نتیش کمار: دھوکے  کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

ڈاکٹر سلیم خان

نتیش کمار کا شمار ملک کے سب سے زیادہ آرزومند سیاسی قائدین میں ہوتا ہے۔ وطن عزیز  میں فی الحال جن لوگوں کے دل میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہونے کاشدید ارمانپایا جاتا ہے ان میں سے ایک نتیش کمار ہیں۔ اسی چیز نے انہیں ہندوستان کا سب سے زیادہ ابن الوقت رہنما بنا دیا  ہے۔ لالو پرشاد یادو  نے ان کو پیار سے پلٹو رام کا خطاب دے رکھا ہے۔  وہ ہوا کا رخ دیکھ  کر پہلے سے پیش بندی کرنے لگتے ہیں۔ مستقبل کا اندازہ  لگانے میں کس  سے بھول چوک نہیں ہوتی  اس لیے نتیش کو بھی استثناء حاصل نہیں ہے۔ 2014کے قومی انتخاب سے  قبل انہوں نے این ڈی اے سے نکل کر ایک جوا کھیلا تھا لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ بی جے پی کے سشیل کمار مودی نے ان کی  جو تعریف کردی تھی اس کو نریندر مودی ابھی تک نہیں بھولے۔پہلے امید دلاکر ان نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے ہٹایا  گیاکہ مرکز میں وزیر بنائیں گے لیکن وہ  وعدہ بھی وفا  نہ ہوا۔ سچ  تو یہ  ہے کہ کینہ پروری میں وزیر اعظم کا ثانی کوئی اور نہیں ہے۔ ان کے شکاروں کی قطار میں جہاں سنجے جوشی اور پروین توگڑیا پہلے سے موجود تھے اب سشیل کمار کا اضافہ ہوگیا ہے۔

مودی کی دشمنی کا نتیش کمار کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ کبھی آر جے ڈی تو کبھی بی جے پی کے ساتھ  وزارت اعلیٰ کے عہدے  پر فائز رہے۔ ان کو جملہ سات بار حلف برداری  کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس بار بی جے پی نے جس چراغ کے ذریعہ ان کے آشیانے کو خاکستر کرنے کی کوشش کی اس  نے خود سارا راز فاش کردیا۔ چراغ پاسوان چونکہ بی جے پی کے اشارے پر کام کررہے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ نتیش کمار کو  جیل بھجوانے کی دھمکی کو بھی   مودی جی کی توثیق  حاصل تھی۔ یعنی منصوبہ یہ تھا کہ  جے ڈی یو کا صفایہ کرکے لوک جن شکتی پارٹی  کی مدد سے صوبائی  سرکار بنائی جائے اور ان کے مطالبے پر نتیش کو جیل بھیج دیا جائے لیکن ’جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے‘۔ انتخابی نتائج کے بعد  چراغ بجھ گیا اورلوک جن شکتی پارٹی کی جھونپڑی  جل کر راکھ ہوگئی ۔ آر جے ڈی کے مقابلے بی جے پی  دوسرے نمبر پر چلی گئی اور ایک مذموم  سازش دھری کی دھری رہ گئی۔

اس  صورتحال میں جے ڈی یو کی حمایت کرنا بی جے پی  کی مجبوری ہے۔ مشیت کا یہ عجب کارنامہ ہے کہ  جسے جیل بھیجنے کی کارستانی کی جارہی تھی وہ وزیر اعلیٰ بن کر سینے پر مونگ دلنے کے لیے سوار ہوگیا۔ بی جے پی کی اس نمک حرامی نے  بد اعتمادی  کا بیج تو بودیا  لیکن اس  کے باوجودیہ ’رام ملائی جوڑی، ایک اندھا اور کوڑھی ‘ نے  مجبوری کی شادی  رچا لی۔ اس میں جوعدم اطمینان لازمی تھا   اور اس کے مظاہر اب   ظاہر ہونے لگے  ہیں ۔ مرکزی حکومت فی الحال پیگاسس  کے معاملے میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کے خلاف حزب اختلاف متحد  ہوچکا ہے۔ اس کے دو مطالبات ہیں اول تو ایوان پارلیمان میں پیگاسس پربحث ہو اور دوم جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی یا سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں تفتیش ہو۔ یہ نہایت معقول تجاویز ہیں لیکن  خوفزدہ  حکومت نہ تو  مباحثے کے لیے آمادہ ہے اور نہ تفتیش کی خاطر راضی ہے۔ اس کے خیال میں یہ غیر ضروری اور غیر سنجیدہ مسئلہ ہے۔

