نفوس قدسیہ

 سہیل بشیر کار

انسانی معاشرہ کی اگر کوئی اعلی مثال دیکھنی ہو تو پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب دی ہوئی معاشرت کو دیکھیں۔ عمدگی کے climax کو چھو گیا ہے وہ معاشرہ۔  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے نفوس قدسیہ پر مبنی ایسا انسانی معاشرہ نہ اس سے پہلے کبھی وجود میں آیا ہوگا اور نہ ہی شاید کبھی آسکتا ہے، اس معاشرہ کی اہم ترین خوبی زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال کا ہونا تھا، ایسے معاشرے کو بغیر دیکھے اور اس کے ہر گوشے کو مشاہدے میں لائے کسی صالح معاشرے کی تعمیر کا تصور ناممکن ہے۔

عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا صدر الدین اصلاحی لکھتے ہیں:’’ایک غیر نبی اور غیر معصوم انسان اسلام کا جو مثالی نمونہ پیش کر سکتا ہے وہ کیا ہے، اسی طرح اس مطالعہ سے یہ بھی جانا جاتا ہے کہ اونچے سے اونچا اسلامی معاشرہ، جو عالم وجود میں لایا جا سکتا ہے، اس کی تصویر کیا ہوگی، سیرت صحابہ کا مطالعہ اس پہلو سے ضروری ہے کہ اس سے متعین طور پر اس بلندی کی نشان دہی ہو جاتی ہے جہاں تک پہنچنا امکان کے دائرے کے اندر اندر ہے….. ” سیرت صحابہ پر خوب لکھا گیا ہے اور مختلف اسلوب و پیرایے میں لکھا جا چکا ہے۔ اسی سلسلے کو برصغیر کے ایک معروف عالم دین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے آگے بڑھایا ہے۔ آپ کی حال ہی میں شائع شدہ کتاب ’’ نفوس قدسیہ‘‘ اسی مبارک اور پاکیزہ معاشرہ کی چند تصاویر  پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی دور حاضر کے ایک بڑے مفکر ہیں، آپ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں، امت مسلمہ کے ہر طبقہ میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مذکورہ کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں اصحاب رسول کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے دوسرے حصے میں 11 مشہور اصحاب رسول کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

 کتاب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں: ’’ان مضامین کو تحریر کرنے کے لیے راقم نے ایک منفرد طریقہ اختیار کیا ہے، اس نے صحابہ و صحابیات کی شخصیات، خدمات اور اسوہ کو نمایاں کرنے کے لیے کتب سیر وسوانح سے زیادہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے، اور ان کی روشنی میں ان نفوس قدسیہ کی سیرتوں کے درخشاں پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، مضامین کو نمایاں کرتے وقت مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری رہی اور بعد میں بھی جب میں نے کسی مضمون کا مطالعہ کیا تو آنسوؤں کو ضبط کرنا مشکل ہو گیا‘‘۔ یہ کتاب دل سے لکھی گئی ہے، لہٰذا کتاب پڑھ کر قاری کے دل میں ایک خوشگوار تبدیلی واقع ہو نے کا قوی امکان ہے۔ پہلے مضمون ’’صحابہ کا تعلق بالقرآن‘‘ میں مصنف لکھتے ہیں کہ عرب کے لوگوں میں جو عظیم تبدیلی واقع ہوئی اس کا سبب ان کا تعلق بالقرآن ہے۔ قرآن نے ہی ان کی کایا پلٹ دی، مصنف نے تلاوت قرآن، تدبر قرآن، حفظ قرآن، عمل بالقرآن، تعلیم قرآن کے سلسلے میں کئی واقعات درج کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا تعلق بالقرآن کیسا تھا۔ دوسرے مضمون ’’صحابہ کا شوق علم‘‘ پر مصنف نے خوب روشنی ڈالی ہے، ساتھ ہی تحصیل علم کے طریقے بھی بتائے ہیں، اصحاب رسول جانتے تھے کہ تعلیم ہی سے کامیابی ممکن ہے لہٰذا وہ اس سلسلے میں ہمیشہ آگے آگے رہے ہیں۔ کتاب کا تیسرا مضمون ہے ’’صحابہ کرام کے معمولات رمضان‘‘، اس مضمون میں صاحب کتاب نے صحابہ کے معمولات رمضان کو اجاگر کیا ہے۔ اس باب کے مطالعے سے قاری کو رمضان گزارنے کے سلسلہ میں تفصیلی رہنمائی ملتی ہے۔

