پھرنئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ

ماہ وسال حادثات ، سانحات اورانقلابات سے بے پروااپناسفرپوراکرتے رہتے ہیں ، آج کے تیزرفتار عہدمیں توایسالگتاہے کہ دن، گھنٹوں ، مہینوں اور سالوں کوبھی جیسے پرلگ گئے ہیں ، کب آغازہوااورکب انجام پذیرہوگیا، پتاہی نہیں لگتا(فرمانِ نبویﷺکے مطابق جب سال مہینے کی مانند، مہینہ ہفتے کی رفتارسے، ہفتہ گھنٹے کی سرعت سے اورگھنٹہ آگ کی لپٹ جتنی دیرمیں ختم ہونے لگے، تویہ دنیاکی عمرکے قریب بہ اختتام ہونے کی بھی علامت ہے۔ سنن ترمذی، کتاب الزہد، باب ماجاء في تقارب الزمان وقصرالأمل، ح:2332)، ابھی ہم نے2015کوخیر بادکہاتھااوراب 2016بھی رختِ سفرباندھ کر ہماری زندگی کے کلینڈرسے ہمیشہ کے لیے روانہ ہوچکاہے۔ دنوں کایہ پھیر، شب و روزکی یہ آواجاہی، گھنٹوں ، منٹوں اور سکنڈوں کا گزرنا اپنے دامن میں ہزاررنگ لے کر آتاہے، خوشی کے رنگ بھی، غموں کے رنگ بھی، حیرت و استعجاب کے رنگ بھی اور ایسے رنگ بھی، جن سے ہماری زندگی کے نقشے میں رنگ بھرتاہے، ہماری زندگی ماضی میں تبدیل ہوتی، مستقبل کی طرف بڑھتی اورحال میں اپنا پڑاؤ ڈالتی ہے۔ جب بھی نیاسال آتاہے توہمارے ذہن میں کچھ نئے پلان، نئے منصوبے، نئی امنگیں اور نئے ارادے انگڑائیاں لینے لگتے ہیں ، ہم سوچتے ہیں کہ آنے والے سال میں ہمیں کامیابی و کامرانی کی فلاں منزلیں طے کرنی ہیں ، تعمیرِذات اور ترقیِ احوال کے فلاں منصوبے کوعملی جامہ پہناناہے، خودکوپہلے سے زیادہ خوداعتماد، باحوصلہ، باصلاحیت اور کارگر بناناہے، اس سلسلے میں ہر شخص کے اس کے میدانِ عمل کے مطابق عزائم ہوتے ہیں اور ہرایک کی اپنی دلچسپی کے مطابق مستقبل کی خواہشیں ہوتی ہیں ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ راہِ عمل پر چلنے والے تولاکھوں ، کروڑوں ہوتے ہیں ، البتہ منزل پر پہنچنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں ، وہ جومنصوبہ بنانے کے ساتھ اس پر سنجیدگی سے عمل پیرابھی ہوناجانتے ہوں ، وہ یقیناً کامیاب ہوتے ہیں ، جبکہ وہ، جوصرف منصوبے بناتے ہوں ، وہ اِسی اُدھیڑبن ماہ و سال کوضائع کردیتے ہیں کہ ’’اب کیا، تب کیا‘‘۔

