مچھر اللہ کی قدرت کی نشانی: جدید سائنس کی روشنی میں
وقاص چودھری
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو باربار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ مظاہر فطرت پر غور و فکر کریں اور ان میں اس کی ” نشانیاں ” تلاش کریں۔ دنیا کی تمام جاندار اور بے جان چیزیں اپنے اندر ان نشانیوں کو لئے ہوئے ہیں۔
وہ اس بات کو منعکس کرتی ہیں کہ انہیں "بنایا” گیا ہے۔ وہ اپنے "بنانے والے” یا تخلیق کار کی قوت، علم اور فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یہ انسان کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ وہ اپنی عقل کو کام میں لاتے ہوئے ان نشانیوں کی شناخت کرے اور اللہ کی تعظیم بجا لائے۔
تمام جانداروں میں یہ نشانیاں موجود ہیں لیکن چند ایک خاص طور پر وہ ہیں جن کا ذکر اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔ ان جانداروں میں سے ایک مچھر ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 26 میں مچھر کا ذکر یوں آیا ہے :
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں.
مچھر بے شک ایک معمولی اور غیر اہم سا جاندار ہے، مگر اس پر بھی غور و فکر کیا جانا چاہیے کیونکہ ا س میں بھی اللہ کی نشانیاں ہیں۔
اسی لئے ” اللہ ہر گز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے "۔
مچھروں کی غیر معمولی مہم
مچھروں کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ یہ خون چوستے اور اسی خون پر زندہ رہتے ہیں مگر یہ بالکل سچ نہیں ہے اس لئے کہ تمام مچھر خون نہیں چوستے، صرف مادہ مچھر خون چوستے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مادہ مچھر اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خون نہیں چوستے۔ نر اور مادہ مچھر صرف اس وجہ سے خون چوستے ہیں کیونکہ نر مچھروں کے برعکس انہیں اپنے خون میں موجود لحمیات کے لیے خون چوسنے کی ضرورت پیش آتی ہے جو ان کے انڈوں کی نشوونما میں مددگار ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مادہ مچھروں کو خون چوسنے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے تاکہ وہ اپنی نوع (Species) کو قائم و دائم رکھ سکیں۔
جفتی کے لئے خصوصی عضو گیرے (Pincers)
ایک نر مچھر جو جفتی کے لئے مناسب عمر کو پہنچ چکا ہو، مادہ مچھر کو تلاش کرنے کے لئے اپنا اینٹینا یعنی سماعتی عضو استعمال کرتا ہے۔ نر مچھروں کے انٹینے (Antenna) مادہ مچھروں کے انٹینوں سے مختلف کام کرتے ہیں۔ مادہ مچھروں کی خارج کردہ آوازوں کے لئے نر مچھروں کے انٹینوں کے کناروں پر موجود پر بحد حساس ہوتے ہیں۔
نر مچھر کے جنسی عضو کے بالکل ساتھ کچھ ایسے اضافی حصے ہوتے ہیں جو ہوا میں اڑتے ہوئے مادہ مچھر سے جفتی کے لئے اسے دبوچ لینے میں مدد دیتے ہیں۔ نر مچھر جنڈ بنا کر اڑتے ہیں جو بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جب ایک مادہ مچھر ان میں داخل ہوتا ہے تو نر مچھر اسے اڑتے اڑتے قابو کر لیتا ہے اورا سی دوران عمل جفتی واقع ہوتا ہے۔ جفتی کاوقت بہت مختصر ہوتا ہے اور نر مچھر بہت جلد واپس اپنے جنڈ سے جا ملتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جس میں مادہ مچھر کو اپنے انڈوں کی نشوونما کے لئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔
مچھروں کی نشوونما کا عمل بڑا حیران کن اور قابل تعریف ہوتا ہے۔ مچھر بننے سے قبل ایک ننھے سے لاروے کے مختلف مراحل سے گزرنے کی مختصر کہانی کچھ اس طرح ہے۔۔ !
