سکھ مت پر اسلام کے اثرات

اسلام کی طرح سکھ مت بھی خدائے واحد پر یقین رکھتا ہے اور ذات باری کو ان تمام صفات سے متصف قرار دیتا ہے جن سے اسلام اسے متصف مانتا ہے۔ ڈاکٹر گوپال چندر سنگھ گروگرنتھ صاحب کے ترجمہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’وہ ازلی خالق اور محیط ہے، حسد و نفرت سے دور اور علت العلل ہے، جملہ مخلوقات کا معبود، عادل، رحیم اور کریم ہے، اس نے انسانوں کو ان کے گناہوں پر سزا دینے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے‘‘۔ اسلام نے بھی خدا کو ان جملہ صفات سے متصف قرار دیا ہے۔
سکھ مت میں نجات کا دارو مدار بندگی رب اور اس کے طریقہ کی پیروی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرو‘‘ (بنی اسرائیل:32)۔ سورۃ الذاریات میں ہے: ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا فرمایا ہے‘‘۔ سورۃ الاعراف میں شریعت خداوندی کی پیروی کا حکم یوں دیا گیا ہے: ’’اپنے رب کی جانب سے نازل کی گئی شریعت کی پیروی کرو‘‘۔ سورۃ الزمر میں ہے: اس بہتر شریعت کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے‘‘ (الزمر:55)۔
سکھ مت رہبانیت کو حرام قرار دیتا ہے اور لوگوں کو حلال رزق کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے، مشہور حدیث ہے: لا رہبانیۃ فی الاسلام ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے‘‘۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اے لوگو؛ جو ایمان لائے ہو ان پاکیزہ اموال میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائے ہیں اور ان غلات میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے‘‘ (البقرہ:267)۔ ’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو تم لوگ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا رزق تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ‘‘ (الجمعہ:9)۔
متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو رزق کے حصول پر اکسایا ہے اور انھیں بھیک مانگنے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے: ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : خدا کی قسم؛ تم میں سے کسی کا رسّی لے کر نکلنا اور پھر اس کے ذریعہ ایندھنوں کو اپنی پشت پر لاد کر لے آنا تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے کھانے کا انتظام کرے اور راہ خدا میں صدقہ خیرات کرے زیادہ بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی مال دار شخص کے پاس آکر سوال کرے پس وہ اسے دے یا انکار کر دے، کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘(متفق علیہ)۔
اسلام کی طرح سکھ مت بھی مرد و عورت میں تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک دونوں نجات پاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا ہے اور پھر تمہیں مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، یقیناًخدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو‘‘ (الحجرات:13)۔
سکھ مت کے نزدیک کوئی زبان مقدس نہیں ہے، اللہ ہی سے لیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں اپنا پیغام دے تاکہ وہ لوگوں کے سامنے حق کی وضاحت کرسکے‘‘ (ابراہیم:4)۔
سکھ مت رسالت و نبوت کا قائل اور عقیدۂ اوتار کا مخلف ہے۔ آغاز میں سکھ مت کا یہی عقیدہ تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنے گروؤں کو پوجنے لگے اور انھیں ہی خدا سمجھ بیٹھے اور ان کی گفتگو کو مقدس نیز مراقبہ میں ان کی یاد کو افضل عبادت سمجھنے لگے۔
