کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

ادریس آزاد

سرد جنگ سے پہلے نظامِ سرمایہ داری کے خلاف ایک بہت بڑی انسانی آبادی برسرپیکارتھی جسے ہم کمیونسٹ دنیا کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن یہ پوری انسانی تاریخ سے ثابت ہے کہ کسی بھی مزاحمت کار کے بالمقابل آخرکو جیت ہمیشہ نظامِ سرمایہ داری کی ہی ہوتی ہے۔

ایک زمانے تک نظام سرمایہ داری کو عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے مذہبی پیشوائیت کی تائید درکار ہوا کرتی تھی، لیکن اب نہیں۔ جب تک عامۃ الناس کے سوالوں کے جوابات مذہبی پیشواؤں کے پاس تھے تب تک پیشوائیت اُن سے افضل ہونے کے ناطے ان کے دردوں کا مداوا تھی۔ پھر یوں ہوا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے مذہبی پیشواؤں کی جگہ لے لی۔ پیشوا عصری علوم کے حوالے سے اپنے ہی مقتدیوں سے پیچھے رہ گئے اور یوں مقتدیوں کے سوالات کے جوابات جو تجوری اُن کی کارساز ہوا کرتی تھی خالی ہوگئی۔

اب جب کوئی بھی مدمقابل نہیں رہا تو کچھ عشروں سے نظامِ سرمایہ داری کھل کر کھیل رہاہے۔ نظامِ سرمایہ داری کی ایک بڑی پکی عادت ہے اور اِسی عادت کو دیکھ کر بڑے آرام سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتاہے کہ یہ نظام ضرور ابلیسی نظام ہے۔ اس کی سب سے پکی عادت یہ ہے کہ یہ کبھی بھی کسی کو دوست نہیں بناتا۔ دوست، مطلب دوست۔ یعنی دل کا یا جگر کا رشتہ۔ مذہبی پیشوائیت کے ساتھ اِس نظام کا گٹھ جوڑ فرعون کے زمانے سے چلا آرہاتھا۔ لیکن فی زمانہ جب پیشوائیت پوری طرح ’’بیچاری‘‘ ہوگئی تو اس نظام نے اُس کے ساتھ ناطہ توڑلیا۔ بلکہ اس کے سب سے بڑے حریف یعنی دہریت کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ ڈاکنزم ون ہنڈرڈ پرسنٹ نظامِ سرمایہ داری کا بویا ہوا ایتھیزم ہے جسے میں ڈاکنزم کہا کرتاہوں۔