مرکزی سرکار کی  اس سے بڑی ڈھٹائی کیا ہوسکتی ہے کہ ایک غیر ملکی ایجنسی کے ذریعہ ملک کے  تین سو  نامورافراد  کی جاسوسی بھی  حکومت کے نزدیک کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ سرکار کی راہِ فرار اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف دال میں کالا ہے بلکہ پوری دال ہی کالی اور اس کالک سے اپنا منہ کالا ہونے کا خو ف اس کو لنگڑے لولے جواز پیش کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ اس نازک موقع پر حکومت کو اپنے دوستوں کی حمایت درکار ہے لیکن نتیش کمار نے سرکار کی پیٹھ میں وار کردیا۔  نتیش کمار نے پیگاسس کے معاملے میں نہ صرف مباحثے کی تائید کی بلکہ تفتیش کو  بھی حق بجانب قرار دےدیا یعنی حزب اختلاف کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ نتیش کی دلیل یہ ہے کہ  لوگ اس جاسوسی کی بابت ایوان میں گفتگو کررہے ہیں۔ اس کے ذریعہ  لوگوں  کو ڈرایا اور پریشان کیا جاسکتا ہے اس لیے وہ جانچ کا مطالبہ کرتےہیں۔اس بابت جنتا دل ( یو)   کی دلچسپی اس لیے بھی ہے کیونکہ د سمبر 2018 اور جنوری 2020  کے درمیان جب پرشانت کشور کی جاسوسی کی گئی تھی تو اس وقت وہ جنتا دل  (یو) کے نائب صدر تھے۔ اس لیے ان کی نگرانی کا مطلب جنتا دل (یو)  کی جاسوسی  ہوتا ہے۔ پیگاسس  کے معاملے میں  نتیش کمار تو دور اب بی جے پی کے اندر بھی بغاوت کے سُر سنائی دینے لگے ہیں۔

کپتان سنگھ سولنکی بی جے پی  کے ایک معمر رہنما  ہیں جو ہریانہ اور تریپورہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بھی  علی الاعلان  پیگاسس پر تفتیش کی  حمایت کی  ہے۔ سولنکی  نے کہا  کہ جمہوریت کا قیام  باہمی اعتماد اور انفرادی  رازداری پر ہوتا ہے۔ پیگاسس کا معاملہ ایک غیر ملکی ایجنسی نے اٹھایا ہے۔ اس نے حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے کئی رہنماوں، صحافیوں اور دیگر لوگوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے سبب بے اعتما دی پیدا ہوئی ہے۔اس لیے تفتیش ہونی چاہیے۔یہ معاملہ سولنکی تک محدود نہیں رہے  گاآگے چل کراور لوگ بھی بولیں گے۔ آر ایس ایس کو بھی مجبور ہو کر اس پر لب کشائی کرنی ہوگی  کیونکہ کسی غیر ملکی  ادارے کے ذریعہ اپنے لوگوں کی جاسوسی نہایت شرمناک فعل ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے انگریزوں کو دو سو سال میں اتنے  ملک  دشمن یعنی سرکار کے باغی نہیں ملے جتنے سات سال میں بی جے پی کو مل گئے۔ ایسا کیوں ہوا یہ بھی  ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے۔

پیگاسس کے علاوہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے معاملے میں بھی جے ڈی یوکا بی جے پی سے اختلاف ہے۔ اس معاملے میں تو نتیش کمار آر جے ڈی کے ساتھ کھڑے  نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا  ہے  کہ اگر مرکز نہیں مانا تو صوبائی سطح پر یہ کام کیا جائے گا۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ خط مرکزی حکومت کو دینے کی تیاری میں ہیں۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ اس مطالبے کی تائید میں 2019 کے اندر قانون ساز کونسل اور 2020 میں صوبائی اسمبلی کے اندر اتفاق رائے سے قرار داد منظور ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب تو  یہ ہے کہ  بی جے پی بھی اس میں شامل تھی۔ نتیش کمار  کا دعویٰ ہے کہ وہ 90کی دہائی سے یہ  مطالبہ کررہے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں یہ کام  ایک بار ہوچکا ہے۔ اس کے سبب تمام طبقات کو خوشی ہوگی اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں آسانی ملے گی۔

