الطاف حسین جنجوعہ
دُنیا بھر میں ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی ترقی کا راز تعلیم، بہترنظم ونسق اور اصول پسندی ہے۔ اِن سب میں تعلیم ابتدائی اور لازمی جز ہے جس کے بعد دیگر چیزوں کی حصولی ممکن ہے۔ دُنیا کے نقشے پر’ اسرائیل ‘ملک ایک نقطہ اِتنا دکھائی دیتا ہے۔ بحیرہ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع اسرائیل ملک کا کل رقبہ 21,937مربع کلومیٹر ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا149واں ملک ہے۔ آبادی 9,054,000لاکھ ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوار فی کس 41,948ڈالر اور مجموعی جی ڈی پی 395بلین ڈالر ہے۔ سینکڑوں کے حساب سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جودُنیا کے مختلف ممالک میں اربوں کھربوں کا منافع کما رہی ہیں۔ بینکنگ، سائنس وریسرچ، اقتصادیات، تعلیم ہرمیدان میں اسرائیلی آگے ہیں۔ عالمی سطح کے اہم اداروں کی پالیسیوں، منصوبوں میں اُن کا غلبہ ہے، بڑے بڑے سپر پاور ممالک کو اِتنی جرائت نہیں کہ وہ اسرائیل کو آنکھیں دکھاسکیں۔ یہ سب ممکن ہوا تعلیم سے۔ اسرائیل کے لوگوں نے تعلیمی طور خود کو اتنا تیار کیا ہے کہ وہ کسی سے بھی کسی بھی شعبہ میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں، بلکہ مقابلے کی دوڑ میں آگے ہیں۔
جموں وکشمیر کی بات کریں تو یہاں پر کشمیری پنڈت طبقہ صدیوں سے تعلیم یافتہ قوم سمجھی جاتی ہے اور آج بھی ہے۔ 1990کے نامساعد حالات کی وجہ سے کشمیری پنڈت گھرانوں نے وادی کشمیر سے نقل مکانی کی اورجموں، اودھم پور کے علاوہ انڈیا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں پناہ لی۔ آپ کواپنی مال وجائیداد، مکانات وغیرہ چھوڑ کر ایک یا دو کمروں میں پورے کنبہ کے ساتھ رہنا پڑے، کتنا مشکل ہوگا،یہ بس وہی بتا سکتا ہے جو اِن حالات سے گذرا ہو۔ کشمیر ی پنڈتوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا مگر اپنے بچوں کی پڑھائی کوزرا بھر متاثر نہیں ہونے دیا۔ جہاں رہائش اختیار کی، وہیں اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دلانے کے مواقعے تلاش کئے۔ اگر چہ مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے اُنہیں دی جانے والی ماہانہ مالی امداد، مفت راشن، مفت بجلی وغیرہ سہولیات نے اہم رول بھی ادا کیامگر وہ اُتنی زیادہ بھی نہیں تھی کہ وہ کھل کر اپنے پر یا اپنی اولاد پر خرچ کرتے۔ بہترین نظم ونسق اور سلیقہ سے کم کھایا، اپنے اوپر اخراجات کم کئے مگر پڑھائی کو جاری وساری رکھا۔ حکومت سے ملنے والی امداد پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اڑوس پڑوس نجی سیکٹر میں کام کے مواقعے تلاش کئے، کئی دکان پر کام کیا۔ کچھ نے نجی دفاتر، اداروں اور ہوٹلوں میں کلریکل کام انتہائی کم اُجرت پر بھی شروع کئے، کئی جگہوں پر تو ایسا بھی ہوا ہے کہ کشمیر ی پنڈتوں نے کہاکہ ہمیں بس کام کرنا ہے، کام پر رکھ لو، اُجرت اپنی مرضی سے جوچاہئے دے دیں۔ جب کام ملا تو اپنی صلاحیتوں کا ایسا مظاہرہ کیاکہ اُس دفتر، اُس ہوٹل یاپرائیویٹ اسکول کے مرکزی کردار بن گئے۔ محنت، ایمانداری، دیانتداری کی ایسی مثال قائم کی کہ چند سالوں میں کشمیری پنڈتوں کے لئے نجی سیکٹر میں روزگار کے مواقعے کھل گئے۔ بینکنگ، دواسازکمپنیوں (فارماسیوٹیکل)، انشورینس کمپنیوں، پرائیویٹ اسکولوں، پرائیویٹ کلنک، اسپتالوں، وکلاءکے چیمبرز، حتی کہ ہر جگہ وہ آپ کو دکھائی دیں گے۔ آج اگر آپ مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جموں صوبہ کے اندر سرکاری ونجی سطح پر ہرشعبہ میں آپ کو کلریکل کیڈر سے لیکر اعلیٰ عہدوں پر کشمیری پنڈت نظر آئیں گے۔ سول وپولیس انتظامیہ، عدلیہ، سپورٹس، میڈیا، ہوٹل مینجمنٹ، انڈسٹری،کاروبار میں نمایاں رول ادا کر رہے ہیں۔
آج دنیا بہت تیزی سے آگے جارہی ہے، جو ا ±س کے ساتھ نہیں چل پاتا، وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ اِس بات کو یقینی بنانے کی ضورت ہے کہ ہرکوئی پڑھے۔ ملک میں ناصرف معیارِ تعلیم بہتر ہو بلکہ خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو۔ تعلیم، نظام زندگی کا احاطہ کرتی ہے، ساتھ ہی معاشرے میں شعور ا ±جاگر کرنے اور بچوں کی اچھی تربیت میں بھی معاون ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم وہ روشنی ہے، جو اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں صنفی مساوات کا لازمی خیال رکھا جائے تاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی باشعور اور پڑھی لکھی ہوں تاکہ وہ عملی زندگی میں کچھ کرسکیں اور نسلوں کی بھی بہتر پرورش ہوسکے۔
