مودی کو اُن کے جھوٹ لے ڈوبیں گے
حفیظ نعمانی
کہانی تو وہاں سے شروع ہوتی ہے جب نریندر بھائی مودی وزیراعظم کے اُمیدوار بن کر میدان میں آئے اور بارہ سال پرانی 27 فروری سے 5 مارچ 2002 ء کی ان کی وہ سرگرمیاں جن سے لگے خون کے دھبے ہر طبقہ کے مسلمانوں کو نظر آرہے تھے۔ لیکن بارہ برس بہت ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے دولت جمع کرنے کی کوئی کہانی نہیں تھی اس نیک نامی نے بہت کام کیا۔ سونے پر سہاگہ بابا رام دیو نے رکھ دیا جو اس وقت پورے ملک میں سب کے محترم بنے ہوئے تھے اور ہم خود جب انہیں ٹی وی پر دیکھتے تھے تو بڑے غور سے ان کی بات سنتے تھے۔ وہ جگہ جگہ کہتے پھرے کہ مجھے مودی کی طرف سے اطمینان ہے کہ پیسے کی طرف اس لئے نہیں دیکھیں گے کہ ان کی نہ جورو ہے نہ جاتا وہ کس کے لئے دولت جمع کریں گے؟
2014ء کے الیکشن میں سب سے اہم موضوع کانگریس حکومت کی بدعنوانیاں اور غیرملکوں میں لاکھوں کروڑ کالا دھن تھا جس کا عام آدمی کو کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن بابا رام دیو کے پاس ایک فائل تھی جس کا وزن شاید ایک کلو ہوگا وہ صرف بیرون ملک کالے دھن کے بارے میں بتاتے تھے کہ وہ اتنا ہے کہ اگر سب آجائے تو ملک میں غریب کو ڈھونڈنا پڑے گا کیونکہ روپیہ ڈالر کے برابر ہوجائے گا بابا رام دیو زمین تیار کررہے تھے۔ جب زمین پوری طرح تیار ہوگئی تو منصوبہ کے تحت مودی نے بیج ڈالا اور کہا کہ میری حکومت بن گئی تو سو دن میں میں سارا کالا دھن ان ملکوں سے نکلوالوں گا اور وہ ملک کے عوام میں بانٹ دوں گا۔ جس کے بعد ہر کسی کے حصہ میں پندرہ لاکھ روپئے آئیں گے جو اس کے کھاتے میں جمع کردیئے جائیں گے۔
یہ بات تو ایک سال کے بعد ہی معلوم ہوگئی کہ مودی اور بابا اس ڈرامہ کے کردار تھے اور ڈرامہ ناگ پور میں لکھا گیا تھا لیکن کوئی شک نہیں کہ دونوں نے اپنا اپنا پارٹ انتہائی مہارت کے ساتھ ادا کیا اور کانگریس مکت بھارت کا جو نعرہ دیا تھا وہ عوام نے کرکے دکھا دیا کہ 40 برس حکومت کرنے والی کانگریس 44 پر سمٹ گئی۔ مودی کی حمایت نہیں ہوئی بلکہ سیلاب آیا اور سیلاب میں جو گندگی آتی ہے وہ گندگی بھی آئی اور یہ اسی گندگی کا نتیجہ ہے کہ آج بابا رام دیو کی صورت سے سب نفرت کرتے ہیں کہ ایک سنیاسی کا بھیس بدل کر اتنا بڑا کاروباری بن گیا کہ آج سیکڑوں کروڑ ٹی وی کے اشتہاروں پر خرچ کرتا ہے۔ اور جس پر جی ایس ٹی کا کوئی اثر نہیں ہے کیونکہ وہ مودی کا محسن ہے اور یہ بھی ایک دن سامنے آجائے گا کہ اس کاروبار میں مودی کا کتنا حصہ ہے؟ کرناٹک میں کنڑ زبان میں لکھنے والی مشہور صحافی گوری لنکیش کا اخبار جو ایک لاکھ چھپتا تھا وہ ہمیشہ مودی کو اپنی زبان میں ’’بوسی بسیا‘‘ لکھتی تھیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’جب بھی بولیں گے جھوٹ ہی بولیں گے‘‘ شاید اسی لئے انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
غیرملکوں کے کالے دھن اور ہر ہندوستانی کو پندرہ پندرہ لاکھ کی سوغات ایسا جھوٹ نہیں ہے جسے امت شاہ نے بہار میں انتخابی جملہ کہہ کر کپڑے جھاڑ دیئے۔ انتخابی جملہ والے جھوٹ وہ ہوتے ہیں جو تقریر کے دوران زبان سے نکل جاتے ہیں پندرہ لاکھ والے جھوٹ کے رشتے تو ناگ پور سے جڑے ہوئے ہیں یہ منصوبہ بندی وہاں ہوئی تھی کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے قدم بقدم کون کیا کہے گا اور کب کہے گا؟ جو بات مہینوں کے بعد الیکشن میں نامزدگی کا فارم بھرتے وقت قبول کی گئی کہ مودی کی بیوی ہیں اور وہ شادی شدہ ہیں وہ ناگ پور میں بھی معلوم تھی اور رام دیو بھی جانتے تھے اس کے باوجود وہ مودی کی جورو نہ جاتا جب کہتے تھے تب مودی نے زبان نہیں کھولی کہ جورو ہے۔
