وارثین انبیاء کون؟

ممتازمیر

   فی زمانہ مسلمانوں میں علماء کرام کو برا بھلا بولنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے علما نے ہماری رہنمائی کم کی گمراہ زیادہ کیا۔اب نوجوانوں کا خیال یہ ہے کہ ہمارے انتشار کی بڑی وجہ ہمارے مسلکی علما ءہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب دیکھ کر بھی ہمارے علماء سدھرنے کو تیار نہیں۔ ان کے بھی اندھ بھکت ہوتے ہیں جو ان کا بھرم قائم رکھنے کے لئے اکثر اس حدیث کا سہارا لیتے ہیں کہ ’علما وارثین انبیاء ہیں‘ہمیں اس کے حدیث کے ہونے سے انکار نہیں۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ وہ کون سے علما ہیں جو اس حدیث کے مصداق ہیں۔ ہمارے یہاں فضائل اعمال والی احادیث کا بڑا چرچا رہتا ہے۔ قرآن کی سورتوں کے ہر ہر حرف پر ثواب کے انبار لگادیئے جاتے ہیں۔ بلکہ جنت کی بشارتیں دی جاتی ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے ؟ہمارا خیال ہے کہ یہ ان اصحابؓرسول کے لئے ہے جو پہلے ہی توحید کے پیغام کو پھیلانے کے لئے تن من دھن لگا چکے تھے مگر شہادت سے سرفراز نا ہو پائے تھے۔

   ہم مجبور ہیں اپنی تحریر میں قاری کے فہم کے لئے مروجہ اصطلاحات کا استعمال کریں۔ صدیاں گزر گئیں سازشا دین میں دوئی قائم کردی گئی۔اور دنیا کو دین سے یا سیاست کو دین سے علیحدہ کر دیا گیا ورنہ دور اول میں دین دنیااورسیاست سب کچھ اپنے اندر رکھتا تھا۔ مسلمانوں کی دنیا یا سیاست دین کے تحت ہوتی تھی۔ مگر خلافت راشدہ کے بعد دین کو سیاست سے الگ کر دیا گیا۔ اب جو ہمارے علماء ہوتے ہیں وہ بس قرآن و حدیث و فقہ کے عالم ہوتے ہیں۔انھیں دنیا کا کوئی علم نہیں ہوتا ،اور اسی لئے یہ دنیا کمانے میں دنیا داروں سے بڑھ کر قلابازیاں کھاتے ہیں۔

   ہمیں شک ہے کہ ہماری درج بالا معروضات سے ہماری فکر کی تفہیم شاید ہی ہو پائی ہو۔ اسلئے ہم مثالوں سے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم بڑے فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ موجودہ سائنس کی بنیا دمسلمانوں نے رکھی ہے۔ اب تو اس بات کا اعتراف مسلمان کیا غیر مسلم دانشور ،مورخ سائنسداں بھی اپنی کتابوں اور مقالوں میں کرنے لگے ہیں۔مسلم سائنسدانوں پر اب کتابیں مارکیٹ میں بھی دستیاب ہیں۔ ہم ذیل میںچند سائنسدانوں کے نام اور کام پیش کر رہے ہیں۔

 1۔ خالدبن یزید: یہ پہلی صدی ہجری میں ہی ہو گزرے ہیں۔ بنو امیہ کے شاہی خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ علم میں دلچسپی کی بدولت تخت کی پرواہ نہیں کی۔ان کو کیمسٹری

سے عشق تھا۔ علم طب میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ان کی کیمسٹری پر پہلی کتاب تھی جو Latin میں ۱۱۴۴ میں ترجمہ ہوئی اور جسے رابرٹ آف چیسٹر نے ترجمہ کیا تھا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ خالد نے کس یونیورسٹی سے ایم ایس سی ؍پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ؟کہاں ریسرچ اسکالر رہے ؟کہاں سے سائنس سیکھی ؟ہم نے تو یہ پڑھا ہے کہ انھوں نے ایسا کچھ نا کیا۔پہلی صدی ہجری میں قرآن و حدیث کے سوا جو علم میسر تھا وہ کچی پکی یونانی تھیوریز تھیں۔احادیث بھی شاید چند سو ہی تھیں۔بلا شبہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں۔مگر ڈھونڈنے والوں کے لئے سائنس بھی قرآن میں بھری پڑی ہے۔

