جشن سال نو اور اسلامی تعلیمات

اسلام ، وہ بے بہا نعمت ہے جن کے ذریعے انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے اور گم راہی کے اندھیروں سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آتا ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے ’’ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو اہل ایمان ہیں، اُن کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست، شیاطین ہیں جو ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ سب لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (البقرۃ: 275)

اور ایمان ، وہ قیمتی جوہرہے ؛ جو ایک مومن کو بلند مقام پر پہنچا کر اسے دوسری مخلوق پر اِمتیازی حیثیت عطا کرتی ہے ۔ ارشادِ باری ہے ’’ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے تو یہ لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔‘‘ (البینۃ7:)
کلمہ توحید، ایک مضبوط جڑ کی مانند ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو اللہ تعالیٰ کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال بیان فرما رہے ہیں کہ کلمہ طیبہ کو یوں سمجھو ! جس طرح ایک شجرہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت ہوا کرتا ہے ؛جس کی جڑیں زمین میں بہت گہری ہیںاور اس کی شاخیں(ٹہنیاں)آسمان تک پہونچتی ہیں ۔‘‘(ابراہیم :24)
ایک تمثیل :
جس طرح ایک درخت کی نشوونما کا دارومدار اس کی جڑ پر ہوتا ہے ، اور جڑ ہی درخت کی زندگی اور تروتازگی کا ذریعہ شمار کی جاتی ہے ، اگر جڑ میں نقص واقع ہو جائے تو درخت مرجھانا شروع ہو جائے گا پھر رفتہ رفتہ اس کے پتے ، ٹہنیاں، پھل، پھول جس حالت میں ہوں گے بوسیدہ ہو کر زمین پر گر پڑیں گے ۔ اگر جڑ مضبوط ہو تو پودا توانا اور پھل دار ہو گا، اس سے خوراک حاصل کرنا دوسروں کے لئے حیات بخشی کا سامان بنے گا۔ بات ساری تاثیر کی ہے ، جس طرح درخت میں ساری تاثیر جڑ اور تنے کی ہوتی ہے ، تاثیر اچھی ہو گی تو درخت پھل پھول بھی اچھے دے گا اور اگر تاثیر میں نقص واقع ہو جائے تو درخت خشک ہو جائے گا یہاں تک کہ لوگ اس کو کاٹ کر ختم کر دیں گے ۔ اسی طرح عقیدہ اورایمان بھی قوموں کے ثقافتی، تہذیبی، مذہبی اور معاشرتی بقا ء اور سلامتی کی علامت ہوتا ہے ۔

خاموش ارتداد کافتنہ:
اسلامیان عالم کی قوت اور شوکت کا راز اسلام اور مسلم دشمنوں کو اچھی طرح معلوم ہے ، اسی لیے آج جتنی زیادہ محنتیں مسلمانوں کے ایمان و یقین کو خراب کرنے ، نت نئے ہتھکنڈوں کے ذریعہ ان کے ملی تشخص کو مسخ کرنے نیزمال ودولت اور عزت و شہرت کا جھانسا دے کرانہیں الحاد و ارتداد کی گھاٹ اتارنے کی ہورہی ہیں اور جس اعلی پیمانے پر ہورہی ہیں، ماضی میں اس کی نظیر ملنی نایاب نہ سہی کم یاب ضرور ہے ؛کیونکہ اغیار و کفار کو معلوم ہے کہ قرنِ اول ہو یا بعدکا کوئی زمانہ، ہر دَور میں مسلمانوں نے ایمان ہی کی بہ دولت بڑے بڑے معرکے سر کیے اور دشمنوں کی تمام تر منصوبے اور حربے آن ِواحد میںدھرے کے دھرے رہ گئے ۔ اس لیے اس وقت بہت ہی ہنر مندی،زیر کی اور عیاّری کے ساتھ تمام وسائل ،مسلمانوں کے عقائد اور یقین کو خراب کرنے اور انھیں ان کی اصل یعنی اللہ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، قرآن، حدیث، سنت، اجماعِ امت سے بد ظن کرنے یا بے راہ کرنے میں صرف کیے جارہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک طرف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب مختلف ایسے حلقوں کو نمایاں کیا جارہا ہے جو سراسر اسلام کے بنیادی عقائد پرتیشہ زنی کرتے ہیں۔ نئی نسل خاص طور پر ان کا ہدف ہے ۔
سرِ دست میراروئے سخن وہ مسلمان ہیں جویاتو جہالت و ناخواندگی کی وجہ سے یااپنے سیا سی مفاد اورجھوٹی شہرت کی خاطریہودونصاری کے تہواروں میں نہ صرف بے دریغ شرکت کررہے ہیں ؛بل کہ ان کے مذہبی رسومات میں حصہ لے کر اپنی متاع دین وایمان کاکھلم کھلا سودا بھی کررہے ہیں۔ملک و بیرون ملک سے اس قسم کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں ؛جس سے ہر دردمند دل اور فکر مندشخص بے چین و بے قرار ہے اور کیوں نہ ہو ؟؟
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
انگریزی سال کے مطابق پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر یعنی 31دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب فحاشی اور عریانی کی تمام حدوں سے گزرجانے،بے دریغ مال و اوقات کا ضیاع کرنے نیز مذہبی و اخلاقی پابندیوں کو پاؤں تَلے روند ڈالنے ،بلکہ حیوانیت کا گندامظاہرہ کرنے کوفی زمانہ نیو ایئر سیلی بریشن(New Year Celebration) سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جس میں متعدد گناہوں کے ساتھ کفار کی تقلید اور نعمتِ خداوندی کی ناقدری جیسےبیشتر امور بھی شامل ہیں۔ دنیا میں یوں تو مختلف کیلنڈر رائج ہیں، لیکن ہمارے یہاں انگریزی عموماً اور اسلامی کیلنڈر براے نام استعمال کیا جاتا ہے ۔

