پاک دامن عورت پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ

مولانا ندیم احمد انصاری

ہر شریف انسان کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے، لیکن مَردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت و عصمت کا معاملہ زیادہ نازک ہے، اسی لیے خدا کا فضل و احسان ہے کہ آج کے اس پُر آشوب دور میں بھی خود خواتین اپنی عصمتوںکو مَردوں سے زیادہ سنبھال کر رکھتی ہیں، الا ما شاء اللہ۔ یہی سبب ہے کہ خاص عورتوں کو ذکر کرکے قرآن مجید میں پاک دامن پر تہمت لگانے کو بہت سختی سے منع کیا اور بلا ثبوت و گواہ کے ایسا کرنے والے پر اسلامی حکومت میں اسّی کوڑوں کی سزا بھی تجویز فرمائی ہے، تاکہ کوئی اس پر جرات نہ کر سکے، اسے قذف سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری بدبختی کہیے یا کچھ اورکہ ہمارے معاشرے میں کسی کی بہن بیٹی پر زنا و ناجائز تعلقات کے الزام لگانے سے ذرا خوف نہیں کھایا جاتا، حد تو یہ ہے کہ دس بیس تیس اور چالیس سالوں سے ساتھ رہنے والا شوہر جب بہت غصّے میں ہوتا ہے تو وہ بھی اپنی بیوی پر اس طرح کا الزام لگانے سے نہیں چوکتا۔ایسے انسان کو خدا سے ڈرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ خدا اپنی پوری طاقت و قدرت کے ساتھ ہر وقت سب کااحاطہ کیے ہوئے ہے، ایسا نہ ہو کہ اس کا غضب جس طرح پچھلی امتوں پر نازل ہوا، اسی طرح آپکڑے، اور تمھارے چہرے مسخ ہو جائیں، تم پر آسمان ٹوٹ پڑے یا تم زمین میں دھنسا دیے جاؤ۔کیوں نہیں سمجھتے کہ جس طرح ایک ماں اپنی لاڈلی اولاد کے خلاف ایک حرف سننے کو راضی نہیں ہوتی،خدا کی ذات بھی اپنی عیال یعنی بندوں کے خلاف کچھ سننا پسند نہیں کرتی۔اس لیے اس قہار کے قہر سے ڈرنا چاہیے۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ کسی عورت کو تہمت لگانا کوئی معمولی گناہ نہیں بلکہ بڑا کبیرہ گناہ ہے، اس میں حد درجے کی احتیاط کرنا ضروری ہے، شریعت نے اس بارے میں نہایت درجے احتیاط کی ہے۔[ملفوظات حکیم الامت]

اس احتیاط کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور بات کے محض دعوے یا شہادت پر کوئی سزا تجویز نہیں کی، لیکن پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے متعلق صاف ارشاد فرمایا:(مفہوم)اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود فاسق ہیں۔[النور]رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:سات مہلک چیزوں سے بچو، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جادو، جس جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کا سوائے حق کے قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا اور جنگ کے دن پشت پھیر کر بھاگ جانا اور غافل مومن پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔[بخاری، مسلم]

یعنی اگر واقعی جان بوجھ کر جھوٹی تہمت لگائی تھی تب تو ان کا فاسق و نافرمان ہونا ظاہر ہے اور اگر واقعی سچ بیان کیا تھا لیکن جانتے تھے کہ چار گواہوں سے ہم اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکیں گے تو ایسی بات کا اظہار کرنے سے بجز ایک مسلمان کی آبرو ریزی اور پردہ دری کے کیا مقصود ہوا، جو بجائے خود ایک مستقل گناہ ہے اور علما نے اس کو کبائر میں شمار کیا ہے۔ [تفسیرِ عثمانی]

