یاد کی چل پڑی ہے سرد ہَوا

افتخار راغبؔ

یاد کی چل پڑی ہے سرد ہَوا

پھر اُبھارے گی کوئی درد ہَوا

جانے کس کے لیے بھٹکتی ہے

شہر در شہر کوچہ گرد ہَوا

وقت کی تیز و تند آندھی میں

ہو گئے کیسے کیسے فرد ہَوا

خوب واقف ہے سب کی  رگ رگ سے

جسم پرور لہو نورد ہَوا

موسمِ ہجر میں تمھاری یاد

گرم رُت میں چلی ہے سرد ہَوا

جب بھی آنکھیں کوئی دکھاتا ہے

ٹوٹ پڑتی ہے لے کے گرد ہَوا

پھر سے نکلیں گی کونپلیں راغبؔ

یونہی کب تک چلے گی زرد ہَوا

تبصرے بند ہیں۔