ڈیڑھ سیر ناشپاتی پیدا ہوتی تھی۔ شنتربن میں تیس تیس انچ کے مدور سیب پیدا ہوتے تھے۔ اشبیلیہ سے کپاس ‘ زیتون اور تیل دوسرے ملکوں کو برآمد کیا جاتا تھا۔ مالقہ سے زعفران ‘ انجیر ‘ انگور اور شکر باہر بھیجی جا تی تھی

غذائی اجناس میں گیہوں کو دنیائے اسلام میں نمایا مقام حاصل تھا۔ قرون وسطیٰ کے دوران شام اور مصر میں اس کی اتنی زیادہ پیداوار ہوتی تھی کہ فاضل غلہ گوداموں میں ذخیرہ کیاجاتا تھا۔ جہاں سے یہ دوسرے ملکوں کو برآمد کیا جاتا تھا۔

 اشیاء خوردنی اور پھلوں کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے مسلمانوں کی زراعتی کتابوں میں کئی طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ گیہوں ‘آٹے ‘دال وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسی تدبیر اختیار کی جا تی تھیں جن سے وہ کیڑے مکوڑوں اور گھن سے محفوظ رہتی تھیں۔ زیتون‘کیکڑی‘شلغم اور خشک پنیر کو کھارے پانی اور سرکے میں ڈال کر محفوظ کیا جاتا تھا۔ سرد خانہ یا کولڈ اسٹوریج جسے ہم جدید دور کی چیز خیا ل کرتے ہیں از منہ وسطیٰ میں مسلمانوں کے یہاں عام طور پر معروف تھا۔ تازہ پھل سیب ‘ انگور اور انار ایک موسم سے دوسرے موسم تک باقی رکھنے کے لئے سرد خانوں میں محفوظ کئے جاتے تھے۔ ماورالنہر جیسے دور دراز علاقے تربوزے سیسے کے آئیس بکسوں میں بند ہوکر بغداد آتے تھے۔ انھیں ڈبوں میں ماورالنہر سے برف بھی بغداد اور قاہرہ لائی جاتی تھی۔ جہاں امیر لوگ پورے سال کے استعمال کے لئے محفوظ کرلیتے تھے۔ فاطمی ‘ایوبی اور مملوکی دور میں مصر میں دمشق سے برف منگائی جاتی تھی۔ شاہی محل کے لئے ہر ہفتے دمشق سے پانچ اونٹ برف لے کر آیا کرتے تھے۔