قاعدہ یہ ہے کہ جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اولاً اس سے چار گواہ طلب کیے جائیں گے، اگر پیش کر دے تو عورت پر حدِ زنا جاری کر دی جائے گی، اگر گواہ نہ لا سکا تو اس کو کہا جائے گا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے (یعنی جو تہمت اپنی بیوی پر لگائی ہے اس میں جھوٹ نہیں بولا) گویا چار گواہوں کی جگہ خود اس کی یہ چار حلفیہ شہادتیں ہوئیں اور آخر میں پانچویں مرتبہ یہ الفاظ کہنے ہوں گے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت اور پھٹکار۔ اگر الفاظِ مذکورہ بالا کہنے سے انکار کرے تو حبس کا کیا جائے گا اور حاکم اس کو مجبور کرے گا کہ یا اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرے، تو حدِ قذف لگے گی جو اوپر گزری، یا پانچ مرتبہ و ہی الفاظ کہے جو اوپر مذکور ہوئے۔ اگر کہہ لیے تو پھر عورت سے کہا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ یہ مرد تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں دفع یہ الفاظ کہے کہ اللہ کا غضب آئے مجھ پر اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہو،تاوقت یہ کہ عورت یہ الفاظ کہے گی اس کو قید میں رکھیں گے اور مجبور کریں گے کہ یا صاف طور پر مرد کے دعوے کی تصدیق کرے تب تو حدِ زنا اس پر جاری ہوگی اور یا بہ الفاظِ مذکورہ بالا اس کی تکذیب کرے۔ اگر اس نے بھی مرد کی طرح یہ الفاظ کہہ دیے اور لعان سے فراغت ہوئی تو اس عورت سے صحبت اور داعیِ صحبت سب حرام ہوگئے، پھر اگر مرد نے اس کو طلاق دے دی، فبہا ورنہ قاضی ان میں تفریق کر دے، گو دونوں رضامند نہ ہوں، یعنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے ان میں تفریق کی، اور یہ تفریق طلانِ بائن کے حکم میں ہوگی۔[تفسیرِ عثمانی]

رہا یہ معاملہ کہ جب زنا کی شہادت کے لیے ایسی کڑی شرطیں لگا دی گئیں تو مجرموں کو کھلی چھٹی مل گئی، نہ کسی کی شہادت کی جرأت ہوگی نہ کبھی ثبوتِ شرعی بہ ہم پہنچے گا، نہ ایسے مجرم کبھی سزا یاب ہو سکیں گے ! مگر یہ خیال اس لیے غلط ہے کہ زنا کی حدِ شرعی یعنی سو کوڑے یا رجم و سنگ ساری کی سزا دینے کے لیے تو یہ شرطیں ہیں لیکن دو غیر محرم مرد و عورت کو یک جا قابلِ اعتراض حالت میں یا بے حیائی کی باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر اس کی شہادت دینے پر کوئی پابندی نہیں اور ایسے تمام امور جو زنا کے مقدمات ہوتے ہیں یہ بھی شرعاً قابل سزائے جرم ہیں لیکن حدِ شرعی کی سزا نہیں بلکہ تعزیری سزا قاضی یا حاکم کی صوابدید کے مطابق کوڑے لگانے کی دی جاتی ہے، اس لیے جس شخص نے دو مرد و عورت کو زنا میں مبتلا دیکھا مگر دوسرے گواہ نہیں ہیں تو صریح زنا کے الفاظ سے تو شہادت نہ دے مگر بے حجابانہ اختلاط کی گواہی دے سکتا ہے اور حاکم قاضی اس پر تعزیری سزا بعد ثبوتِ جرم جاری کرسکتا ہے۔ [معارف القرآن]

مختصر یہ کہ اس معاملے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے اور محض خصومت نکالنے یا کسی پر غصہ نکالنے کے لیے ایسی باتیں کہنا ہرگز ہرگز درست نہیں۔ فتاویٰ حقانیہ میں ہے کہ جو شخص کسی آزاد مسلمان مکلف اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور پھر چار گواہ پیش نہ کر سکے تو دارالاسلام میں ایسے شخص کو اسّی کوڑے لگائے جائیں گے اور شریعت میں اس کو حدِ قذف کہا جاتا ہے، بہ شرط یہ کہ قاذف (تہمت لگانے والا) آزاد ہو، اس لیے کہ غلام کو آدھی سزا دی جائے گی، یعنی چالیس کوڑے لگائے جائیں گے، البتہ اسلامی حکومت نہ ہونے کی صورت میں قاذف توبہ کرے اور مقذوف سے معافی مانگے۔ [فتاویٰ حقانیہ]

٭٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