نشہ خوری کے علاوہ اور بھی مدعے ہیں پنجاب کے
وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ دنوں پنجاب کے بھٹنڈا میں تقریر کر رہے تھے۔ وہاں سے انھوں نے اعلان کیا کہ یہاں کی ندیوں سے ہوکر پاکستان کو جانے والے پانی پر پہلا حق پنجاب کے کسانوں کا ہے، جسے وہ کسی بھی حالت میں برباد نہیں ہونے دیں گے۔ اچھی بات ہے، لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ستلج ندی کے پانی کو لے کر ہریانہ اور پنجاب، دونوں کی ہی حکومتیں باہم دست و گریباں ہیں اور اب سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ اکیلے پنجاب کا اس ندی کے پانی پر حق نہیں ہے، بلکہ ہریانہ کے کسانوں کا بھی اتنا ہی حق ہے۔ اتفاق سے ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور ہریانہ حکومت ایک طویل عرصے سے ستلج ندی کے پانی پر اپنے حق کی لڑائی لڑتی رہی ہے۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے، تو پنجاب کی سیاسی پارٹیاں انتخابات کے موسم میں یہ دھمکی دے رہی ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ستلج کا پانی ہریانہ کو نہیں دیں گی۔ گویا کہ ایک بار پھر ہریانہ اور پنجاب کے کسان پانی کو لے کر آپس میں جنگ پر آمادہ ہیں، جس میں سیاسی پارٹیاں آگ میں گھی کا کام کرنے پر تلی ہیں۔
اس سے پہلے پنجاب میں اگلے اسمبلی انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے دہلی سے نکلی عام آدمی پارٹی نے قدم رکھا تھا، تو اس نے نشہ کے مدعے کو زور شور سے اٹھایا تھا۔ نوجوانوں کو جب روزگار نہیں ملتا، تو اُن میں نشہ خوری جیسی بری لت لگنے لگتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجاب اپنی زرعی پیداوار کی وجہ سے ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں تعاون دینے والی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں اب تک جتنی حکومتیں بنیں، ان کی ترقیاتی اسکیموں اور منصوبوں کا سب سے زیادہ فوکس زراعت پر ہی رہا۔ کسانوں کو مفت میں بجلیاں فراہم کی گئیں، کاشت کاری سے متعلق ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے یہاں کے کسانوں کو سب سے زیادہ سبسڈی دی گئی۔ لیکن نوجوان نسل اب کھیتی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پنجاب کا ہر نوجوان امریکہ جانے کا خواب دیکھتا ہے، بھلے ہی وہاں جاکر انھیں گھروں میں جھاڑو پونچھا ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔ دوسری طرف، وہ نوجوان جو لندن اور کناڈا نہیں جا سکے، ان میں سے زیادہ تر پر گلوکار بننے کا جنون سوار ہوا۔ تقریباً ہر گھر میں ایک سنگر (گانے والا) پیدا ہو گیا۔ پنجابی گانوں کی سی ڈی بناکر بازاروں میں بیچے جانے لگے۔ اور جو لوگ یہ بھی نہ کر سکے، وہ نشہ خوری کے عادی بن گئے۔
ایک اور شعبہ ہے، جس کے لیے پنجاب پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ اور وہ ہے کھیل کا شعبہ۔ کھیل کود سے متعلق پنجاب میں ہزاروں قسم کے سامان بنائے جاتے ہیں۔ چاہے وہ کرکٹ ہو، فٹ بال ہو، والی بال، بیچ بال، باسکیٹ بال، شطرنج، بیڈمنٹن، ٹینس، مکے بازی، جمناسٹک یا ایتھلیٹکس سے متعلق دیگر ساز و سامان، ان کی دکانیں آپ کو جالندھر میں ہر جگہ دکھائی دیں گی۔ لیکن، اب کھیل انڈسٹری پنجاب میں زوال کی شکار ہے اور انتخابی موسم میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے میں یہ کوئی مدعا نہیں ہے۔ جب کہ وہاں پر سب کو یہ معلوم ہے کہ کھیل کی صنعت وہ شعبہ ہے، جس سے پنجاب کے لاکھوں گھر کی روزی روٹی چلتی ہے۔ ملک میں جب سے وَیٹ (ویلیو ایڈیڈ ٹیکس) لگا ہے، تبھی سے پنجاب کی حکومت نے وہاں کے تمام صنعت کاروں کے لیے سی – فارم بھرنا لازمی کر دیا ہے، جس میں ان کے سالانہ کاروبار سے متعلق تمام تفصیلات سرکار کو جمع کرنی ہوتی ہیں اور اسی کے حساب سے اضافی ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ سی – فارم کے نافذ ہونے سے پنجاب میں کھیل کی صنعت سے وابستہ تقریباً 25 فیصد کاروباری یا تو پڑوسی ریاست جموں و کشمیر چلے گئے یا پھر اتر پردیش۔ اب کھیل کے بہت سے سامان جو پہلے صرف پنجاب میں بنائے جاتے تھے، وہ اب جموں اور میرٹھ میں بھی بنائے جانے لگے، اس لیے کہ جموں و کشمیر اور اتر پردیش دونوں ہی ریاستوں میں کھیل سے وابستہ کاروباریوں کو سی – فارم نہیں بھرنا پڑتا۔ اس کے لیے ان دونوں ریاستوں کی حکومتیں ان صنعت کاروں کو دیگر بہت قسم کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں، جو پنجاب حکومت انھیں نہیں دیا کرتی تھی۔
پنجاب کے کھیل صنعت کاروں کے جموں و کشمیر اور اتر پردیش رخ کرنے کے پیچھے دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فٹ بال ہو یا کرکٹ، ان دونوں کھیلوں کے سامان تیار کرنے کے لیے خام مال پنجاب میں نہیں ملتے۔ مثال کے طور پر کرکٹ کا بلہ بنانے کے لیے جو لکڑی استعمال ہوتی ہے، وہ کشمیر سے آتی ہے۔ اسی طرح فٹ بال بنانے میں جس چمڑے کا استعمال کیا جاتا ہے، وہ زیادہ تر اترپردیش سے آتا ہے۔ اور آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ پنجاب میں ایک دن میں تقریباً دو لاکھ فٹ بال تیار کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے ۶۰ ہزار لوگ براہِ راست اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر فٹ بال بنانے کے کاموں میں مصروف ہیں، جس سے ان کا گھر بار چل رہا ہے۔ ظاہر ہے، اب اسے بنانے کا خام مال پنجاب میں نہ ملنے سے جو کاروباری دوسری ریاستوں میں جا رہے ہیں، اس سے پنجاب میں بے روزگاری کا مسئلہ بھی تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ اسی طرح، ہاکی اِسٹک بنانے میں عام طور پر شہتوت کی لکڑی کا استعمال ہوتا ہے، شطرنج اور کیرم بورڈ بنانے میں آم کی لکڑی کا استعمال ہوتا ہے اور اسی لیے پنجاب کے صنعت کار لمبے عرصے سے ریاستی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ سارے درخت بڑے پیمانے پر پنجاب میں لگوائے جائیں، تاکہ انھیں کھیلوں کے سامان بنانے کا خام مال آسانی سے اور کم قیمت پر ریاست میں ہی مل جائے۔ لیکن، پنجاب حکومت نے اب تک ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کیا ہے۔
پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں سلائی کی مشینیں بنائی جاتی ہیں، لدھیانہ اور امرتسر کپڑے بنانے کی صنعت کے لیے ملک و بیرونِ ملک میں مشہور ہے ہی۔ اس کے علاوہ مالیر کوٹلہ میں فوجیوں کے کندھوں اور سر کی ٹوپیوں پر سجنے والے بیجز (Badges) بھی بڑے پیمانے پر تیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح پیروں میں پہنی جانے والی چمڑے کی جوتیاں (جنہیں پنجابی میں ’موجڑی‘ کہتے ہیں) بڑے پیمانے پر بنائی جاتی ہیں اور پھر انھیں ملک و بیرونِ ملک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن، ابھی جہاں نوٹ بندی کے فیصلہ سے پنجاب کی ان تمام صنعتوں سے وابستہ چھوٹے چھوٹے مزدور پریشان ہیں، وہیں چند دنوں قبل ’گﺅ رکشا‘ کی مہم نے کئی صنعتوں کو بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بازاروں میں کم قیمت پر دستیاب چینی مال بھی ان صنعت کاروں کو اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سائیکل بنانے کی صنعت بھی اسی وجہ سے زوال پذیر ہے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود غیر قانونی طریقے سے ملک کے اندر پہنچنے والے چین کے بنے ہوئے سامان ہندوستانی صنعت کاروں کو لگاتار پریشان کر رہے ہیں اور انھیں بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مودی حکومت نے ابھی تک اس جانب کوئی دھیان نہیں دیا ہے، بلکہ اُلٹے اب یہ خبر آ رہی ہے کہ پانچ سو اور دو ہزار کے نئے نوٹوں کو متعارف کرانے کے بعد بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کے نئے پرزے چین سے ہی منگائے جا رہے ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