جشن سال نو :آغاز و ارتقاء
نئے عیسوی سال کا جشن پہلی بار1 جنوری 1600 عیسوی کو، اسکاٹ لینڈ میں منایا گیا، اس لیے کہ عیسائی اسی سے نئے سال کی ابتدا مانتے ہیں، جب کہ یہ تاریخِ میلادِ مسیح سے مختلف ہے ‘ یعنی میلادِ مسیح 25دسمبر اور نئے سال کا آغاز اس کے ایک ہفتے بعد31دسمبر۔ عصرِ حاضر میں نئے سال کا جشن ایک اہم تقریب کے طور پر اور عیسائی وغیر عیسائی ممالک میں جدید مغربی تہذیب کے مطابق 31دسمبر کو یہ جشن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رات کے 12 بجے منعقد کیا جانے لگا، جس میں مسلمان بھی دھڑلّے سے شریک ہوتے اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور نبوی تعلیمات وتعلیمات کے چیتھڑے اڑاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
‘‘جو اسلام، اسلامی سال کی آمد پر بھی آپس میں مبارک بادی وغیرہ کی تاکید نہیں کرتاکہ کہیں اس طرح کی مبارک بادی آہستہ آہستہ مستقل بدعت کی شکل اختیار نہ کرجائے ،وہ غیر اسلامی سال پر جشن منانے اور مبارک باد ی دینےکی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟؟۔
ہجرت کے بعد رسول اللہﷺ دس سال مدینہ منورہ میں رہے اور آپﷺ کے بعد تیس سال خلافت ِ راشدہ کا عہد رہا،صحابہ کرامؓ کی نگاہ میں اس واقعے کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واساس بنایا گیااور حضرتِ عمر ؓکے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا تھا،لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یومِ ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی،اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم ورواج کا قائل نہیں ہے ،کیوں کہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں،پھر وہ دھیرے دھیرے دین کاجزو بن جاتی ہیں،اس لیے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے۔’’ (ملخص از کتاب الفتاوی)
اسلام میں نئے سال کی ابتداء پر یوں مادر پدر آزاد ہوجانے کی کوئی اجازت نہیں اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم پر مغربی ثقافت کا ایسا رنگ چھایا ہم بھول ہی گئے کہ اسلامی سال کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوتی ہے اور اختتام ذوالحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے- ہمارے کیلنڈروں پر انگریزی تاریخ ہی درج ہوتی ہے، دفاتر میں انگریزی تاریخ والا کیلنڈر، ملازمین کی تنخواہیں اسی کیلنڈر کے مطابق، چھٹیاں بھی ان ہی تاریخوں کے حساب سے، گویا کہ اسلامی مہینوں کی تاریخيں محض رمضان المبارک اور عیدین کے ساتھ ہی معلق ہوکر رہ گئي ۔ جبکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد چاند کے گھٹنے اور بڑھنے تر ہے جس کا ادراک ایک عام ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے پھر دوسری طرف اسلامی مہینوں کے نام شریعت نے وضع کئے اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کو ان کی بنیاد قرار دیا گویا کہ اسلامی سال اور مہینوں کا نظام ایک باقاعدہ ترتیب شدہ اوراعلی و معیاری ہے اور ہم ہوش مند مسلمانوں نے معیاری چيز کو چھوڑ کر غیر معیاری اور گھٹیا چيز کو سینے سے لگالیا – عیسائی ثقافت کو اسلامی ثقافت پر ترجیح دی اور پھر ان کی نقالی نے ہم سے غیرت و حیا بھی چھین لی کہ ہم ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان ہی کے انداز میں ہیپی نیو ایئر کے نعرے لگانے، بدن سے کپڑے نوچ پھینکنے اور طرح طرح کی خرافات انجام دینے میں فخر محسوس کرنے لگے-
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے میں
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

درد مندانہ گزارش :
اس لئے بڑے ہی عجز ونیازکے ساتھ ملت اسلامیہ کے امینوں و پاسبانوں اورعقائد و اعمال کے محافظوں اور نگہبانوں سے گزارش ہے کہ خدارا ان نوجوانوں کی حالت زار پر رحم کیجئے ،انہیں ان کے متاع گمشدہ سے روشناس کرائیے !!انہیں ان کے اسلاف کی زندگیوں سے واقف کرائیے !!،حضرت خباب و بلال کے عزم و حوصلوں کو بیان فرمائیے !!،تاریخ و سیرت،مدنیت و سیاست،قانون و قیادت کے روشن ترین اسلامی ابواب ان کی گھٹی میں پیوست کردیجئے !!
زعماء و قائدین سے ملاقات فرمائیے !مل کر باہمی گفت و شنید کے ذریعہ انہیں اس ایمان سوز عمل سے باز رہنے کی تاکید فرمائیے اور ان کے قلوب میں یہ عقیدہ راسخ فرمائیے کہ

کون کہتا ہے کہ سامان سے وابستہ ہے ؟
تیری عزت تیرے ایمان سے وابستہ ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