مویشی پروری پر علم الفاحہ کی کتابوں میں جو تفصیلات دی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کسانوں کی ترقی کے لئے کس طرح مختلف ذرائع استعمال کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔ ان کتابوں میں گھریلوجانوروں کی بیماریوں اور ان کے علاج کے طریقے بھی بیان کے گئے ہیں۔ مرغیئاں پالنا مسلمانوں میں آمدنی کا موثر وسیلہ تصور کیا جاتا تھا۔ مصر میں بڑے بڑے پولڑی فارم کھولے گئے تھے۔ جن میں مصنوعی طریقے سے انڈوں سے بچے پیدا کئے جاتے تھے۔ انڈوں سے مشینوں کے ذریعے چوزے نکالنے کا طریقہ مصر کے مسلم ماہروں نے ایجاد کیا تھا۔ یہ مشینیں حد درجہ ترقی یافتہ تھی۔ مصنوعی طریقے سے چوزے نکالنے میں مصری مسلمان ماہر تھے۔ اور ان کی مہارت کا شہرہ یورپ تک پہنچا تھا۔ مصر کے ان ماہرین نے آفتاب کی گرمی سے شتر مرغ کے انڈوں سے بھی بچے نکالنے کا مصنوعی طریقہ دریافت کیا تھا۔ مسلم ماہرین کی بدولت مصر میں پولڑی کی صنعت عروج پر تھی۔ تیر ھیوی صدی عیسوی میں یورپ کے ایک بادشاہ نے انڈوں سے مصنوعی طور پر چوزے نکالنے کے لئے اپنے یہاں مصر سے ماہرین منگائے تھے۔ عہد وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے شہد کی مکھیاں پالنے پر اپنی تصنیفات میں روشنی ڈالی ہے۔ ریشم کے کیڑوں کی پرورش بھی مسلم صنعت کا اہم حصہ رہی ہے۔ عہد وسطیٰ کے دوران دنیائے اسلام میں ریشم کی صنعت پھل پھول رہی تھی۔ مسلمانوں نے اس صنعت کو اسپیین میں بلندی پر پہنچایا۔ مشرق اور مغرب میں جن علاقوں پر مسلمان حکمران تھے ان میں ان گنت کارخانے میں ریشم تیار کرتے تھے۔ تیار شدہ ریشم پر حکمران کا نام ‘ کارخانے کے منتظم کا نام اور تیار ہونے کا سال درج ہوتا تھا۔ مسلم ممالک میں تیار شدہ ریشم یورپ میں گرجا گروں اور گنبدوں پر استمال کیا جاتاتھا۔ یورپ کے متعدد گرجا گروں میں مسلم ممالک کے تیار شدہ ریشمی پردے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن پر عربی میں کلمہ’’ لاالہ الاللہ‘‘لکھا ہوا ہے۔ ریشم کی صنعت مسلم اسپین میں بڑی صنعت تھی۔ جس سے ایک لاکھ تیس ہزار افراد وابستہ تھے۔ مویشی پروری میں مسلمانوں نے بھیڑ بکری ‘گائے ‘بھینس اور باربرداری کے جانور گھوڑے ‘ خچر اور گدھے پالنے پر توجہ دی۔ اونٹ عربوں کا خاص جانور رہا ہے۔ زراعت کے موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں ان گھریلوجانوروں کو پالنے کے طور طریقوں ‘انھیں لگنے والی بیماریوں اور ان کے علاج کی تفصیل دی گئی ہے۔ دمشق کے اموی خلفاء کو شہر سے باہر شکار گاہوں میں شکار کھیلنے کا شوق تھا۔ وہ ایک وسیع خطے کی احاطہ بندی کرتے اور اس میں آہو ‘گورخر ‘خرگوش اور شتر مرغ رکھتے تھے۔ یزید اول نے ایک چیتے کو سدھاکر گھوڑ سواری کی تربیت دی تھی۔ حتیٰ کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر گھوڑ سواری میں یزید کا ساتھ دیتا تھا۔

دمشق میں اموی خلفاء نے باغوں پر بھی توجہ دی۔ انھوں نے دمشق میں ان گنت باغ لگوائے۔ مسلم اسپین کے حکمرانوں نے نباتاتی باغBatanical Gardanلگوانے میں دلچسپی دکھائی۔ ان کی طرف سے مبوثین کی ایک جماعت مقرر تھی جو دنیا کے کونے کونے سے بیچ‘پیڑ پودے اور جڑی بوٹیاں تلاش کرکے اسپین لایا کرتے تھے۔ انھیں یہاں نباتاتی باغوں میں اُگا کر تجربے کئے جاتے تھے۔ تحقیقی نتائج کو تحریری صورتوں میں قلمبند کیا جا تا تھا۔ اسپین کے مشہور ماہر زراعت ابن بصال نے مشرقی ملکوں میں جاکر اپنے تجربات اور مشاہدات جمع کئے تھے۔ نباتاتی باغ لگوانے میں عام طور پر ماہر زراعت کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ طلیطلہ کے المامون نے نباتاتی باغ لگوانے کے لئے ابن وافد جیسے طبیب اور ماہر زراعت کی خدمات حاصل کی تھیں جو زرعی تصنیف ’’المجموع‘‘کے مصنف تھے۔ ابن بصال بھی المامون ہی کے دربار سے وابستہ تھے۔ انھوں نے اپنے سرپرست کے لئے علم الفاحہ کے موضوع پر ایک رسالہ تحریر کیا تھا۔ جس کا خلاصہ انھوں نے بعد میں القصدوالبیان کے نام سے تیار کیا۔ طلیطلہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو ابن بصال اشبیلیہ کے حکمران المعتمد کے دربار میں چلے  گئے۔ جہاں انھوں نے بادشاہ کے لئے نباتاتی باغ لگوایا۔ غرناطہ کے نامور ماہر زراعت محمد بن مالک الطنغزی بھی امیر عبداللہ بن بلگین کی ملازمت سے وابستہ تھے۔ بعد میں انھوں نے غرناطہ کے گورنر شہزادہ تمیم کی ملازمت اختیار کی اور ان کے لئے زہرۃ التبان و نزھۃ الاذھان کے عنوان سے ایک رسالہ تصنیف کیا۔ اسپین کے شہرہ آفاق ماہر نباتات ابن البیطار نے پودوں کی تلاش میں شام کا سفر کیا جہاں ملک الکالم الایوبی  نے انھیں مصر کا ’’رئیس العشابیں واصحاب البسطات ‘‘ مقرر کیا۔