نتیش کمار  مرکز ی حکومت کی اس دلیل کو خارج کرتے ہیں کہ  پچھلی  مردم شماری کے اعداد وشمار  ناقص ہیں۔ ان کے مطابق اگر  ایسا ہے  بھی تو اس نقص  کو دور کرنے کے لیے یہ عمل دوہرایا جانا چاہیے۔ گزشتہ دنوں جنتا دل  (یو) کے نومنتخب صدر للن سنگھ کی قیادت میں ایک  کل جماعتی وفد نے وزیر داخلہ   سے ملاقات کی تو  اسے   اس پر غور کرنے کی یقین دہانی کی  گئی  لیکن افسوس کہ  وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے  نے ایوان بالا میں مردم شماری کے اندر ذات پات کے اندراج کا انکار کردیا۔ بی جے پی دراصل  ذات پات کی رائے شماری سے اس لیے ڈرتی ہے کیونکہ اس کے بعد پھر کمنڈل کے مقابلے منڈل کی لڑائی تیز ہوجائے گی۔ فی الحال اس کے سامنے اترپردیش کا انتخاب ہے جہاں یوگی سرکار ہر محاذ پر  بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اب اس کا واحد سہارا رام مندر یعنی کمنڈل ہےاور وہ اس کو کسی صورت کمزور کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

امیت شاہ نے  اتر پردیش کےاپنے حالیہ دورے پر بھی یہ کہا ہے  کہ پہلے والی سرکاروں نے ایودھیا، کاشی اور متھرا کو نظر انداز کیا  تھا مگر بی جے پی ان کی ترقی کے لیے کوشاں  ہے۔ ایسے  میں ذات پات کی بنیاد ہونے والی مردم شماری ہندوتوا کے نام پر قائم کیے جانے والے جعلی اتحاد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ اس کے بعد مختلف چھوٹے موٹے گروہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے لگیں گے اور  بی جے پی کے فرقہ وارانہ اتحادمیں سیند ھ لگ جائے گی۔ پیگاسس اور مردم شماری کے معاملات حزب اختلاف کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا وسیلہ  بن گئے ہیں۔ ممتا بنرجی نے  اپوزیشن اتحاد کی ابتداء لالو پرشاد یادو سے ملاقات کے ساتھ کی پھر سونیا  گاندھی اور  اروند کیجریوال سے ملیں۔ اس کے بعد لالو پرشاد یادو نے اتر پردیش میں جاکر ملائم سنگھ یادو کی عیادت کی۔ سیاست دان تعزیتکے لیے جائے یا عیادتکی خاطر ملے سیاست ضرور کرتا ہے۔ اسی بہانے سے نتیش کمار بھی  دہلی جاکر  اوم پرکاش چوٹالہ سے ملاقات کی  اور اب ممتا  بنرجی نے بھی نتیش کمار سے ملنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

فی الحال سیاسی بساط پردلچسپ چالیں چلی جارہی ہیں۔ بی جے پی کی  سب سے بڑی مخالف اس کے حلیف سے مل رہی ہیں۔ نتیش کمار کے سب سے بڑے دشمن چراغ پاسوان  بھی آر جے ڈی سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ امید ہے 2024کے انتخابات پرحزب اختلاف کا یہ  اتحاد مثبت اثر ڈالے اور بعید نہیں کہ  موجودہ حکمرانوں کی رعونت کو  خاک میں ملادے۔ نتیش کمار کی قلا بازی  کے سبب اگر  بہار بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل جائے تو وہ اس کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہوگا۔ دشینت چوٹالا اگر ہریانہ کے اندر  بی جے پی کو چھوڑ کرکانگریس کے ساتھ حکومت بنالے تو سارا سیاسی منظر نامہ بدل جائے گا۔ کمنڈل اور  منڈل کا سیدھا تصادم  یوگی اور  مودی کے لیے بے شمار مشکلات کھڑا کرے گا۔  اس میں شک نہیں کہ ملک کے سیاسی حالات جس تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں  اس میں کمل کا دوبارہ کھلنا دن بہ دن  مشکل  ہوتا جارہا ہے۔ کمل  والوں نے فی الحال مختلف ایجنسیوں کی مدد سے جو خوف کا ماحول تیار کررکھا ہے اور اس کا جو ردعمل ہورہا  اس پر عمیق حنفی کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎

کمل کھلاہے لکھا ہوا ہے توڑو مت

  اور مچل کر جی کہتا ہے چھوڑو مت

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