 بچپن میں اردوکی ابتدائی کتاب میں ہم نے ایک جملہ پڑھاتھا’’آج کاکام کل پر نہ ٹال!‘‘یہ جملہ یاد توہم سبھوں کوہوگا، مگر اِس کوزے میں بند اُس دریاکاشعور ہمیں تب نہیں تھا، جوانسانی زندگی اور اس کی قدروقیمت طے کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ، پہلے توہمیں اس جملے کے تلفظ میں ہی اشتباہ ہوجاتاکہ یہ ’’ٹال ‘‘ہے کہ’’ڈال‘‘ہے؛کیوں کہ عمرکے جس مرحلے میں وہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، اس وقت حروف کی شناخت بھی کسی بڑے معرکے کوسرکرنے سے کم نہیں ہوتی، مزیدیہ کہ تب ہمارے ذہن میں ’’ٹال‘‘کامفہوم گلی ڈنڈاکے کھیل میں استعمال ہونے والی ایک لکڑی ہواکرتاتھااورچوں کہ عمرکے اُس معصوم مرحلے میں پڑھانے والے محترم استاذبھی بوجوہ بس لفظ کے تلفظ پرہی زور دیتے ہیں ؛اس لیے اس وقت بس استاذکی چھڑی کھاتے اور ’’ڈال‘‘ کو ’’ٹال‘‘ پڑھنے کی کوشش کی جاتی۔ مگر پھربہت جلدہمیں پتالگ گیاکہ یہ’’ٹال‘‘ٹالناسے ہے، جس کوٹرخانابھی کہتے ہیں ۔ ذراساغورکریں توہمیں اندازہ ہوتاہے کہ اس چھوٹے سے لفظ میں معانی کی کائنات آبادہے، اس کاتعلق ہماری زندگی کے ہر سال، ہرمہینے، ہرگھنٹے؛بلکہ ہر منٹ اورہرگھڑی سے ہے، حقیقت میں یہ ایک جملہ نہیں ، نصائح کادفتر ہے، مواعظ کی کتاب ہے، بے شمار دروس و اسباق کامجموعہ ہے، تعلیم و تربیت کے موضوع پر لکھی جانے والی سیکڑوں کتابیں اس جملے میں بند ہیں ، دنیاکے ہزاروں راہ نما، قائدین، مصلحین و مبلغین کی درازنفس تقریریں ، ان کے خطابات کواس ایک جملے نے اپنے اندر سمو رکھا ہے، ملکوں کے قوانین اور حکومتوں کے آئین کاکم ازکم دوتہائی حصہ اس ایک جملے کی ترجمانی کرتاہے، جب ہم کسی بڑی مصیبت میں پھنس جائیں ، کسی اہم شخص سے مل نہ پائیں ، جب ہماری بس چھوٹ جائے یااسٹیشن پہنچنے سے پہلے ٹرین کے چلنے کاوقت ہوجائے اوروہ چل پڑے، جب ہم کسی سے وعدہ کریں اور وفانہ کرسکیں ، جب ہم کسی قابلِ احترام، بزرگ اور قابلِ تعظیم انسان کی کماحقہ قدرنہ کرسکیں ، جب ہم مدرسہ یاکالج کی زندگی سے نکل کر عملی دنیامیں قدم اندازہوں اور ہمارے پاس ایسا کوئی سرمایہ نہ ہو، جس کی مارکیٹ میں ضرورت ہے، توایسے موقعوں پر بے ساختہ ہمیں یہ جملہ یادآتاہے۔ جب ہماراکوئی عزیزبیماری کے ابتدائی مرحلے میں ہواور ہم اس پر توجہ نہ دیں ، پھراس کی بیماری شدت اختیار کرجائے، پھروہ ہم سے منہ موڑ کردوسری دنیاکوسدھارجائے، تب یہ جملہ بڑی شدت سے ہمارے لاشعورکوکچوکے لگاتاہے، جب کسی کوکوئی ضروری بات کہنی ہواور کہہ نہ پائیں ، کسی سے ملناہواور مل نہ پائیں ، کوئی روٹھنے لگاہواور ایک آوازدے کراسے واپس بلانا، مناناہواورایسا نہ کرپائیں ، کسی خستہ حال کی مددکرنی ہواور نہ کرسکیں ، کسی غم زدہ کودلاسہ دیناہواورہم سے یہ نہ ہوسکے؛ایسے تمام لمحات میں یہ جملہ ہماری حس، ہمارے شعور، ضمیر، قوتِ کاراورحقِ خودارادیت پرتازیانے برساتاہے، میرے خیال میں یہ ایک جملہ ہمارے لیے سیکڑوں استاذوں پربھاری، ہزاروں صفحات میں پھیلے ہوئے لاکھوں کروڑوں حروف و نقوش کاخلاصہ ہے۔ آج جب سال2016کے اختتام اور آنے والے سال کے آغازپر سوچناشروع کیا، توبے ساختہ یہ نصائح سے معمور جملہ ذہن کے پردے پرابھرکر سامنے آگیا۔