 اسپین کے مسلم ماہرین زراعت نے شہروں کے مضافات میں نباتاتی باغ اور آزمائشی پلاٹ بنائے۔ جہاں وہ پودوں پر تجربے اور پیوند کاری کرکے پھلوں اور پھولوں کی نئی اقسام پیدا رتے تھے۔ تجربوں سے اخذ کئے گئے نتائج تحریری صورت میں قلمبند کئے جاتے تھے۔ زراعت کی ترقی کے لئے اندلس کے بڑے بڑے شہروں میں نباتاتی باغوں ‘آزمائشی پلاٹوں اور زراعتی اداروں میں اخذ شدہ نتائج کسانوں تک پہنچادئے جاتے تھے۔

مسلمانوں نے عہد وسطیٰ کے دوران زرعتی ادب کی خدمت بھی کی ہے۔ ابو حنیفہ الدینوزی نے چھ جلدوں میں نباتیات کی لغت کتاب النبات تیسری صدی ھجری میں تحریر کی۔ اس کی شرح اسپینی عالم ابن اخت نماتم الاندلسی نے ساٹھ جلدوں میں تصنیف کی۔ نباتیات کی بہترین لغت ’’عمدۃالطب فی معرفہ النبات لکل لبیب‘‘ کے نام سے غالباً ابن عبدون کی تصنیف ہے۔ ماہرین زراعت میں ابن وحشہ‘ ابن مماتی‘جمال الدین الوطواط‘ ریاض الدین الغری العامری ‘عبدالغنی نابلسی‘ ابن وافد ابن بصال اور ابن العوام کی تحریروں کو زراعتی ادب میں خاص مقام حاصل رہا ہے۔  ابن العوام کی تصنی ’’کتاب الفلاحہ‘‘ میں ۵۸۵ نباتات کی تفصیل دی گئی ہے۔ اور ول دوران کے الفاظ  میں یہ کتاب پوریے عہد وسطیٰ  میں زرعی سائنس پر سب سے اہم تصنیف تھی۔ مسلم سائنسدانوں نے جب پھلوں اور پھولوں کی نئی قسمیں تیار کیں تو زراعتی ادب کا دامن اسماء و صفات سے مالا مال ہوا۔ بیسویں صدی عیسویں میں مصطفیٰ شہبائی نے زراعتی لغت تیار کی تو اصلاحات کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔

