اُمید میں بہار ہے!

ابراہیم جمال بٹ

 ماں کے لاڈلے بیٹے کو اسکول سے ایک نوٹس ملی جس میں ماں کو اس بات سے مطلع کیا گیا کہ ’’آپ کا بیٹا پڑھائی میں اس قدر سست ہے کہ اس سے دوسرے بچوں کے متاثرین ہونے کا احتمال ہے اس لیے آپ اسے کسی دوسرے کسی اسکول میں داخلہ کرائیں …‘‘ سکول انتظامیہ کی طرف سے بھیجا گیا یہ خط جب ماں نے پڑھا تو کچھ دیر کے لیے وہ پریشان ہو گئیں لیکن جب بچے نے خط کے بارے میں پوچھا تو ماں نے کہا کہ اس میں سکول انتظامیہ کی طرف سے تمہارے بارے میں کہا گیا کہ ’’تمہارا بیٹا بہت ہی ذہین و فطین ہے اور اس کی ذہانت کو چار چاند لگانے کے لیے کسی دوسرے اچھے اسکول کا انتخاب ضروری ہے، لہٰذا آپ اس کا داخلہ کسی اور اسکول میں کرائیں تاکہ یہ بچہ مزید اچھی طرح سے اپنی ذہانت میں اضافہ کر سکے۔ …‘‘ سالہا سال گزرنے کے بعد اس بچے کی ماں آخر کار اس دنیا سے انتقال کر گئیں تاہم ان کا وہ خط جو انہوں نے الماری میں رکھا تھا موجود رہا۔ ایک دن اچانک بیٹا جو اب بہت بڑا ہو چکا تھا الماری سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ ایک چھوٹی سے ڈائیری ملی جو اس کی ماں نے الماری میں رکھی تھی۔

ڈائیری کے اوراق پھیرتے پھیرتے ایک لفافہ بند خط بھی اس میں تھا جسے کھول کر بیٹا دم بخود ہو کر رہ گیا، دراصل یہ وہی خط تھا جو اسکول انتظامیہ نے ماں کے نام لکھا تھا۔ بیٹا اس میں ساری تفصیل پڑھ کر ایک اہم درس سمجھ گیاکہ انسان میں امید اور اس کی حوصلہ افزائی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ناامیدی کافور ہو جاتی ہے اور امید کا پھل نصیب ہو پاتا ہے۔ اسکول انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے اس خط میں لکھا تھا کہ ’’آپ کا بیٹا پڑھائی میں بہت ہی کمزور ہے جس کی وجہ سے ہمارے اسکول کے باقی طلبہ پر برے اثرات پڑنے کا احتمال ہے، لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ اپنے بیٹے کو کسی اور اسکول میں داخلہ کرائیں تاکہ ہمارے اسکول کے طلبہ بھی اچھی طرح سے پڑھائی کر سکیں ۔‘‘

 بیٹے کو اپنی ماں کی وہ باتیں یاد آئیں جو اس وقت اسے الٹا کر کے سنائی گئی تھیں کہ ’’تمہارا بیٹا بہت ہی ذہین وفطین ہے اور اس کی ذہانت کو چار چاند لگانے کے لیے کسی دوسرے اسکول کا انتخاب ضروری ہے، لہٰذا آپ اس کا داخلہ کسی اور اسکول میں کرائیں تاکہ وہ مزید اچھی طرح سے اپنی ذہانت میں اضافہ کر سکے۔ …‘‘کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بیٹا اپنی ماں کی سوچ پر فخر کرنے لگا اور اس کا وہ جھوٹ جو اس نے بیٹے کی ناامیدی کو ختم کرنے کے لیے کہی تھی پر دل ہی دل میں ماں کی عظمت کو سلام کہا۔ ماں کا یہی لاڈلا بیٹا ہے جو آج پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہے، انہوں نے بجلی کے بلب کا تجربہ کیا اور کامیابی نے اس کے قدم چومننے میں کوئی دیر نہیں لگائی، جی ہاں یہ ’’تھامس ایلواایڈسن‘‘ تھے جسے اپنی ماں کے دئے ہوئے حوصلہ نے وہ کام کرایا جس کا بظاہر وہ حقدار نہیں تھا۔

