اولمپک میڈل کو بھی مذہبی رنگ دے دیا گیا

سہیل انجم

اس وقت لکھنے کے لیے کئی موضوعات ہیں اور سبھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن چونکہ پوری دنیا اولمپک کے سحر میں گرفتار ہے لہٰذا آغاز اسی سے کرتے ہیں۔ حالانکہ آٹھ اگست یعنی اتوار کا دن اولمپک مقابلوں کا آخری دن ہے، پھر بھی اس کا ذکر بے وقت نہیں۔ اس بار اولمپک مقابلے ہندوستان کے لیے یادگار بن گئے۔ اس کی بڑی وجہ کئی طمغوں کا اس کی جھولی میں آجانا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ خوشی انڈین ہاکی ٹیم نے دی۔ خواہ وہ مردوں کی ٹیم ہو یا خواتین کی۔ 1980 کے بعد پہلی بار مردوں کی ہاکی ٹیم کو کوئی طمغہ ملا۔ خواتین کی ہاکی ٹیم اگر چہ کانسے کا طمغہ جیتنے میں ناکام رہی لیکن اس نے سیمی فائنل میں پہنچ کر ایک تاریخ رقم کی اور دلوں کو جیت لیا۔ اس کی اس کامیابی نے ہندوستانیوں کو جس مسرت سے دوچار کیا وہ برسوں یاد رہے گا۔ جبکہ مردوں کی ہاکی ٹیم نے جرمنی کو شکست دے کر کانسے کا طمغہ جیتا۔ اس کامیابی نے ہر ہندوستانی کو خوشیوں سے سرشار کر دیا۔ لیکن برا ہو سیاست کا کہ اس نے اس کامیابی کو بھی اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر ڈالی۔

وزیر اعظم نریندر مودی ددوسروں کی کامیابیوں کا سہرااپنے سر لینے کے فن میں ماہر ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی پارٹی کو بھی بالواسطہ طور پر بیچ میں لے آتے ہیں۔ لیکن بہت ہوشیاری کے ساتھ۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ انھوں نے ہاکی ٹیم کی کامیابی کو بھی سیاسی بلکہ مذہبی رنگ دے دیا۔ انھوں نے اس کامیابی پر ہاکی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے اور ایودھیا میں رام مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب سے جوڑ دیا۔ انھوں نے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کہا کہ ’دو سال قبل پانچ اگست کو ہندوستان نے دفعہ 370 کا خاتمہ کرکے ایک ملک بہتر ملک کے جذبے کو مضبوط کیا تھا۔ گزشتہ سال بھی پانچ اگست کا ہی دن تھا جب ہم نے رام مندر کی تعمیر کی جانب پہلا قدم بڑھایا تھا۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آج بھی پانچ اگست ہے اور اولمپک میں ہندوستان کے جوانوں نے ہاکی کے میدان میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی‘۔

بادی النظر میں اس بیان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کی تہہ میں اتریں اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں تو پائیں گے کہ بہت ہی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے۔ ہندوستان کی ہاکی ٹیم یا کسی بھی کھیل کی ٹیم کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہے۔ وہ پورے ملک کی ٹیم ہے اور اس کا رشتہ پوری قوم سے ہے۔ لیکن وزیر اعظم نے اس کامیابی کو دفعہ 370 کے خاتمے اور رام مندر کے سنگ بنیاد سے جوڑ کر دراصل عوام کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کس طرح ہندوتو کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور ملک کو اسی ہندوتو کی بدولت کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ان کا یہ بیان بے مقصد اور بے سوچا سمجھا نہیں ہے۔ اگلے سال کے اوائل میں اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ کسان تحریک، کرونا وبا سے نمٹنے میں ناکامی، مہنگائی، یو پی میں لا اینڈ آرڈر کی بدحالی اور اب پیگاسس کے ایشوز نے بی جے پی کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اگر یو پی نہ جیت سکے تو 2024 کے پارلیمانی الیکشن کو جیتنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ابھی سے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شکست کو ٹالا جا سکے۔