 ایک سال کے گزرنے اور دوسرے سال کے آنے پریااسی طرح یومِ پیدایش کی آمد پر خوشی کا اظہارآج کے ترقی یافتہ عہدکی تہذیبی شناخت یاکلچرل علامت بن چکی ہے، ہماری دنیامیں جوجتنازیادہ دانش ورہے، مالی اعتبار سے فارغ البال اورعلم و دانش کے شعبے میں نمایاں ہے، اسی قدراہتمام کے ساتھ اس کے گھر، خاندان اورحلقۂ یاراں میں سالِ نوکی رنگین وپرتعیش تقریبات کاانعقادہوتاہے، لوگ ایک دوسرے کوسالِ نوکی مبارک باددیتے ہیں ا ور عمر ِمستعار سے ایک سال کے کم ہونے پرخوشی کے غبارے پھوڑے جاتے ہیں ۔ ہم ایسے طالب علم کایہ کہنا ’’ چھوٹامنہ اوربڑی بات‘‘ جیسا ہوسکتا ہے، مگرحقیقت بہرحال یہی ہے کہ ایسے دانش مندلوگ دراصل بے دانشی کے ’’تاجور‘‘اور بے وقوفوں کے ’’سربراہِ اعلیٰ‘‘قراردیے جانے کے لائق ہیں ، باقاعدہ اسٹیج سجاکرایسے خود فراموشوں کوحماقت کے شعبے میں اعلیٰ ترین اعزازسے نوازاجاناچاہیے۔ انسان خوش اس وقت ہوتاہے، جب اسے کوئی انوکھی چیزحاصل ہوتی ہے، جب کوئی کامیابی ملتی ہے، جب وہ تعلیم یاتجارت یااپنے کام کے کسی بھی شعبے میں بلندیوں کوحاصل کرلیتاہے، یہ موقع خوش ہونے اور خوشی منانے کا ہوتا ہے؛لیکن اگر ہمار ی پچاس ، ساٹھ سال کی زندگی میں سے تیس سال نکل گئے یاچالیس سال نکل گئے، تواس میں خوش ہونے کی کیاوجہ ہوسکتی ہے؟!ہاں یہ موقع احتساب کاضرورہوتاہے، ویسے توایک مومن کوہرلمحہ احتسابِ نفس کے عمل میں مصروف رہناچاہیے، کہ خداے علیم و خبیر نے ہمیں قرآن مقدس کے ذریعے بار باراس کی تلقین کی ہے؛لیکن اگرایک سال کی سرحدسے نکل کردوسرے سال کی حدودمیں داخل ہونے جارہے ہیں اوراس موقع پر کچھ خاص کرناچاہتے ہیں ، تو اپنے آپ کاجائزہ لینے سے بہتر کوئی عمل نہیں ہوسکتا، اپنی ذات کاجائزہ، اپنے نفس کاجائزہ، اپنے اعمال و کردارکاجائزہ، اپنے بیتے ہوئے روزوشب کاجائزہ ، جائزہ اس بات کاکہ ہم نے اب تک کی زندگی میں کیاکچھ حاصل کیااور کیاکچھ کھویا، محاسبہ اس بات کاکہ ہم نے علمی شعبے میں کیاکچھ نیاپڑھا، لکھایاحاصل کیا، ہمار ی فکرمیں کتنی پختگی آئی، شعورکس قدربلندہوا، خیالات میں کیاتبدیلیاں ہوئیں ، احتساب اس بات کاکہ ہم نے اپنے علم کوکتنااستعمال کیااور کس حدتک اسے اپنی عملی زندگی میں برپاکرسکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

 اسلامی نقطۂ نگاہ سے دیکھیں ، توبھی ہمیں حکم یہ دیاگیاہے کہ ہر لمحہ اپنے اَنفاس کااحتساب کرتے رہیں ؛بلکہ مومن کی شان ہی پیہم احتساب اورمسلسل محاسبہ ہے، احتسا ب کایہ سلسلہ ہمارے اپنے نفس اور عمل و کردار سے شروع ہوتاہے اورپھربتدریج اس کا دائرہ گردوپیش سے ہوتاہواساری کائنات کواپنے جلومیں لے لیتاہے ۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاہے:

ہرنفس ڈرتاہوں اس امت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

ہمیں توباخبرکیاگیاہے کہ جب ہم بروزِ قیامت خداے عالم پناہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے، تواس وقت ہمیں نہ صرف یہ کہ مجموعی طورپرپوری عمرکے کچے چٹھے کاحساب دیناہوگا؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی بتاناہوگاکہ اپنی جوانی کہاں خرچ کی، صحت کے دنوں میں کیاکرتے رہے اورجوفراغت کے اوقات میسرتھے، ان میں کیاکیا؛یہ تینوں سوالات بنیادی طورپر وقت سے متعلق ہیں اورمجموعی طورپران سے یہی سبق حاصل ہوتاہے کہ ہمیں جوعمرملی ہے ، اس کے زیاں پرہنگامۂ جشن برپاکرنے کی بجاے لمحۂ موجود کاخوب سے خوب تر استعمال کیا جائے، انفرادی طورپراپنی ذات میں اورپھرپورے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کاعزم کیاجائے، جووقت اورعمرہمیں ملی ہے، اس کی قدرکریں اوراپنے لیے ، اپنے زمانے والوں کے لیے اوراپنے بعدوالوں کے لیے کچھ ایساکرنے کی سوچیں ، جوہماری سعادتوں اوردوسروں کی مسرتوں کاضامن ہو۔

تبصرے بند ہیں۔