جھوٹ اور سچ کے فرق کو بتاتے ہوئے انگریزی مفکر ڈاکٹر جانسن کہتے ہیں کہ سچ بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ یاد نہیں رکھنا پڑتا کہ کب کس سے کیا کہا تھا۔ مشہور دانشور واحقؔ جون پوری کہتے ہیں کہ مجھے یقین کامل ہے کہ جھوٹ کے پرتو ہوتے ہیں پیر نہیں ہوتے۔ کوئی پرندہ اُڑتا رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا اسے زندہ رہنے، آرام کرنے اور پیٹ بھرنے کے لئے کبھی نہ کبھی تو زمین پر اُترنا ہی پڑے گا اور جب پیر نہیں ہوں گے تو زمین پر اُترنا بے سود ہے۔ یہی صورت جھوٹ کی ہے جھوٹ نہ بہت دیر تک اور نہ بہت دور تک اُڑ سکتا ہے اور اس کی اصلیت ایک دن کھل کر رہتی ہے یہ بات بھی صاف کردینا ضروری ہے کہ جھوٹ کی دو قسمیں ہیں ایک مجرمانہ جھوٹ اور دوسرا معصوم جھوٹ۔ مجرمانہ جھوٹ وہ ہے جو اپنے کو فائدہ پہونچانے اور دوسرے کو نقصان پہونچانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ جیسے جعل فریب دھوکہ اور غلط بیانی اور معصوم جھوٹ وہ ہے جو تفریح کے لئے یا ہنسنے ہنسانے کے لئے بول دیا جائے یا دورانِ تقریر انتخابی جملہ منھ سے نکل جائے۔
اب وزیر اعظم کے بیانات کا جائزہ لے لیا جائے پندرہ لاکھ والی کہانی تو گائوں کے بھی ہر بھوکے کو یاد ہوگی اور وہ تقریر جو حلف برداری کے بعد کی تھی اور جس میں کہا تھا کہ صرف ایک سال میں تمام داغی ممبر پارلیمنٹ کے اندر نہیں جیل میں ہوں گے اور پچھلے مہینے ہی سارے ملک میں شور ہورہا تھا کہ سپریم کورٹ بے ایمان ممبروں پر شکنجہ کسنا چاہ رہا تھا لیکن وزیر اعظم اپنی ساری طاقت کے ساتھ سامنے آگئے کہ ان سے کچھ نہ کہا جائے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے ہر تقریر میں کہا تھا کہ مہنگائی ہمارے حلف لیتے ہی ختم ہوجائے گی اور اچھے دن آئیں گے۔ انہوں نے پورا الیکشن بیکار، بے روزگار نوجوانوں کے بل پر لڑایا اور کہا ہر سال دو کروڑ نوکریاں دوں گا۔ اور حالت یہ ہے کہ جو پرائیویٹ کمپنیوں میں معمولی تنخواہ پر نوکر ہیں انہیں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے۔
کتنے شرم کی بات ہے کہ امت شاہ کا بیٹا نہ مرکز میں وزیر ہے نہ گجرات میں اور نہ کوئی سرکاری عہدہ اس کے پاس ہے اس کے بارے میں شہرت ہوئی کہ وہ 50 ہزار سے کوئی کام کررہا تھا اور اسے 16 ہزار گنا نفع ہوا ہے۔ اس پر ہر طرف سے شور ہوا کہ بابا رام دیو کے بعد دوسرا امت شاہ کا بیٹا اب جادو کی چھڑی کہیں سے لے آیا ہے کہ پورے ملک میں ہر کاروباری سر پکڑے بیٹھا ہے ہر کارخانے سے وفادار ملازم بھی ہٹائے جارہے ہیں اور فیکٹریاں بند ہورہی ہیں ایسے میں جے شاہ کے اوپر کیسے چھپر پھٹ گیا؟ حیرت ہے کہ چور کے موسیرے بھائی تو بیٹھے رہ گئے وزیر داخلہ وزیر قانون، وزیر ریل اور اترپردیش کے وزیر سب چیخ پڑے کہ شاہ کا بیٹا بے ایمان نہیں ہے۔ اور جب گجرات میں مودی کی تقریر کے درمیان سے لوگ اٹھ کر جانے لگے اور راہل کی تقریر میں خوشی سے ناچنے لگے تو مودی نے امت شاہ، یوگی اور اسمرتی ایرانی کو امیٹھی بھیجا کہ جاکر آگ لگائو لیکن مودی بھول گئے کہ اچھے دن آتے ہیں تو گجرات بھی امیٹھی بن جاتا ہے ان کے سیکڑوں جھوٹ نے کانگریس کو زندگی دے دی اور راہل کو مقبول لیڈر بنا دیا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