 مسلمانوں نے غذائی اجناس کے ساتھ ساتھ پھول اگانے میں بھی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عثمانی ترکون کو پھول اُگانے سے خاص شغف تھا۔ قصر سلطانی میں باقاعدہ باغبانوں کا عملہ مقررہ ہوتا تھا۔  جس کے سربراہ کو ’’شگوفہ باشی ‘‘کہا جاتا تھا۔ باغبان پھول پیدا کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش کرتے تھے۔ کامیاب کشت کار کو ’’صاحب تخم ‘‘ کا خطاب عطا ہوتا تھا۔ پھولوں کی کشت کاری پر متعد کتابیں تحریر کی گئی ہیں جن میں ’لالہ زار ‘ باغ قدیم‘ تحفہ الاخوان ‘میزان الازھار ‘ کتاب النبات‘شگوفہ نامہ ‘ نتائج الازھار‘‘ وغیرہ معروف ہیں۔ یہی نہیں ترکوں نے اس دور میں مشہور باغبانوں کے سوانحی تذکرے بھی قلمبند کئے جن میں ایک تصنیف ’’تذکرہ شگوفچیاں ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔

مسلمانوں نے نباتیات اور زراعت کے میدانون میں جو کتابیں تحریر کی ہیں انھوں نے یورپ پر دیرپا اثرات مرتب کئے ہیں۔ مسلم سائنسدانوں کی زرعی تحریروں کے ترجمے لاطینی ‘عبرانی ‘قشتالی اور اسپینی زبانوں میں کئے گئے  جن سے اہل یورپ کو ان کتابوں سے واقف ہونے کا موقعہ ملا۔ اسپین کے ایک ماہر زراعت ابن وافد کی کتاب سے استفادہ کیاہے۔ ان کا تعلق زمانہ حال سے ہے۔

 نباتاتی باغ مسلمانوں نے پانچویں صدی ہجری /گیارھویں صدی عیسوی کے دوران لگوائے۔ بعد میں اشبیلیہ میں ان کا رواج ہوا۔ جبکہ مغرب میں سولھویں صدی تک ان کا وجود نہ تھا۔ سولھویں صدی میں مسلمانوں کی تقلید میں نباتاتی باغ اٹلی کے ان شہروں میں منظر عام پر آئے جہاں یونیورسٹیاں قائم کی گئی تھیں۔

 اسپین کے باغوں اور کھتی باڑی کے طور طریقوں میں آج بھی عربوں کے اثرات نمایا ہیں۔ زراعت سے متعلق چیزوں ‘میوئوں اور نباتات کے ان گنت نام عربی زبان سے ماخوذ ہیں جن کی نشاندہی یورپ کے ماہرین نے کی ہے۔ مثلاً

                عربی لفظ۔ الساقیہ۔ سے اسپینی لفظ acquiaماخوذ ہے۔

                عربی لفظ۔ الارز۔  سے اسپینی لفظ arros    ماخوذ ہے۔

                عربی لفظ۔ البرقوق۔ سے اسپینی لفظ albariqucqus سے بنایا گیا جس سے انگریزی کا apricotبنا ہے۔

                عربی لفظ۔ الفرسق۔ سے اسپینی لفظ alberchigoاخذ کیا گیا ہے جس سے لاطینی Peachesبنا ہے۔

                عربی لفظ۔ الرمان۔ سے اسپینی لفظ romaniaبنایا گیا ہے۔

                عربی لفظ۔ قطن۔ سے اسپینی لفظ algadinاور انگریزی لفظ Cottonبنا ہے۔

                عربی لفظ۔ الزعفران۔ سے اسپینی لفظ asafronماخوذ ہے۔

ان کے علاوہ صندل سے sandalآرنج سے orangeلیلاج سے lilacزنجیل سےGingerخولخبان سےCalangoاور تمر ہندی سے Tamarindماخوذ ہیں جو عربی زبان سے انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں در آئے ہیں۔

                                آج کا مسلمان ملی زوال و انحطاط کا رونا رورہا ہے۔ مگر محنت ‘ایمانداری ‘جفاکشی کی جو مثال ہمارے اسلاف نے چھوڑی تھی اسے اس کا علم بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے اسلاف کی عظمت کا نوحہ خواں بنا ہوا ہے۔ مگر خود آگے نہیں بڑھتا۔

 باپ کا علم  نہ بیٹے کو اگر ازبر  ہوا

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہوا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