واقعۂ کربلا (3)
شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی
حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کی شہاد ت کی خبر
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو ابھی تک حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کی شہادت اور حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر نہیں ملی تھی اور آپ رضی اﷲ عنہ بد ستور کوفہ کی طرف رواں دواں تھے۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : بنو اسد کے دو شخص عبد اﷲ اور مذری حج کو گئے ہوئے تھے وہ بیان کرتے ہیں :’’ ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمیں یہ فکر ہوئی کہ ہم جلد از جلد حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سے جا کر ملیں اور دیکھیں کہ کیا واقعہ پیش آیا اِسی لئے ہم اپنے ناقوں (اونٹوں ) کو دوڑاتے ہوئے چلے اور مقام ’’زرود‘‘ تک پہنچے تو کوفہ کی طرف سے ایک شخص کو آتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو دیکھا تو راستہ بدل دیا۔ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ اسے دیکھ کر رک گئے گویا آپ رضی اﷲ عنہ اُس سے ملنا چاہتے تھے۔ پھر آپ رضی اﷲ عنہ روانہ ہو گئے اور ہم دونوں اُس شخص کے پاس گئے اور اُسے سلام کیا تو اُس نے جواب دیا۔ ہم نے اُس کے قبیلہ کے بارے میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ بنو اسد کا ہے تو ہم نے بتایا کہ ہم بھی بنو اسد کے ہیں۔ پھر ہم نے اُس کا نام پوچھا تو اُس نے بکیر بن شعبہ بتایا۔ پھر ہم نے کوفہ کے حالات معلوم کئے تو اُس نے بتایا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ اور حضرت ہانی بن عروہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کردیا گیا ہے اور میں دیکھا کہ اُن دونوں کی لاشوں کے پیر پکڑ کر بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا۔ یہ خبر سن کر ہم دونوں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے قافلہ سے آکر ملے جب آپ رضی اﷲ عنہ نے مقام ’’ثعلبیہ‘‘ میں قیام کیا تو ہم آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس گئے اور سلام کیا اور آپ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا ہم نے عرض کیا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ رضی اﷲ عنہ کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے ! ہم کچھ خبر آپ رضی اﷲ عنہ کو دینا چاہتے ہیں کہیئے تو ایسے ہی بتا دیں یا پھر چپکے سے آپ رضی اﷲ عنہ کو بتا دیں۔ ‘‘ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے اہل و عیال اور خاندان والوں کو دیکھا اور پھر فرمایا : ’’ اِن لوگوں سے چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا : ’’ کل شام کو آپ رضی اﷲ عنہ نے ایک سوار کو کوفہ سے آتے دیکھا تھا ؟ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ ہاں میں نے دیکھا تھا اور میں اُس سے کوفہ کے حالات معلوم کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا : ’’ ہم نے اُس سے معلوم کر لیا ہے اُس نے بیان کیا کہ اُس کے سامنے حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ اور حضرت ہانی بن عروہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور اُن دونوں کی لاشوں کے پیر پکڑ کر بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا۔ ‘‘ یہ سن کر آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ! اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اُن دونوں پر نازل ہوں۔ ‘‘ پھر آپ رضی اﷲ عنہ بار بار یہی کہتے رہے۔ ہم نے عرض کیا : ’’ ہم آپ رضی اﷲ عنہ کو اﷲ کی قسم دیتے ہیں اپنی جان کا اپنے اہل بیت کا خیال کریں اور اِسی جگہ سے واپس چلے جائیں۔ کوفہ میں آپ رضی اﷲ عنہ کا کوئی مددگار نہیں ہے بلکہ ہمیں تو اِس بات کا خوف ہے کہ وہ لوگ آپ رضی اﷲ عنہ کی مخالفت کریں گے۔ ‘‘
