حقوق اطفال کنونشن کے 30 سال

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ہر سال 20 نومبر کو عالمی یوم اطفال منایا جاتا ہے۔ اس سال چائلڈ رائٹس کنونشن کو تیس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کے تمام ممبر ممالک نے(سوائے امریکہ کے) 1989 میں چائلڈ رائٹس کنونشن کو اپنے ملک میں نافذ کرنے کا عہد کیا تھا۔ اس کے تحت پیدائش سے 18 سال عمر تک کے بچوں کو 54 حقوق دیئے گئے ہیں۔ جو ہر بچہ کو ہر جگہ بلا تفریق صنف، مذہب، زبان، رنگ، علاقہ اور ملک یکساں طور پر موٹے طور پر دستیاب ہیں۔ ان میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے پر بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

حقوق اطفال کو موٹے طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سروائیول (بقا) ڈویلپمنٹ (نشو و نما) پروٹیکشن (تحفظ) پارٹی سی پیشن (شرکت)۔ بھارت نے سی آر سی کو 1992 میں اپنایا۔ یہاں 14 نومبر کو سابق وزیراعظم چاچا نہرو کی سالگرہ کو یوم اطفال(بچوں کا دن) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ بچوں کے حقوق کی پاسداری کا عہد کیا جاتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس دن اسکول کا پورا نظام بچوں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا۔ یعنی اس دن پڑھنے پڑھانے کا کام بچے اساتذہ کی نگرانی میں کرتے تھے۔ اسے ایک دن کا مدرسہ کہا جاتا تھا۔

  بچہ کا اچھی صحت کے ساتھ دنیا میں آنا بنیادی حق ہے۔ سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر بچہ الگ پراپرٹیز، جینس (صلاحیت) لے کر پیدا ہوتا ہے، یہ پراپرٹیز دوہرائی نہیں جاتیں۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز اور لانسیٹ گلوبل ہیلتھ کی اسٹڈی کے مطابق 2015 میں 48.1 ملین حاملہ خواتین میں سے 15.6 ملین عورتوں نے اسقاط حمل کرایا۔ اسقاط حمل کی شرح کے لحاظ سے دیکھیں تو 15- 49 سال عمر کی 1000 حاملہ خواتین میں سے 47 بچوں کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔ انڈیا ٹوڈے 26 جولائی 2018 کی رپورٹ کو صحیح مانیں تو بھارت میں 6.4 ملین حاملہ خواتین کا ایک سال اسقاط حمل کرایا گیا۔ جن بچوں کو رحم مادر میں مار دیا جاتا ہے۔ ان میں اکثریت بچیوں کی ہوتی ہے۔ جبکہ بھارت میں عورتوں کی کمی ہے اور بچے کی صنف کو ظاہر کرنے پر پابندی ہے۔ رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر روز 13 خواتین غیر محفوظ اسقاط حمل کی وجہ سے اپنی جان گنوا دیتی ہیں۔ حمل ضائع کرنے کا عورت پر ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کئی خواتین سنگین بیماریوں کی زد میں آ جاتی ہیں اور زندگی بھر پریشان رہتی ہیں۔ پھر ملک ہر سال جنم لینے والی کتنی ہی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

قبل از وقت پیدائش کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔ دنیا بھر میں وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک چوتھائی 23.6 فیصد بھارت میں پیدا ہوتے ہیں۔ 37 ہفتہ پورے کرنے سے پہلے پیدا ہونے کو قبل از وقت پیدائش کہا جاتا ہے۔ 28 سے 34 ہفتے کے بیچ پیدا ہونے والے بچے بہت کمزور ہوتے ہیں۔ ان کی نشو ونما پوری طرح نہیں ہو پاتی ایسے بچوں کو نیشنل انٹینسیو کیئر یونٹ (این آئی سی یو) میں رکھا جاتا ہے۔ 28 ہفتے پورے کرنے سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کا زندہ رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے لاکھوں بچے ہر سال مر جاتے ہیں۔ قبل از وقت پیدائش کی وجوہات کے معاملہ میں ڈاکٹروں کے درمیان اختلاف ہے۔ مگر کچھ باتیں مشترک ہیں،  ان میں اسقاط حمل، عدم غذائیت، گھریلو تشدد، غریبی، نشہ آور اشیاء￿  کا استعمال، زیادہ خون کا بہنا، پانی کی تھیلی کا پھٹ جانا یا خواتین کا کسی سنگین بیماری سے متاثر ہونا شامل ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ صحت مند ماں ہی تندرست بچہ کو جنم دے سکتی ہے۔