اگر ہم اپنی قوم وطبقہ کے تئیں مخلص ہیں، اِس کی صحیح معنوں میں ترقی، فلاح وبہبودی چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ توجہ اِس بات پر دینی چاہئے کہ آپ کے گھر، اڑوس پڑوس، محلہ اور گاو ¿ں میں زیادہ سے زیادہ بچے پڑھے لکھے ہوں، معیاری تعلیم حاصل کریں۔ زیر تعلیم طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچ کر موثر اُن کی رہنمائی کریں تاکہ وہ ایک بہترین کیئرئر کا انتخاب کرسکیں۔ مزہ تو تب ہے کہ ہمارے گاو ¿ں محلہ سے ڈاکٹر بھی پیدا ہو، انجینئر بھی ہو،سول وپولیس انتظامیہ کے اعلیٰ افسران،جج، ماہرین تعلیم، دانشور، شاعر وادیب، کامیاب تاجر، تعلیم یافتہ سیاستدان بھی ہوں، تبھی جاکر ہم ترقی کے اس تیز رفتار دور کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ آج جسمانی طاقت، تلوار اور ہتھیار کی کوئی اہمیت نہیں۔ آج ذہنی طاقت اور قلم کا دور ہے۔ تعلیم وہ طاقتور ہتھیار ہے جس کا استعمال کر کے آپ ہر میدان فتح کرسکتے ہیں اور یہ ایسا ہتھیار ہے جس کو کوئی چھین نہیں سکتا۔
گاو ٔں دیہات کے اسکولوں میں طلبا کے اندراج کی شرح اگر چہ زیادہ ہے مگرآٹھویں، دسویں یا بارہویں کے بعد اسکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اچھا مکان بنانے، گاڑی خریدنے اور شادی کے لئے مالی اخراجات کا بندوبست کرنے کے لئے نوجوان جلد ہی تعلیم چھوڑ کر محنت مزدور ی کرنا شروع کر دیتے ہیں، جب اُن سے اِس کی وجہ پوچھی جائے تو یہ جواب ملتا ہے کہ پڑھ لکھ کر نوکری تو ملنی نہیں، پھر کیوں اپنے سال برباد کریں، اس سے بہتر ہے کہ آج ہی کام کاج سنبھال لیں۔ پھر بعد ازاں ایسا وقت آتا ہے کہ کاروبار اور محنت مزدوری کا دائرہ بھی تنگ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کئی تلخ تجربات سے گذرنا پڑتا ہے، ایک چپراسی کی منت وسماجت کرنی پڑتی ہے تو احساس ہوتا کہ کاش مزید پڑھائی حاصل کی ہوتی۔
اسکول چھوڑنے کی شرح کو روکنے اور نوجوانوں کو اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی ترغیب دینے کے لئے سول سوسائٹی، علاقہ کے معززین، سیاسی وسماجی شخصیات اور غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کا اہم رول بنتا ہے کہ تعلیم کے شعبہ پر خاص توجہ دی جائے۔ نوجوان کی ذہن سازی کی جائے کہ ’پہلے پڑھائی مکمل کرو ¿، پھرچاہئے جو مرضی کاروبار کرو ¿‘۔ ہرشخص میں خدا داد صلاحیتیں ہوتی ہیں، جو ہردوسر ے شخص سے مختلف ہوتی ہیں اور اِن صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کا طریقہ صرف تعلیم ہی ہے۔ دنیا میں آنے کا مقصد صرف ’روٹی، کپڑا، مکان‘ہی نہیں۔ ’ہمارے پاس اچھا مکان ہو، اچھی گاڑی ہو، اچھی شادی ہو‘….کی سوچ سے باہر نکل کر خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا میں کس مقصد کے لئے آئے اور ہم نے اپنی قوم، علاقہ یا ملک کے لئے کیا خدمات انجام دیں، میری کنٹری بیوشن کیا رہی……..؟۔ مفکر قوم سرسید احمد خان نے علی گڑھ تحریک سے مسلمانا ن ِ ہند کی تعلیم وتربیت کے لئے جوتحریک شروع کی تھی، اُسی طرز پر ہرگاو ¿ں میں سرسیداحمد خان پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُن کا خواب ابھی بھی ادھورا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر کے حالات یا مالی مسائل کی وجہ سے کوئی نوجوان تعلیم سے محروم نہ رہے۔ سب سے بہتر ین ’سرمایہ کاری اور خد مت خلق ‘پڑھائی کے لئے بچے بچیوں کی بہتر رہنمائی اور ضروری مالی امداد ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ’پہلے پڑھائی مکمل کرو ¿‘ کے نعرے کو عام کیاجائے اور اس سوچ کو فروغ دیا جائے کہ اگر آپ کو بھوک سے بھی سمجھوتہ کرنا پڑے تو کریں مگر تعلیم سے نہیں۔ آج الحمدللہ مالی حالات اتنے بھی بُرے نہیں کہ پڑھائی نہ کی جاسکے۔ حکومت کی طرف سے بھی مفت تعلیم کے لئے کروڑوں، اربوں خرچ کئے جارہے ہیں۔ ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ قوم کوعلم کے نور سے منور کرانے کے لئے ہرطرح کے وسائل کا بہتر سے بہتر استعمال اور رہبری کرنا ہے۔ جو حالات وواقعات رونما ہورہے ہیں، اُس میں اپنی بقاءکا واحد ہتھیار پڑھائی ہے، اِس کے بغیر منظرنامے سے ایسے غائب ہوں گے کہ پتہ بھی نہ چلے گا۔
تبصرے بند ہیں۔