مادہ مچھر کے انڈے جن کی نشوونما خون پر ہوتی ہے، انہیں مادہ مچھر موسم گرما یا خزاں میں گیلے پتوں پر ڈال دیتی ہے یا خشک تالابوں میں رکھ دیتی ہے۔ اس سے قبل مادہ مچھر اس زمین کا ابتدائی جائزہ بڑی احتیاط سے لیتی ہے جس کے لیے وہ اپنے پیٹ کے نیچے موجود نازک آخذ (Receptors) استعمال کرتی ہے۔
جونہی کوئی مناسب جگہ مل جاتی ہے وہ اپنے انڈے وہاں جمع کرنے شروع کردیتی ہے۔ یہ انڈے جو لمبائی میں ایک ملی میٹر سے کم ہوتے ہیں انہیں اکھٹا قطاروں میں یا ایک ایک کر کے قطار میں رکھ دیا جاتا ہے۔
اکھٹے رکھے ہوئے انڈوں میں بعض اوقات تقریباً تین تین سو انڈے ہوتے ہیں۔ صاف ستھرے طریقے سے رکھے گئے یہ انڈے جلد سیاہ پڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر دو گھنٹوں کے اندر اندر پورے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ سیاہ رنگ انہیں دوسرے کیڑے مکوڑوں اور پرندوں کی نظروں سے بچائے رکھتا ہے۔ ان انڈوں کے علاوہ دوسرے لاروا کےکھال کے رنگ ان کے اردگرد کے ماحول کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں اور یہ ان کی حفاظت کرنے میں مدد دیتا ہے۔
لاروے کے رنگ مختلف پیچیدہ کیمیائی عوامل کے ذریعے تبدیل ہوتے ہیں۔ مچھر کی نشوونما کے مختلف مراحل میں رنگوں میں جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ان سے بلاشبہ نہ انڈے، نہ لاروا، اور نہ ہی مادہ مچھر آگاہ ہوتی ہے۔ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ جاندار اس قسم کا نظام خود بخود وضع کر لیں یا یہ نظام محض حسن اتفاق یا انطباق کا نتیجہ ہو۔ مچھروں کو اس لمحے سے جب یہ پہلی بار نمودار ہوئے ان ہی نظاموں سے سمیت تخلیق کیا گیا ہے۔
انڈے سے باہر آنا
جب انڈے سینے کا زمانہ مکمل ہو جاتا ہے تو لاروا تقریباً ساتھ ساتھ انڈوں سے باہر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ لاروا جسے مسلسل خوراک پہنچتی رہی بڑی تیزی کے ساتھ نشوونما پانےلگتا ہے۔ جلد ہی لاروے کی کھال بہت تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اب وہ انہیں مزید نشوونما پانے سے روک دیتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کھال کے پہلی مرتبہ تبدیل ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اس مرحلے میں سخت اور بھربھری کھال آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے۔ لاروا پوری طرح مکمل ہونے سے قبل اپنی کھال دو مرتبہ تبدیل کرتا ہے۔ وہ طریقہ جس سے لاروا کو خوراک پہنچتی ہے بڑا حیران کن ہے۔
لاروا اپنے دو پنکھ اضافی اعضاء کے ذریعے جو پروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ پانی کے اندر گرداب پیدا کرتا ہے اور یوں بیکٹیریا اور دوسرے خوردنامیوں کو اپنے منہ کی طرف بہا کر لے آتا ہے۔ اس لاروا کا سانس لینے کا طریقہ جو پانی میں الٹا لٹک رہا ہوتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک ہوائی نلکی استعمال کرتا ہے جو اس سانس لینے والی ٹیوب سے ملتی جلتی ہے جسے غوطہ خور استعمال کرتے ہیں۔
ایک لزوجی افراز (Viscous Secretion) جو ان کے جسم میں موجود ہوتی ہے پانی کو ان خالی جگہوں میں رس رس کر جانے سے روکتی ہے جن کے ذریعے لاروا سانس لیتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ چھوٹا سا جاندار بہت سے توازنات کے باہمی تعلق اور باہمی اثر کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ اگر اس کے پاس یہ ہوئی نلکی نہ ہوتی تو یہ زندہ نہ رہ سکتا تھا۔ اگر اس کے اپس لزوجی افراز نہ ہوتی تو اس کی سانس لینے والی نلکی پانی سے بھر جاتی۔
ان دو نظاموں کی تشکیل دو مختلف موقعوں پر اس مرحلےمیں اس جاندار کےلئے موت کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مچھر کے وہ تمام نظام صحیح کام کرتے ہیں جن کے ساتھ اس تخلیق کیا گیا تھا۔