دین اسلام اپنے پیروکاروں میں جذبہ انفاق پیدا کرتا ہے، صحابہ کرام میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ اسی جذبے کو مصنف نے اپنے چوتھے مضمون میں کئی خوبصورت واقعات کی روشنی میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ امت کی ماؤں کا مصنف نے خوب تذکرہ کیا ہے اور خاص کر فروغ علم میں ان کے کارہائے نمایاں کو مصنف نے اس کتاب کے پانچویں مضمون میں بہترین اسلوب میں پیش کیا ہے۔ اس باب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں کس طرح خواتین معاشرہ کی تعمیر میں اپنا رول ادا کرتی تھیں،مصنف نے امہات المومنین کے کئی واقعات درج کیے ہیں جن سے نہ صرف فروغ علم کے سلسلہ میں ان کی جدوجہد کا پتہ چلتا ہے بلکہ اصلاح امت کے سلسلہ میں بھی ان کا رول معلوم ہوتا ہے۔ ان ہی واقعات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: ’’ایک شخص حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا، اے ام المومنین بعض لوگ ایک شب میں دو دو تین تین بار مکمل قرآن پڑھتے ہیں، فرمایا ان کا پڑھنا یا نہ پڑھنا برابر ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات نماز میں کھڑے رہتے، لیکن سورہ البقرہ، سورہ آل عمران اور سورہ النساء سے آگے نہیں بڑھتے، آپ جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتے تو اللہ سے دعا مانگتے اور جب کسی وعید کی آیت پر پہنچتے تو اللہ سے منع مانگتے۔ (مسند احمد) (صفحہ 100)

کتاب کے دوسرے باب میں دس صحابہ اور ایک صحابیہ کا تذکرہ کیا گیا ہے،ان مضامین میں صحابہ کرام کی زندگیوں کے مختلف گوشوں کو بیان کیا گیا ہے،  ہرصحابی کا ذکر دل کو چھولینے والے کسی واقعے سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ ایسے شروع کیا گیا ہے :

’’بوڑھے کی آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک آگئی، اس کی آواز بڑی نحیف تھی اور اس میں لڑکھڑاہٹ بھی تھی، اپنے جسم کی پوری قوت جمع کرکے وہ یوں گویا ہوا:کیا تم لوگ میری آخری خواہش پوری کرو گے؟‘‘

مجلس میں تمام موجود لوگ، جو اس کی عیادت کے لیے آئے تھے، سراپا گوش بن گئے۔ اس نے اپنا کان اس کے منھ سے قریب کرتے ہوے کہا:’’آپ فرمائیں، ہم اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے‘‘۔

بوڑھے کے چہرے پر رونق آگئی ۔ اس نے کہا کہ’’میری خواہش ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو شہ سواروں کی ایک جماعت میری نعش کو لے کر دشمنوں کی سرزمین میں گھس جائے اور جہاں تک ممکن ہو گھستی چلی جائے، پھر جس جگہ سے آگے بڑھنا اس کے لیے ممکن نہ ہو، وہاں نعش کو دفن کرکے واپس آجائے‘‘۔

ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا، سالار لشکر نے اس خواہش کی تکمیل کا وعدہ کیا تو بوڑھے کے چہرہ پر طمانیت پھیل گئی، یہ بزرگ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری، سالار لشکر یزید بن معاویہ تھے اور موقع رومیوں کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر فوج کشی کا تھا ۔(صفحہ 146)