زندگی ہر بچے کا حق ہے اسی کے تحت یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ بچوں کی ولادت اسپتال میں کرائی جائے۔ تاکہ پیدائش کے دوران ہونے والی کسی بھی انہونی سے بچا جا سکے۔ بچپن میں ہونے والی بیماریوں سے بچوں کو بچانے کے لئے آنگن واڑی مراکز، کمیونٹی ہیلتھ سینٹر، پرائمری ہیلتھ سنٹر اور ضلع اسپتالوں میں حکومت مفت ٹیکہ کاری کا انتظام کرتی ہے۔ یونیسیف کی تکنیکی مدد سے ٹیکہ کاری مہم ملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے باوجود قریب 40 فیصد بچے ٹیکوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ انہیں کور کرنے کے لئے مشن اندردھنش چلایا جا رہا ہے۔ پھر بھی ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 39 کی موت ہو جاتی ہے۔ 2005 میں یہ آنکڑا 58 تھا، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں بھی کمی آئی ہے۔ نمونیا اور ڈائریا انڈر فائیو بچوں کی موت کی بڑی وجہ ہے۔ 2017 میں پہلی مرتبہ یہ تعداد دس لاکھ سے کم رہی۔ فروری 2014 میں ملک نے پولیو جیسی مہلک بیماری سے نجات حاصل کی۔ ٹٹنس، خسرہ و روبیلا سے آزادی حاصل کرنے کی طرف ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بچوں کی نشو ونما کے معاملہ میں بھی بھارت نے ترقی کی ہے۔ ہر بچہ اسکول تک پہنچے اس کے لئے حق تعلیم (آر ٹی ای) کے ساتھ مڈ ڈے میل کی یوجنا لاگو کی گئی۔ تاکہ بچوں کو پڑھنے کے ساتھ غذائیت سے بھرپور کھانا مل جائے۔ بھارت میں قریب پچاس فیصد بچے کو پوشن کے شکار ہیں۔ عدم غذائیت کی وجہ سے عمر کے مطابق ان کا وزن کم اور قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔ دماغ کی نشو ونما بھی پوری طرح نہیں ہو پاتی اس لئے وہ اسکول میں اچھا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔

بچوں کے تحفظ کا مسئلہ بھی ہمارے ملک میں سنگین ہے۔ یہاں وہاں اسکول جانے کی عمر کے بچے کام کرتے دکھائی دے جائیں گے۔ کچھ اپنے غریب والدین کی مدد کے لئے کام کرتے ہیں تو کچھ کو اغواء￿  کر کے ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ ہیومن ٹریفکنگ کی خبریں بھی اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ کچھ بچے جوکھم بھرے کاموں میں لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ فلم، سیریل اور اشتہارات کے لئے کام کرنے والے بچوں سے بھی ان کا بچپن چھن رہا ہے۔ بچوں پر آن لائن، انٹرنیٹ کے ذریعہ ابیوزنگ کے خطرات بھی روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ 2016 میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی طرح اسکول میں چائلڈ پارلیمنٹ کے تصور کو متعارف کرایا گیا۔ اس میں بچے اپنے اسکول کے مسائل اور ضروریات پر بات کرتے ہیں۔ پھر اس کے بارے میں ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل کو بتاتے ہیں۔ مہینے میں ایک بار بی ڈی او کے ساتھ ان کی میٹنگ ہوتی ہے۔ اس طرح بچے نہ صرف اپنے اسکول بلکہ اپنے گاؤں کے مسائل حل کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح جگہ جگہ چائلڈ لائن کارکنان اور رضاکار تنظیموں نے بچوں کے سیلف ہیلپ گروپ بنائے ہیں۔ ان بچوں نے اپنے علاقے کی کایا پلٹ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

عجیب یہ ہے کہ بچوں کے لئے بننے والی پالیسیوں اور اسکیموں میں ان کی رائے نہیں لی جاتی۔ بچے اسی سماج کا حصہ ہیں سماج کو بنانے کی ان کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس لئے انہیں سنا جانا چاہئے ہو سکتا ہے ان کی رائے بڑوں سے زیادہ قابل عمل ہو۔ آیئے اس یوم اطفال پر چائلڈ رائٹس کنونشن میں دیئے گئے حقوق کی پاسداری کا عہد کریں۔ کیوں کہ بچے ہی تو ہمارے کل کا مستقبل ہیں۔ اگر یہ صحت مند، مضبوط، محفوظ اور سماج کی تعمیر میں شریک ہونے کو تیار ہوں گے تبھی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا کل آج سے بہتر ہوگا۔ (یو این این)

تبصرے بند ہیں۔