لاروا ایک بار اور بھی کھال تبدیل کرتا ہے۔ آخری بارکھال کی دیگر تبدیلی سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں لاروا اپنے آخری بلوغت کے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے جسے "پیوپائی مرحلہ” کہا جاتا ہے۔ وہ خول جن میں ان کو رکھا جاتا ہے کافی تنگ ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب لاروا کو اس خول سے باہر نکلنا ہے۔ اس خول میں سے ایک اس قدر مختلف جاندار باہر آتا ہے کہ مشکل سے ہی ا س بات کا یقین آتا ہے کہ ایک ہی جاندار کی نشوونما کے یہ دو مراحل ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یہ تبدیلی کا عمل بے حد پیچیدہ اور نازک ہوتا ہے جسے نہ تو یہ لاروا، نہ ہی یہ مادہ مچھر خود بنا سکتی ہے۔
تبدیلی کے اس آخری مرحلے میں اس بات کا خطر ہ ہوتا ہے کہ یہ جاندار دم گھٹنے سے مر نہ جائے اس لئے کہ اس کی سانس لینے کے لئے کھلنے والی جگہیں جو ایک ہوائی نالی کے ذریعے پانی سے اوپر نکلی ہوئی ہوتی ہیں، بند کردی جاتی ہیں۔ تاہم اس مرحلے کے بند سانس لینے کا کام ان سوراخوں سے نہیں لیا جاتا بلکہ ان دو نلکیوں سے سانس لیا جاتا ہے جو اس جاندار کے جسم کے اگلے حصے میں نئی نئی نمودار ہوئی ہوں۔
یہی وجہ ہے یہ نلکیاں کھال کی تبدیلی سے قبل سطح آب سے باہر نکل آتی ہیں۔ ریشمی نسیج میں لپٹا ہوا مچھر اب بلوغت کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اب یہ اپنے تما م اعضاءاور خلوی اعضاء کے ساتھ اڑ سکتا ہے جن میں انٹینا، دھڑ، پاؤں، سینہ، پر، پیٹ اور بڑی آنکھیں شامل ہوتی ہیں۔
پیوپائی والی ریشمی نسیج کو اوپر والے سرے سے پھاڑا جاتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں پانی اس ریشمی نسیج کے اندر نہ چلاجائے۔ تاہم ریشمی نسیج کے اوپر والے حصے کو ایک خاص لزوجی مائع سے ڈھانپ دیا جاتا ہے تاکہ مچھر کے سر کو پانی بچایا جا سکے۔ یہ لمحہ بے حد اہم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ہوا کا ایک جھونکااسے پانی میں گرا کر مار دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ مچھر کو پاؤں کی مدد سے پانی کی سطح کو صرف ہوئے پانی کے اوپر آنا ہوتا ہے۔ تاہم یہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟
اس قسم کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے کے لئے مچھر کو یہ ” صلاحیت و اہلیت ” کس نے بخشی ؟
کیا ایسا ممکن تھا کہ ایک لاروا تین مرتبہ کھال بدل کر مچھر بن جانے کا "فیصلہ” خود کر سکتا تھا؟
ہر گز نہیں۔ یہ بات تو بالکل واضح ہےکہ یہ چھوٹا سا جاندار، جس کی مثال اللہ نے دی ہے، اسے بطور خاص اس طرح تخلیق کیا گیا ہے۔
مچھر باہر کی دنیا کا ادارک کیسے کرتے ہیں ؟
دست قدرت نے مچھروں کو درجہ حرارت جانچنے کے انتہائی حساس اعصاب سے لیس کر رکھا ہے۔ یہ اپنے اردگرد کی مختلف چیزوں کا ادراک مختلف رنگوں سے کرتے ہیں جن کا انحصار ان کی حرارت پر ہوتا ہے۔ چونکہ اس کے ادراک کا انحصار روشنی پر نہیں ہوتا اس لئے مچھر کے لئے یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ ایک تاریک کمرے میں بھی خون کی وریدوں کو تلاش کر لے۔
مچھر کے درجہ حرارت جانچنے کے انتہائی حساس اعصاب 1000/1 سینٹی گریڈ کے فرق کو بھی معلوم کر لیتے ہیں۔ مچھر کی تقریباً 100 آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ مخلوط آنکھیں اس کے سر کی چوٹی پر ہوتی ہیں۔
خون چوسنے کی حیران کن ترکیب
مچھر کی "خون چوسنے ” کی ترکیب کا انحصار ایک ایسے پیچیدہ نظام پر ہے جس میں ناقابل یقین حد تک بہت سے عناصر کام کر رہے ہیں۔
