نو ویلنٹائن ڈے
فضاء فانیہ
محبت کیسی بھی ہو دل کے نہاں خانوں میں یکدم اپنا مقام نہیں بناتی بلکہ بغیر کسی دستک کے چلی آتی ہے اور دھیرے دھیرے مسکنِ قلب بننا شروع ہوجاتی ہے، برابر اس درخت کے جس کا بیج زمین کے اندر ہونے کی بناء پر ہمیں دکھائی تو نہیں دیتا مگر وہ بڑھتے بڑھتے ایک قوی تنا درخت بن کھڑا ہوتا ہے۔
یاد رکھیں! درخت کو پانی دینے والے ہاتھ ہمارے اپنے ہی ہوتے ہیں۔
مگر ہم نادان مجازی کی اذیت میں مبتلا ہونا تو فخر سمجھتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ محبت فانی ہے اور اپنی عمر گنوانی ہے، ایمان کا سودہ ہے تو کہیں نفس کی اتباع کا جنون، حیاء کا رخصت ہونا تو کبھی خوفِ خدا کا جنازہ نکلنا، دل تو جیسے بُت کدہ بن چکا ہوتا ہے صرف اپنے محبوب و صنم کی پرستش سے ہی تسکین حاصل ہوتی ہے اور پھر بھی حقیقی چین و سکون کے متلاشی نظر آتے ہیں۔
ہائے! افسوس صد افسوس! بُھلا دیا کہ یہ ناسور زخم ہمارے ایمانِ قلب کو کیسے مجروح کئے جاتا ہے…
پھر محبت کی شدت سے مخمور ہونے لگتے ہیں
گویا سونپ کر دل و جان مجبور ہونے لگتے ہیں
ٹھیک یہی محبت اگر صدقِ دل کے ساتھ خالقِ کائنات سے کی جائے تو ہماری دنیا و آخرت درست ہوجاتی ہے اور یہ وہ محبت ہے، جس میں کوئی دھوکہ نہیں، دغا نہیں، بس وفا ہی وفا ہے، عبادات میں حقیقی لذات ہیں تو کہیں مضطرب دل کی گونجتی صدائیں بلند ہیں اور سکون ہی سکون ہے، یہ وہ محبت ہے جہاں جذبات سے کھیلا نہیں جاتا بلکہ جائز خواہشات کو پورا کیا جاتا ہے، ہمارے اذیت میں ہونے کی پرواہ کی جاتی ہے، آنکھوں سے نکلنے والے آنسوں کی بدولت ہماری برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور رحمت کی آغوش میں چھپا کر ہر خیر سے نوازا جاتا ہے، ذلت سے نَجات تو عزتیں بخشی جاتی ہیں، دستِ تمنا دراز کرو تو لاج رکھی جاتی۔
اے غافل! تو ایک دفعہ یہ محبت کرکے تو دیکھ راہِ خدا میں ایک دفعہ چل کر تو دیکھ…
کتنے ہیں خوش نصیب جو محبوبِ رب ہوئے
تا عمر پر سکون ہیں ، مغموم کب ہوئے
کاش کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
ماشاء اللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