آل عقیل کے اصرار پر عزم کوفہ
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل کوفہ نے غداری اور بد عہدی کی ہے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے ارادہ بدل لیا اور واپسی کا ارادہ بنایا تھا کہ آل عقیل کے اصرار پر آپ رضی اﷲ عنہ نے پھر کوفہ کی طرف بڑھنے کا عزم کر لیا۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : یہ سن کر حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کے بیٹے کھڑ ے ہوئے اور فرمایا : ’’ اﷲ کی قسم ! جب تک ہم حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کے خون کا قصاص نہیں لیں گے یا ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کا ہوا ہے تب تک ہم واپس نہیں جائیں گے۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے ہم سے فرمایا : ’’ اِن لوگوں کے بعد زندگی کا کوئی لطف نہیں ہو گا۔ ‘‘ ہم سمجھ گئے کہ آپ رضی اﷲ عنہ نے کوفہ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔ ہم نے عرض کیا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ رضی اﷲ عنہ کے لئے بہتری کرے۔ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ دونوں کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ کے بعض انصار نے عرض کیا : ’’ کوفہ میں آپ رضی اﷲ عنہ جائیں گے تو سب آپ رضی اﷲ عنہ کی طرف دوڑیں گے۔ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ صبح کا انتظار کرتے رہے جب وقت سحر ہوا تو خادموں سے فرمایا : ’’ جتنا پانی لے سکو لے لو۔ ‘‘ اُن سب نے پانی بھر لیا اور بہت زیادہ بھرا۔ پھر سب وہاں سے روانہ ہو گئے اور چلتے چلتے منزل ’’زہالہ‘‘ میں پہنچے۔
حضرت عبد اﷲ بن بقطرکی شہادت کی اطلاع
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے تو آپ رضی اﷲ عنہ کو اپنے قاصد کی شہادت کی اطلاع ملی۔ آپ رضی اﷲ عنہ کے قاصد حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ تھے یا پھر حضرت عبد اﷲ بن بقطر رضی اﷲ عنہ تھے۔ علامہ محمد بن جریر طبری نے ایک روایت میں حضرت قیس بن صیدادی رضی اﷲ عنہ کا نام بیان کیا ہے اور دوسری روایت میں حضرت عبد اﷲ بن بقطر رضی اﷲ عنہ کا نام بیان کیا ہے اور دونوں روایتوں میں دونوں کی شہادت کا واقعہ ایک ہی طرح بیان کیا ہے۔ جب حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو اپنے قاصد کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے اہل و عیال، خاندان اور ساتھیوں کو جمع کیا۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : جب یہ خبر آپ رضی اﷲ عنہ کو ملی تو آپ رضی اﷲ عنہ نے سب لوگوں کو جمع کر کے فرمایا :’’ بسمہ اﷲ الرحمن الرحیم !ایک بہت ہی سخت واقعہ کی خبر مجھے ملی ہے۔ حضرت مسلم بن عقیل، حضرت ہانی بن عروہ اور میرے قاصد (حضرت قیس بن مسہر یا حضرت عبد اﷲ بن بقطر) رضی اﷲ عنہم شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ہمارے حامیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اِس لئے تم میں جو واپس جانا چاہے وہ چلا جائے میں نے تم پر سے اپنا ذمہ اُٹھا لیا ہے۔ ‘‘ یہ سنتے ہی سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے اور آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو مدینۂ منورہ سے آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چلے تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے انہیں جانے کی اجازت اِس لئے دی تھی کیونکہ آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ بہت سے اعرابی اِس لئے چل رہے تھے کہ انہوں نے یہ سمجھا ہوا تھا کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ ایسے شہر میں جا رہے ہیں جہاں سب اُن کی بات مانیں گے اور اطاعت کریں گے اِسی لئے آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ انہیں لا علمی میں رکھ کر موت کے منہ میں لے جایا جائے۔ آ پ رضی اﷲ عنہ کو یقین تھا کہ جب لوگوں کو مفصل حال معلوم ہو جائے گا تو وہی لوگ میرا ساتھ دیں گے جو میرے ساتھ شہید ہونے کا عزم رکھتے ہیں باقی سب واپس چلے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ اب آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ اہل و عیال، خاندان کے لوگ ہی رہ گئے تھے۔