اسلام کی طرح سکھ مت بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ خدا کا دین جملہ اقوام کیلئے ہے، کسی گروہ کو خدا کے یہاں مخصوص مقام حاصل نہیں اور نہ ہی مذہبی رسوم کی ادائیگی کسی طبقہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کو پیدا فرمایا ہے شاید کہ تمہارے اندر خدا ترسی پیدا ہو‘‘ (البقرہ:21)۔
دونوں مذاہب میں مذہبی کتابوں کی تقدیس و احترام کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کو وہی شخص اس کے مخصوص مقام سے نکال کر پڑھنے کیلئے لاسکتا ہے جس نے کچھ ہی دیر پہلے غسل کیا ہو نیز اس کی قرأت کے دوران مکمل خاموشی اور سنجیدگی بنائے رکھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’قرآن مجید کی آیات معزز اوراق میں درج ہیں۔ یہ اوراق انتہائی پاکیزہ اور بلندیوں پر رکھے ہوئے ہیں، ایسے معزز کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو انتہائی نیک ہیں‘‘ (عبس: 15-13)۔
دونوں مذاہب میں عشر کا نظام پایا جاتا ہے۔
دونوں مذاہب میں مرکزی عبادت گاہ کا تصور موجود ہے۔ سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ ہری مندر ہے جس کی زیارت اوراس کے پاس واقع امرتسر کے تالاب میں غسل کرنے سے جملہ گناہ مٹ جاتے ہیں۔ متعدد حدیثوں میں حج مقبول کا ثواب جملہ گناہوں سے انسان کا پاک ہونا بتایا گیا ہے۔
سکھ مت اور اسلام میں وجوہِ اختلاف: اسلام کے نزدیک مقصد زندگی رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ قرآن کریم کی سورہ اللیل کی آیت 19، 20میں ہے: یعنی مومن اپنے اوپر کسی کے احسان کا بدلہ چکانے کیلئے نہیں بلکہ صرف اپنے بلند و برتر رب کی رضا کے حصول کیلئے خرچ کرتا ہے۔ سکھ مت میں مقصد زندگی ’’نروان‘‘ (یعنی روح انسانی کا جسم سے نکل کر برہما کی ذات میں جا ملنا) ہے۔
سکھ مت عقیدۂ حلول و اتحاد کا قائل ہے اور اسلام اس کا سخت مخالف ہے۔
اسلام خدا کو صرف انہی ناموں سے موسوم کرتا ہے جو عمدہ اور بہتر ہیں جبکہ سکھ مت اسے ہندو دیوی دیوتاؤں کے ناموں سے بھی یاد کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے : وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا ’’اور اللہ کے بہترین نام ہیں لہٰذا انہی ناموں سے اسے پکارو‘‘۔ گرو گرنتھ صاحب میں ہے: ’’وہی وشنو ہے اور وہی شیو، وہی برہما ہے اور وہی پاروتی اور وہی لکشمی‘‘۔
سکھ مت میں حمد الٰہی موسیقی کے بغیر ممکن نہیں جبکہ اسلام میں گانا اور موسیقی حرام ہے۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخری زمانے میں بڑے علاقے دھنس جائیں گے اور لوگوں کی صورتیں اور شکلیں مسخ کر دی جائیں گی‘‘۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کب ہوگا؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب ناچ گانے کے آلات اور گانے والیاں ہوجائیں گی‘‘ (سنن ابن ماجہ۔ 1350/2)۔ اس کی مسند کو امام البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر 216/3، حدیث رقم: 3559)۔
اسلام میں ذبیحہ مشروع اور سکھ مت میں ممنوع ہے۔
اسلام میں ختنہ کرنا شروع اور سکھ مت میں محظور ہے۔
بغل اور ناف کے بالوں کی صفائی اسلام میں مسنون ہے۔ مشہور حدیث ہے: ’’دس چیزیں سنن فطرت میں سے ہیں، پھر آپ نے ان میں بغل کے بالوں اور ناف کے نیچے کے بالوں کی صفائی کا تذکرہ فرمایا‘‘ (مسلم)۔
سکھ مت میں جسم کے کسی بھی مقام کے بالوں کا نہ کاٹنا مستحب ہے۔ وہ صرف صابن سے صفائی کے قائل ہیں جبکہ اسلام میں مخصوص بالوں کا کاٹنا ضروری ہے۔
کڑا، کنگھا اور کچھا کا استعمال سکھ میں مت میں لازمی ہے جبکہ اسلام میں اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