اترپردیش میں کس طرح کرونا سے بے تحاشہ اموات ہوئیں اور کس طرح دریاو ¿ں میں لاشیں تیرتی ملیں۔ شمشانوں میں چتا جلانے کی گنجائشیں ختم ہو گئیں۔ یہاں تک کہ ابھی جب بارشوں کا سلسلہ چلا تو ایک بار پھر ریت کے نیچے سے لاشیں برآمد ہونے لگیں۔ کس طرح آکسیجن اور ادویات کی قلت کے سبب لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ یہ سب عوام بھولے نہیں ہیں۔ بی جے پی کو احساس ہے کہ یہ باتیں الیکشن میں اسے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اسی لیے ابھی سے ماحول سازی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کچھ دنوں قبل اپنے حلقہ انتخاب وارانسی کا دورہ کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ کرونا سے نمٹنے میں یو پی نمبر ون رہا۔ کیا قطار اندر قطار روشن چتاؤں اور ساحل دریا پر ابلتی لاشوں کے مناظر کو یو پی کی کامیابی مانا جائے۔ اس کے بعد بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ یوگی جی نے یو پی کو ملک کی تمام ریاستوں کا قائد بنا دیا۔ چند روز کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے لکھنو ¿ کا دورہ کیا اور انھوں نے اعلان کر دیا کہ لا اینڈ آرڈر کے معاملے میں یوپی نمبر ون ہے۔ جبکہ وہاں نظم و نسق کی کیا صورت حال ہے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی آگے آگے دیکھیے کون کون کس کس شعبے میں یوپی کو نمبر ون ہونے کی سند دیتا ہے۔ ابھی تو مزید تماشے ہونے ہیں۔ ابھی تو تماشوں کا آغاز ہوا ہے۔

دراصل بی جے پی کے پاس یوگی پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اس کی وجہ ان کی ہندوتو کی سیاست ہے۔ بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کسان حکومت سے ناراض ہے۔ کرونا کی وجہ سے عوام ناراض ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کو حکومت سے شکایت ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے سامنے صرف ہندوتو کا ہی راستہ بچتا ہے۔ بی جے پی کے بعض لیڈر نجی گفتگو میں کہتے ہیں کہ اگر ہم رام مند رکا نام نہیں لیں گے۔ ہندووں سے یہ نہیں کہیں گے کہ ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا ہے۔ تو بتائیے اور کیا کہیں گے۔ حکمرانی کے محاذ پر ہمارے پاس کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہے جس کو پیش کرکے ہم عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔ بی جے پی لیڈروں کی ان باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پارٹی یوپی الیکشن میں زور شور کے ساتھ مذہبی کارڈ کھیلے گی۔ ہاکی ٹیم کی کامیابی کو ہندوتو کے رنگ میں رنگنا اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر دفعہ 370 کے خاتمے کا بھی ذکر کیا۔ لیکن اس دفعہ کے خاتمے اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے کیا کیا اس سلسلے میں انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے ایک انکشافاتی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق متعلقہ بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے خاموشی کے ساتھ کانگریس کے ایک اور سماجوادی پارٹی کے دو اراکین پارلیمنٹ سے استعفے دلوائے گئے۔ اخبار کے مطابق اس وقت تو یہ راز نہیں کھلا تھا کہ ان تین اراکین پارلیمنٹ نے کیوں استعفے دیے لیکن اب سب کچھ طشت از بام ہو گیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ چار اور پانچ اگست کی شب میں حکومت کا ایک اعلیٰ عہدے دار ایک بے نمبر کی گاڑی میں بیٹھ کر جس کو آسام کا ایک سیاست داں ڈرائیو کر رہا تھا، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ بھونیشور کلیتا کی رہائش گاہ گیا۔ یہ کارروائی اتنی رازداری سے ہوئی کہ خود کلیتا حیرت زدہ رہ گئے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں آجائیں تاکہ بل منظور ہو سکے۔ آسام سے ان کے بعض رشتے داروں کو بھی دہلی بلایا گیا تاکہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو ان کے رشتے داروں کی مدد سے ان پر دباؤ ڈلوایا جائے۔ لیکن وہ مان گئے۔ اسی طرح سماجوادی کے سریندر سنگھ ناگر اور سنجے سیٹھ کو بھی راضی کیا گیا۔

بہرحال پانچ اگست کو جب راجیہ سبھا کی کارروائی شروع ہوئی تو چیئرمین نے کلیتا کے استعفے کا اعلان کیا۔ کلیتا کانگریس کے چیف وہپ تھے۔ ان کو کانگریسی اراکین کے لیے بل کے خلاف ووٹ دینے کا وہپ جاری کرنا تھا۔ لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ ان کے استعفے کے اعلان پر کانگریس ہکا بکا رہ گئی۔ جب کلیتا سے پوچھا گیا کہ انھوں نے استعفیٰ کیوں دیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ایک طویل عرصے سے دفعہ 370 کے خاتمے کے حامی رہے ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ انھیں بل کی حمایت کرنی چاہیے۔ لہٰذا استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے اس سے انکار کیا کہ ایک رات قبل بی جے پی کا کوئی لیڈر ان کے گھر گیا تھا۔ لیکن چند ماہ کے بعد بی جے پی نے مارچ 2020 میں انھیں اپنے ٹکٹ پر راجیہ سبھا میں بھیج دیا۔ اس کا یہ قدم چغلی کھانے کے لیے کافی ہے۔ اب بی جے پی یوپی کے الیکشن میں اور 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں کشمیر کے بارے میں کیے گئے اس فیصلے کو بھی بھنانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. ساجد ذکی فہمی کہتے ہیں

    بہت ہی عمدہ تجزیہ

تبصرے بند ہیں۔