خدا ذوالجلال والاکرام نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘‘ ۔

 ’’ڈرو مت اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

بلکہ کسی دانشور نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ:

 ’’لوگوں میں اُمید پیدا کرو لیکن اس کے لیے اپنے اندر حکمت اور نرمی لانے کی ضرورت ہے۔‘‘

سیرت رسول اللہﷺ میں آیا ہے کہ جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو خود رسول اللہ ﷺ عیادت کے لیے جاتے،نہ صرف مریض کی شفایابی کے لیے دعا کرتے بلکہ اسے تسلی اور اطمینان دیا جاتا کہ ان شاء اللہ جلد صحت یابی نصیب ہو گی۔ …بلکہ سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت میں آتا ہے کہ وہ جب کسی کے چہرے کو دیکھتے اور ظاہر ہوتا کہ وہ بیمار لگ رہا ہے تو اس کی حالت کو دیکھ کر ایسے  بات کرتے کہ جیسے اسے کچھ نہیں ہوا ہو۔ دراصل یہ سب کچھ اطمینانی کیفیت کا پیدا کرنا ہی تھا جو ’’مرنے سے پہلے ہی مارنے کے کام کے بدلے بیمار میں جینے کی ہمت دیتا تھا۔

بہر حال کام کتنا بھی مشکل ہو ، ہر کام کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے بڑوں کا ساتھ، ان کی ہمدردی، ان کی طرف سے حوصلہ افزائی، اور سب سے بڑی چیز توکل علی اللہ ہے۔ یہ ایسے گُر ہیں جن پر کاربند رہ کر انسان مشکل سے مشکل کام کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ ماں باپ، اساتذہ و مربی اور بڑے بزرگوں کی طرف سے اگر بندہ ٔخدا کو ہر محاذ پر کام کرنے کا حوصلہ ملے تو ایک طالب علم، ایک تجارت پیشہ، ایک استاد جو بچوں کو نکھارتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی ہے، وہ شخص جو دعوت دین کے کام میں مزید وسعت لانے کا خوگر ہو ، کو اپنے کام میں حوصلہ نصیب ہو گا جس سے ایک بڑا اور کٹھن کام بھی اسے آسان سا دکھائی دے گا۔

آج اس کی اشد ضرورت ہے، ناامیدی کے پھیلانے سے امید کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، آج ہر کوئی ناامیدی ہی کا پرچار کر رہا ہے۔ ایک استاد اپنے شاگردوں کو یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کر رہا ہے کہ ’’تم سب نہیں پڑھو گے، تم سب کے سب پڑھائی میں کمزور ہو‘‘۔ ماں باپ اپنے بچوں میں مثبت سوچ ، یقین اور حوصلہ دینے کے بجائے ان میں منفی سوچ، غیر یقینیت اور حوصلہ شکنی کا عملی درس دے رہے ہیں ۔ ایک داعیٔ دین یہ کہہ کر عوام کو اپنے سے دور کر دیتا ہے کہ تو بدعتی، تو کافر، تو فاسق وغیرہ ہے۔ ایسی صورت حال میں دنیا میں رہنے والے لوگوں کی سوچ ہی بدل گئی ہے۔ وہ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کے منفی پہلو پر سوچتے ہیں ، اس کا لفظ لفظ اسے دوسروں سے قریب کے بجائے دوری کا سبب بن رہا ہے۔ وہ خود چاہے کچھ بنے یا نہ بنے لیکن دوسروں پر جج بن کر ان کی حوصلہ شکنی میں پیش پیش رہتا ہے۔

اصل میں یہ تربیت جس میں مثبت سوچ، یقین محکم اور حوصلہ افزائی کا فقدان ہے ،کی وجہ سے نئی پود میں مال ومتاع کی کثرت کے باوجود اطمینانی کیفیت نصیب نہیں ہوتی، کی کمی ہے جس کی وجہ سے اطمینان اور حوصلے کی کمی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر کام حکمت، نرم مزاجی سے کرنے اور اپنوں کے ذہن وگمان میں یقینیت کا ماحول پیدا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