مچھر اپنے شکار پر اترنے کے بعد سب سے پہلے تو اپنے ان ہونٹوں کی مدد سے جگہ تلاش کرتا ہے جو سینگی نالی کی شکل میں جبڑوں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ مچھر کا سرنج کی شکل کا ڈنک جس پر حفاظت کےلئے قدرت نے ایک خاص غلاف چڑھا دیا ہے، خون چوسنے کے عمل کے دوران پیچھے کو ہٹتا ہے جیسا کہ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے مچھر خون چوسنے کے لئے اپنی سینگی نالی کو کھال چھیدنے کے لئے اندر داخل نہیں کرتا۔
اصل کام تو مچھر کا اوپر والا جبڑا کرتا ہے جو چاقو کی طرح تیز ہوتا ہے یا پھر اس جبڑے پر موجود دانت کرتے ہیں جو پیچھے کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مچھر آرے کی مانند اپنے جبڑے کو آگے پیچھے حرکت دیتا ہے اور اوپر والے جبڑوں کی مدد سے کھال کاٹ لیتا ہے۔ جب مچھر کا ڈنک کٹی ہوئی کھال کے ذریعے اندر داخل ہوتا ہے تو یہ خونی وریدوں یا رگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ چھیدنے کا عمل یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ اب یہ مچھر کےلئے خون چوسنے کا وقت ہوتا ہے۔
تاہم جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ان وریدوں یا رگوں کو ذرا سا بھی نقصان پہنچ جائے تو انسانی جسم سے ایک ایساکیمیائی خمیر رسنے لگتا ہے جس سے خون جم کر لوتھڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کے رسنے کی جگہ کو بند کر دیتا ہے۔
یہ کیمیائی خمیر مچھر کے لئے مسئلہ کھڑا کر سکتا ہے کیونکہ جو سوراخ مچھر نے بنایا ہوتا ہے، جسم کو اس کے خلاف ردعمل بھی ظاہر کر نا ہوتا ہے۔ اس ردعمل کے نتیجے میں اس جگہ پر خون فوری طور پر لوتھڑے کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور وہ زخم بھر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مچھر اب خون نہیں چوس سکے گا مگر مچھر کے لئے یہ مسئلہ حل کر دیا جاتا ہے، وہ ا س طرح کہ قبل اس کے کہ مچھر خون چوسنا شروع کرے، یہ اپنے جسم سے رسنے والی ایک خاص مائع کو اس جاندار کے جسم میں ٹیکے کی مانند اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں اس نے ڈنک مار کی جگہ کاٹی تھی۔
یہ مائع اس کیمیائی خمیر کو بے اثر بنا دیتی ہے جس نے خون کو لوتھڑے میں تبدیل کرنا تھا۔
اس طرح مچھر اپنی ضرورت کے مطابق خون چوس لیتا ہے اور خون کے لوتھڑا بننے کا مسئلہ بھی نہیں پیدا ہوتا۔ اس سیال مادے سے جو خون کو لوتھڑا بننے سے روکتا ہے اس مقام پر جہاں مچھر نے کاٹا تھا، خارش اور سوجن ہو جاتی ہے۔
یہ یقیناً ایک غیر معمولی عمل ہے جس سے ذہن میں درج ذیل سوالات ابھرتے ہیں۔ ۔
1۔ مچھر کو یہ کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ انسانی جسم میں ایک ایسا کیمیائی خمیر ہے جس سے خون لوتھڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے ؟
2۔ اس کیمیائی خمیر کے خلاف اپنے جسم میں ایک بے اثر کرنے والی رطوبت پیدا کرنے کے لئے اسے اس کیمیائی خمیر کی کیمیائی ساخت کا علم ہونا ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟
3۔ اگرا سے کسی طرح حاصل بھی کر لیا جائےتو یہ اپنے جسم میں رطوبت کس طرح پیدا کرے گا اور اسے اپنے جبڑوں تک منتقل کرنےکے لئے مطلوبہ ” تکنیکی تنصیب ” کیسے کرے گا ؟
ان تمام سوالات کا جواب بالکل عیاں اور واضح ہے : کہ مچھر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ان میں سے کوئی ایک کام بھی کرسکے۔ اس میں نہ تو مطلوبہ دانائی ہے نہ علم کیمیا، نہ ہی وہ "تجربہ گاہ” جو وہ ماحول مہیا کرتی ہے جس میں رطوبت پیدا کی جاسکے۔ ہم جس مچھر کا ذکر یہاں کر رہے ہیں وہ لمبائی میں چند ملی میٹر ہوتا ہے، ا س میں عقل و دانائی نہیں ہوتی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ” اللہ جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اور ہر شے کا بھی جو ان کے درمیان موجود ہے ” اسی نے مچھر اور انسان کو تخلیق کیا اور مچھر کو ایسی غیر معمولی اور عمدہ خوبیاں عطا کیں۔
تبصرے بند ہیں۔