میدان اکیلا مل گیا تو نظامِ سرمایہ داری کیسے کھل کر کھیلا، اس کا جائزہ لینا چنداں مشکل نہیں۔ میں یہاں فقط ایک اور وہ بھی نہایت چھوٹی سی مثال دے کر اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہتاہوں۔امریکہ اور یورپ کے دیگر بڑے بڑے ممالک میں گھریلو خواتین کو انٹرنیٹ پر ایک جاب ملتی ہے جس کی آمدن نہایت معقول بلکہ معقول سے قدرے سے زیادہ ہے۔ وہ جاب کیا ہے؟ آپ کو کسی ویب سائیٹ پر ایک فارم بھرنا ہوتاہے جس میں آپ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ آپ کو کیا کیا پسند ہے اور کیا کیا ناپسند ہے۔ آپ کرسمس پر کس قسم کا لباس بنوانا پسند کرتی ہیں؟ آپ کے گھر میں کیا کیا زیادہ پکتاہے؟ ہفتے کے کس دن کیا چیز پکتی ہے اور کب باہر جاکر کھانا کھاتے ہیں۔ آپ جوتے کون سے پہنتے ہیں۔ پچھلے بارہ سالوں میں کون کون سے جوتے آپ نے خریدے۔ اپنے کپڑوں کی خریداری کی تاریخ بتائیں۔ کتابیں پڑھتی ہیں یا تحفہ دیتی ہیں۔ الغرض فارم پُر کرنے والا چودہ پندرہ صفحات پر مشتمل ایک فارم جب پُر کرکے سینڈ کردیتاہے تو اسے دس سے ستر ڈالر تک پیسے مل جاتے ہیں۔ آپ دن بھر ایسی بہت سی ویب سائیٹس پر اپنی پسند ناپسند بتاتے جاتے ہیں اور آپ کو بھاری رقوم ملتی جارہی ہیں۔ ایسا وہ کیوں کرتے ہیں؟ کون اتنے پیسے خوامخواہ دیتاہے؟ لیکن جب کرسمس کے دن آپ کے دروازے پر آپ کی پسند کے کپڑے دینے والا آپہنچتاہے یا آپ نے گھر کے لیے جس شیڈ کا پینٹ پسند کیا ہے، وہ پینٹ کا ڈبہ لے کر کوریئر دروازے پر آپہنچتا ہے تو تب آپ کو اندازہ ہوتاہے کہ وہ فارم کیوں بھرا تھا۔ یہ صرف کوئی ایک سائیٹ اکیلے نہیں کرتی۔ بہت سے کارپوریٹس ایک دوسرے کو معلومات فروخت کرتے اور اپنے مرکز کو مضبوط سے مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہم فیس بک پر دیکھتے ہیں، سٹیٹس والی جگہ لکھاہواہے، وٹس آن یور مائینڈ‘‘ یعنی جو کچھ ہمارے مائینڈ میں ہے وہ لکھ دیں۔ یوں ہمارا سارا اعمال نامہ چند ہی سالوں میں فیس بک پر صفح درصفحہ چھَپ جاتاہے اور جن کو اِس کی ضرورت ہے وہ اِسے خریدنے سے بھی باز نہیں آتے۔

سوال یہ ہے کہ نظامِ سرمایہ داری کیوں بُرا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس لیے، کیونکہ یہ نظام ظلم اور استحصال کی بنیادوں پر استوار ہوتاہے۔ اس پر مکرر سوال ہوتاہے کہ کیسے؟ کیونکہ بظاہر عہدِ حاضر کا نظامِ سرمایہ داری کسی انسان کی گردن میں لوہے کا طوق نہیں پہناتا۔ آج کا نظامِ سرمایہ داری تو گھر گھر روٹی پہچانے کا انتظام کرتاہے۔ گاؤں والوں سے جاکر پوچھیں جہاں حاملہ عورتوں کو این جی اوز والی خواتین مفت آٹا، دیسی گھی، اور گولیاں دے جاتی ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہی تو انسانوں کو انسانوں سے جدا کرنے کا مناسب ترین طریقہ ہے۔ وہ بھی وقت تھا جب پِنڈ کے چودھری کا مہمان خانہ پورے گاؤں والا کا مشترکہ مہمان خانہ ہوتاتھا۔ جب لَسّی سب کی سانجھی ہوتی تھی۔ جب کاغذ کے چند ٹکڑوں کے ساتھ پاگل پن کی حدتک انسانوں کو لگاؤں پیدا نہیں ہوا تھا۔ آج وہ سب کچھ کس قسم کے ارتقا ٔ کے ساتھ بدل گیا؟

آنے والے کل کا منظر بھی بالکل واضح ہے۔ اگر سیّارہ زمین کو واقعی ماحولیات کا خطرہ لاحق ہے تو یقیناً یہ چند لوگ جو دولت کا مرکز ہیں، کسی علحیدہ کشتی میں باہر نکل جائینگے۔ خلا میں کہیں اپنا مصنوعی سیّارہ آباد کرلینگے۔ تب شاید زمین پر بچ جانے والے انسان جہنمیوں کی طرح زقوم کھا اور پِیپ پی پی کر مرجائیں۔ دنیا کے ہر ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ نظامِ سرمایہ داری ہمیشہ طاغوت کا نمائندہ رہاہے اور اس نظام کے خلاف اُٹھنے والا، لڑنے والا، مقابلہ کرنے والا مزاحمت کار کہلاتاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