بطن عقبہ میں قیام اور ۶۰ ہجری کا اختتام
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو مکۂ مکرمہ سے روانہ ہوئے لگ بھگ بیس دن سے زیادہ ہو چکے تھے اور جب آپ رضی اﷲ عنہ نے مقام ’’بطن عقبہ‘‘ میں قیام کیا توذی الحجہ ۶۰ ہجری کا اختتام ہو گیا اور محرم الحرام ۶۱ ہجری کی شروعات ہوئی۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : صبح ہوئی تو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے حکم دیا کہ پانی زیادہ سے زیادہ ساتھ لے لو اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور روانہ ہوئے اور ’’ بطن عقبہ‘‘ میں جا کر قیام پذیر ہوئے۔ وہاں پر بنو عکرمہ کے ایک شخص نے آپ رضی اﷲ عنہ سے عرض کیا : ’’ آپ رضی اﷲ عنہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں ؟‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے تمام حالات بیان کر دیئے۔ اُس نے عرض کیا : ’’ میں آپ رضی اﷲ عنہ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں یہیں سے واپس چلے جایئے۔ اﷲ کی قسم ! آپ رضی اﷲ عنہ برچھیوں اور تلواروں کے نیچے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے آپ رضی اﷲ عنہ کو بلایا ہے اگر وہ آپ رضی اﷲ عنہ کو جنگ و جدال کی زحمت سے بچا لیتے تو خود ہی سب کام درست کر چکے ہوتے اور اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ جاتے تو یہ درست ہوتا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے جو حالات بیان کئے ہیں۔ ایسی صورت میں تو میں یہی عرض کروں گا کہ آپ رضی اﷲ عنہ یہیں سے واپس لوٹ جایئے۔ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اے اﷲ کے بندے ! تم نے جو رائے دی ہے وہ (دنیاوی لحاظ سے) بالکل درست ہے لیکن اﷲ کی مشیت کے آگے کوئی چارہ نہیں ہے۔ ‘‘ اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ آگے روانہ ہو گئے۔ اِس سال ۶۰ ہجری میں یزید نے مدینۂ منورہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو معزول کر دیا اور عمرو بن سعید بن عاص کو مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ دونوں جگہوں کا گورنر بنادیا۔ کوفہ کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر کو معزول کر کے عبید اﷲ بن زیاد کو بصرہ کے ساتھ ساتھ کوفہ کا بھی گورنر بنا دیا۔
۶ ہجری کوفہ کے پہلے لشکر کا سامنا
۶۰ ہجری کا اختتام ہوا اور ۶۱ ہجری کی شروعات ہوئی اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا کوفہ کی جانب سفر جاری تھا۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ بطن عقبہ سے آگے بڑھے اور مقام ’’اشراف‘‘ پر قیام پذیر ہوئے۔ پھر صبح کے وقت وہاں سے روانہ ہوئے اور مسلسل سفر کرتے رہے یہاں تک کہ دوپہر کے وقت قافلے کے آگے والے شخص نے بلند آواز سے ’’اﷲ اکبر‘‘ پکارا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے بھی ’’اﷲاکبر‘‘فرمایا پھر اُس سے دریافت فرمایا کہ تم نے ’’اﷲ اکبر‘‘ کیوں کہا َ؟اُس نے کہا :’’ مجھے خرمے(کچی کھجور) کے درخت دکھائی دے رہے ہیں۔ ‘‘ یہ سن کر بنو اسد کے دو اشخاص نے کہا : ’’ ہم تو یہاں سے اکثر گزرتے ہیں لیکن کبھی یہاں خرمے کے درخت دکھائی نہیں دیئے۔ ‘‘ پھر غور سے دیکھنے کے بعد کہا : ’’ یہ تو کسی لشکر کا ’’مقدمۃ الجیش‘‘ (ہراول، پہلا رسالہ) معلوم ہوتا ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ مجھے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہمارے لئے یہاں کوئی ایسی جگہ مل سکتی ہے جس کو پشت پر رکھ کر ہم ان لوگوں سے ایک ہی رخ پر سامنا کریں ؟‘‘ دونوں شخصوں نے کہا : ’’ آپ رضی اﷲ عنہ کے پہلو میں مقام ’’ذوحسم‘‘ یا ’’ذو حشم‘‘ موجود ہے آپ رضی اﷲ عنہ بائیں جانب مڑ جایئے ان لوگوں سے پہلے وہاں پہنچ جائیں گے اور جو چیز چاہتے ہیں وہ حاصل ہو جائے گی۔ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ بائیں جانب مڑے ہی تھے کہ لشکر کے رسالے کے سوار بھی آ پہنچے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ آپ رضی اﷲ عنہ راستے کو چھوڑ کر بائیں جانب جا رہے ہیں تو وہ بھی اُسی طرف مڑ گئے۔ اُن کے برچھیوں کے پھل شہد کی مکھیوں کے غول کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور اُن کے علموں (جھنڈوں ) کی بیرقیں گدھ کے پروں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ رضی اﷲ پہلے ذوحسم یا ذو حشم پہنچ گئے اور خیمے نصب کرنے کا حکم دیا اور قیام پذیر ہو گئے۔
حر کے لشکر کو پانی پلایا
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے جب کوفہ کی طرف آنے کی خبر عبید اﷲ بن زیاد کو ملی تو اُس نے حصین بن نمیر کو ناکہ بندی کرنے کے لئے بھیجا تو اُس نے قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈال دیا اور اطراف و جوانب میں لشکروں کو دوڑا دیا۔ اُن میں سے ایک لشکر سے حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا سامنا ہو گیا۔ اس لشکر کا سپہ سالار حربن یزید تمیمی تھا۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : ہزار سواروں کا رسالہ لئے ہوئے حربن یزید تمیمی اِس جلتی دوپہر میں آپ رضی اﷲ عنہ کے مقابل آکر ٹھہرا۔ اُس نے دیکھا کہ آپ رضی اﷲ عنہ اور آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھی عمامے باندھے ہوئے ہیں۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا :’’ پورے لشکر والوں کو پانی پلاکر اُن کی پیاس بجھاؤاور گھوڑوں کو بھی پانی پلاؤ۔ ‘‘آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھیوں نے لشکر والوں کو پانی پلا پلا کر سیراب کر دیا۔ پھر کاسے کٹرے طشت بھر بھر کر گھوڑوں کے سامنے لے گئے۔ گھوڑا جب تین یا چار بار پانی میں منہ ڈال چکتا تو ظرف ہٹا کر دوسرے گھوڑے کو پانی پلاتے تھے اِسی طرح سب گھوڑوں کو پانی پلایا۔ حر بن یزید تمیمی کے لشکر کا ایک سپاہی پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے : ’’ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے جب مجھے اور میرے گھوڑے کی بری حالت کو دیکھا تو فرمایا: ’’ رادیہ کو بٹھاؤ۔ ‘‘ میں مشک کو رادیہ سمجھا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اے بیٹے ! اونٹ کو بٹھاؤ۔ ‘‘ میں نے اونٹ کو بٹھایا تو مجھے پانی دیا اور فرمایا : ’’ لو پیو۔ ‘‘ میں جب پانی پینے لگا تو مشک (مشکیزے) سے پانی گرنے لگا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ مشک کے دہانے کو اُلٹ دو۔ ‘‘ مجھ سے اُلٹتے نہیں بنا تو آپ رضی اﷲ عنہ خود کھڑے ہوئے اور دہانہ کو اُلٹ دیا۔ پھر میں نے اور میرے گھوڑے نے پانی پیا۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی طرف حربن یزید تمیمی کے لشکر لیکر آنے کا سبب یہ ہوا کہ عبید اﷲ بن زیاد کو جب یہ خبر ملی کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ آرہے ہیں تو اُس نے حصین بن نمیر کو جو پولیس محکمے کا سربراہ تھا روانہ کیا اور حکم دیا کہ قادسیہ میں ٹھہرے اور قطقطانہ سے حقائق تک مورچے باندھے اور حر کو ایک ہزار سوار کا لشکر دے کر اُس کے آگے روانہ کیا کہ وہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سے مزاحمت کرے۔ حر بن یزید تمیمی نے آپ رضی اﷲ عنہ کو روکے رکھا۔
جاری ہے……
تبصرے بند ہیں۔