اس کے بعد اس صحابی کی زندگی پر روشنی ڈالی جاتی ہے، قبول اسلام سے لے کر انتقال تک کے واقعات کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، اور اس صحابی کی خاص خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، صحیح بخاری کے حوالے سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار صحابہ کا نام لیا ہے اور دیگر صحابہ کو ان سے قرآن سیکھنے کی تاکید کی ان میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا درجہ سب سے بڑا ہے (صفحہ 120)، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ جو قبل از اسلام عیش وعشرت کی زندگی گزارتے تھے لیکن اسلام لانے کے بعد انہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، ان کی تدفین کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں :’’شہدائے احد کی تکفین و تدفین کا مرحلہ آیا جس نے تمام صحابہ کرام کو آبدیدہ کر دیا – حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ کے کفن کے لیے ایسی چادر مہیا تھی جو اتنی چھوٹی تھی کہ اگر اس سے ان کا سر ڈھاکا جاتا تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھاکے جاتے تو سر کھل جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا:سر ڈھک دو اور پیر پر ازخرنامی گھاس ڈال دو (صفحہ 128)۔ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مہم میں سخت مصائب برداشت کیے یہاں تک ہر فوجی کو دن میں صرف ایک کھجور ملتا تھا۔ جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے جب ایک شاگرد نے پوچھا کہ آپ ان حالات میں کیسے کام چلاتے تھے، حضرت نے جواب دیا ’’ہم اس کھجور کو اس طرح چوستے تھے جیسے بچے چوستے ہیں، پھر ڈھیر سارا پانی پیتے تھے، یہ ہمارے لیے رات تک کفایت کر جاتا تھا – اور ہم اپنے ڈنڈوں سے درختوں کے پتے جھاڑتے تھے، پھر انھیں پانی میں بھگو کر چبالیتے تھے۔ (صحیح مسلم ،صفحہ 172)

اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ مضمون کے آخر میں صاحب کتاب نے قاری کے لیے کوئی نہ کوئی سبق ضرور بیان کیا ہے۔ مصنف حضرت اسامہ بن زید کے واقعہ کے بعد لکھتے ہیں: ’’حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ اس کے باوجود آپ ان سے اور ان کے باپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، یہ اسوہ ہمارے سامنے روشن مثال پیش کرتا ہے کہ ہمیں اپنے خادموں اور ان کے بچوں سے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے‘‘۔ (صفحہ 168)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں :’’سب سے نمایاں پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مال داری ضروری نہیں، غریب سے غریب مسلمان بھی تقرب حاصل کر سکتا ہے، دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کو اپنے مشن پر نظر رکھنا ضروری ہے، تاکہ بھوک، پیاس، غربت، تنگ حالی، راستے کی مشقت اور دیگر پریشانیاں اس کی راہ کھوٹی نہ کرسکیں، مقصد سے عشق اور اس کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد اس کی پہچان ہونی چاہیے، تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ کہ سربراہ کا تعلق اپنے تمام مامورین کے ساتھ یکساں ہونا ‘‘۔(صفحہ 178)

کتاب کے آخری مضمون میں صاحب کتاب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فہم قرآن پر کچھ سطریں تحریر کی ہیں۔ اور اس ضمن میں کئی ایسے واقعات بیان کیے ہیں جن سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے عمیق فہم قرآن کا پتہ چلتا ہے۔ کتاب کی زبان اعلی اور عام فہم ہے،امید ہے کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ کتاب ہدایت پبلشرز (فون نمبر 09891051676)سے خریدی جا سکتی ہے۔

1 تبصرہ
  1. حبیب الرحمٰن صدیقی کہتے ہیں

    اس تبصرہ نے کتاب تک رسائی کا شوق تیز کردیا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