ابو اسحاق ابراہیم بن جندب : (۱۵۷ھ؍۷۷۶ء)یہ عباسی دور کا سائنسداں تھا۔ اسے علم ہیئت سے دلچسپی تھی۔اس نے اپنی تعلیم اور اپنے دماغ سے کام لے کر ایک آلہ ــ’’اصطرلاب‘‘ایجاد کیا جس کے ذریعے فاصلوں کی پیمائش کی جا سکتی تھی۔ علم ہیئت کے مطالعے کے ذریعے وہ فلکیاتAstronomy میں ماہر ہو گیا۔ نئی نئی ایجادات کرنے لگا۔ اس کے علاوہ وہ ماہر صناع میکانک بھی تھا،اور اسی سبب اس نے ایک آلہ ایجاد کیا جسے اسطرلاب کا نام دیا گیا۔ یہ ایک طرح کی دوربین تھی۔ اسی آلے کو ترقی دے کر ۱۵۶۴ میں گلیلیو نے دوربین ایجاد کی اور آج جدید زمانہ اسی کو دوربین کا موجد سمجھتا ہے۔ہمارا سوال پھر وہی ہے کہ ابراہیم بن جندب کس کالج یا یونیورسٹی سے فارغ تھے۔ جواب وہی ہے کہ یہ قرآن وحدیث کی تعلیم تھی جس نے انھیں سائنسداں بنایا۔ مگر آج تک کسی نے انھیں ’علماء‘ میں شمار نہ کیا۔

ابو عبداللہ محمد بن احمد الخوارزمی:۷۸۰ء میں خوارزم کے مردم خیز علاقے میں پیدا ہوا۔ابتدائی حالات پردہءا خفا میں ہیں سوائے اس کے کہ مروجہ تعلیم حاصل کی اور وہ تعلیم کیا تھی ؟وہی قرآن وحدیث۔اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ دنیا کو Algorithm کا تحفہ دیا جس سے آج کی جدید دنیا تک فائدہ اٹھا رہی ہے۔اس نے قریب ہر موضوع پر ایک مستند اور جامع کتاب لکھی۔جس کے مجموعے کا نام مفاتح العلوم ہے جو کافی ضخیم ہے۔ اس وقت کے تمام مروجہ علوم کے تعلق سے اس میں بنیادی معلومات درج ہے۔۱۸۹۵ میں لندن کے ایک ادارے نے اس کا ترجمہ بڑے اہتمام سے شائع کیا تھا۔ ابو عبداللہ الخوارزمی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے مضامین کی ترتیب کے لئے ابجد کا طریقہ یعنی ا،ب،پ کی ترتیب استعمال کی۔

شیخ حسین عبداللہ بن علی سینا:جنھیں عرف عام میں بو علی سینا کہا جاتا ہے۔اور مغرب نے جسےAvicenna کہہ کر اپنا رکھا ہے۔ بو علی سینا ۹۸۰ میں پیدا ہوئے اور ۱۰۳۸ میں وفات پا گئے۔شیخ علم طبیعات،حیاتیات،علم تشریح الاعضا ،منافع الاعضا نیز علم الامراض وعلاج پر گہری نظر رکھنے والا ماہر ،نئے نئے نکتے بیان کرنے والا محقق ، علم الادویہ کا ماہر عظیم سائنسداں اور ماہر فن تھاجس کی کتابیں ۱۸ویں صدی تک یورپ میں پڑھائی جاتی تھیں۔ تعلیمی لیاقت کے نام پر ہر جگہ یہی لکھا پایا کہ مروجہ تعلیم مکمل کئے ہوئے تھا۔اور مروجہ تعلیم کیا تھی وہی قرآن و حدیث۔

