کاش تریاق تیرگی لے کر
مقصود عالم رفعت
کاش تریاق تیرگی لے کر
کوئی آئے تو روشنی لے کر
…
بے کسی اور بے بسی لے کر
ہم کدھر جائیں مفلسی لے کر
…
ہمکو دے جائے گی دغا آخر
کیا کریں ایسی زندگی لے کر
…
کون خاطر میں تم کو لائے گا
جارہے ہو جو سادگی لے کر
…
شہر تیرا کسے گوارا تھا
آگئی مجھ کو بے خودی لے کر
…
کچھ خبر ہی نہیں کہاں آخر
مجھ کو جائے گی عاشقی لے کر
…
دشت و صحرا میں میں بھٹکتا ہوں
ایک عرصے سے بے کلی لے کر
…
دل کی روداد تھی سنانی مجھے
آگیا سو میں شاعری لے کر
…
اس نے مانگا تھا صرف دل رفعت
اور آیا میں جان بھی لے کر
تبصرے بند ہیں۔