   مشتے نمونہ از خروارے۔ہم نے یہاں صرف ۴ سائنسدانوں کا ذکر کیا ہے ورنہ فہرست تو سینکڑوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہمار ے سائنسداں علما ءنا ہوتے تو مسلمانوں کا دور اولین تو تاریک ہوتا ہی مغرب بھی ابھی تک تاریکی میں ہی ڈوبا ہوتا۔کیونکہ مغرب کی ترقی کا یہ تاج محل مسلمانوں کی فراہم کردہ بنیادوں کے بغیر کھڑا ہی نہ ہوپاتا۔ ہمارے اسلاف کا اس دنیا پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے بتایا کہ مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ مگر پھر بعد کے علما نے ہی مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ قائم کیا۔ قرآن کو کائنات کے اسرارورموزکی دریافت کی غرض سے پڑھنا چھوڑ دیا گیا۔ اور مسلکی مناقشوں میں بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگانوبت یہاں تک پہونچی کہ ۱۵۸۰ میں علمائے اسلام کے فتاو یٰ اور عوام کے اسرار پر استنبول میں دنیا کی سب سے بڑی رصد گاہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں ڈھادی گئی۔یہی وہ لمحہ تھا جب خدا اور انفس وآفاق کے درمیان توازن کے ادراک سے ہم غافل ہوگئے جس کی بنا پر قرآن نے مسلم ذہن کی تعمیر کی تھی۔ اسی طرح ۴۰۰ سال پہلے جب چھاپے خانے کی ایجاد ہوئی تو ترک سلطان سلیم کے درباری علما نے اس پر قرآن کی طباعت کو حرام قرار دیا۔ معلوم نہیں وہ نیک نیتی کے ساتھ اسے حرام سمجھتے تھے یا قرآن کے پھیلاؤ کو کسی قسم کا خطرہ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر آج بھی ہمارے درمیان کچھ ایسے علما موجود ہیں (ہم مروج اصطلاحوں میں بات کرنے پر مجبور ہیں)جو آلہء مکبر الصوت،لاؤڈ اسپیکر پر اذان و نماز کو حرام کہتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ لوگ دیدہ ودانستہ مسلمانوں کو دنیا سے پیچھے رکھنا چاہتے ہیں۔ یا پھر قرآن وحدیث کیا انھیں سیرت کا بھی درست مطالعہ نہیں۔ ورنہ حضور ﷺ کو تو جیسے ہی علانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تھاآپ ﷺ نے اپنی دعوت کو پھیلانے کے لئے اپنے وقت کے میڈیا کا بھر پور استعمال کیا تھا۔بہرحال یہ ہمارے علماء ہی تھے جو جانے انجانے میں اسلام کے زوال کا سبب بنے۔ اور آج صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان کو صورتحال کا ادراک نہیں۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ صدیوں پہلے تو قرآن کا مطالعہ دنیا کیا کائنات کے اسرارورموز سے واقف کراتا تھا اور آج قرآن و حدیث کا مطالعہ فقہ گھڑنے کے کام آتا ہے۔

   ہمارے علم کے مطابق قریب ایک صدی سے مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی کی مہم چل رہی ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ مدرسوں کے نصاب کو جدید دور کے مطابق یا اس دور کے مطابق جس دور میں ہم نے جدید سائنس کی بنیادیں استوار کی ،نہیں بنایا جاتا۔یقینا اکا دکا ادارے ہیں جواس نہج پر چل رہے ہیں۔ مگر یہ آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں۔

  بہرحال ہمارے نزدیک موجودہ دور کے یہ قرآن و حدیث و فقہ کے مسلکی علما وارثین انبیاء کہلانے کے لائق نہیں۔ہمیں تو وہی دور اولین کے سائنسداں چاہئے جنھوں نے کائنات کے اسرارورموز کو explore کرکے مسلمانوں کی نہیں بنی نوع انسان کی خدمت کی تھی۔ جبکہ اس دور کے علما انسانوں کی خدمت کیا کرتے ،یہ مسلمانوں کو لڑانے کا کام کرتے ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ اب مدرسوں کی قید سے آزاد کچھ اور علما بھی پیدا ہورہے ہیںاور سکہ بندعلما کی مخالفتوں کے باوجود عوام انھیں اپنا بھی رہی ہے۔

   بڑا عجیب لگتا ہے کہ ایک غیر مسلم نیند اور موت پر ریسرچ کرتے ہوئے قرآن سے استفادہ کرتا ہے اور مسلمان ہوجاتا ہے۔ ایک اورغیر مسلم ماہر فن قرآن میں بچے کی پیدائش کے مدارج پڑھ کر نہ صرف یہ کہ مسلمان ہو جاتا ہے بلکہ ٹی وی پریہ سب سمجھاتا بھی ہے۔تیسرا آب زم زم پر ریسرچ کرکے اس کے محیر العقول فوائد ثابت کرتا ہے۔ چوتھا دعاؤں کے اثرکو تجربات سے ثابت کرتا ہے۔ کچھ اور غیر مسلم ہیں جو نماز اورر وزوںپرریسرچ کرکے ان کے فوائد دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ اور ہمارے علماسائنس کو مذہب کا دشمن ثابت کرنے میں لگے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