خُوگَرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

مولانا سیّدآصِف ندوی

اس وقت پوری دنیا میں اسلام دشمن قوتیں اور اسلام دشمن عناصر اسلام اورشعائر اسلام کوجس پہلواور زاویے سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کررہے ہیں، ان میں سب سے کامیاب ترین اور آسان ترین پہلو یہ ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں اور عوام الناس کو شعائر اسلام (نماز، روزہ، حج، زکوۃ)اور مقامات مقدّسہ (خانۂ کعبہ، مسجد نبوی، مسجد اقصی، مساجد، مدارس و مکاتب اور خانقاہوں ) اور مقدس شخصیات (علماء کرام، حفاظ عظام اورمذہبی اسکالروں ) کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلاء کرکے اور ان کی عظمت، تقدس اور عزت ووقارکو ان سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں سے ختم کرکے انہیں کسی طرح دین و مذہب سے برگشتہ ومتنفر کیا جائے۔ موجودہ دور میں نہ صرف ہمارے ملک بھارت میں بلکہ پورے عالم اسلام میں ہرسُو پائی جانے والی مذہب بیزاری و خدا ناشناسی اور الحاد و لا دینیت کی عمومی فضا کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ دشمنانِ اسلام اور اسلام دشمن عناصر اپنی ان مذموم و قبیح سرگرمیوں میں نہ صرف خاطر خواہ بلکہ بے پناہ کامیاب بھی ہورہے ہیں۔  اور اس دجالی عہد میں جب سے یہ سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے تب سے تویہ کیفیت ہے کہ مسلمانوں کو شعائر اسلام، مقامات مقدسہ اور مقدس شخصیات اورخصوصا علماء و حفاظ اور مدارس و مکاتب سے بدگمان کرنے کے لئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے۔

یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ہمارے مسلم سماج اور معاشرے میں ایک بڑاطبقہ ایسا ہے جو سوشل میڈیا کے استعمال پر مہارت نہیں بلکہ صرف معمولی سی شدھ بدھ حاصل ہوتے ہی سب سے پہلے علماء و حفاظ کرام کی اصلاح کرنا اور انہیں راہ راست پر لانا اپنا سب سے بڑا دینی ایمانی اور اخلاقی وانسانی فریضہ سمجھتا ہے، اور پھر اس اصلاح کی خاطر وہ ان وارثینِ انبیاء کی شان میں گستاخی کرنا، انہیں بے عزت کرنے کی کوشش کرنا، ان کی تحقیر و تذلیل کرنا، ان کا مذاق بنانا اور تمسخر کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔  حیرت ہوتی ہے کہ یہی مصلحینِ آعظم  ایک طرف تو خود اس بات کا زبانی اعتراف کرتے نہیں تھکتے کہ تا قیامت امت مسلمہ کی دینی ملی اور سیاسی و سماجی قیادت کا فریضہ صحیح طورپر قرآن وحدیث کی روشنی میں صرف علماء کرام ہی انجام دے سکتے ہیں !  لیکن دوسری طرف عملی طور پر یہی طبقہ  علماء و حفاظ کرام کے گریبان پر دست درازی کرنے اور ان کی توہین و اہانت  کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش رہتا ہے۔  کچھ افراد ان میں وہ ہوتے ہیں جو عمومی ماحول اورعام چلن کی وجہ سے محض اپنے آپ کو دانشور، تعلیم یافتہ، اور مہذب وموڈرن باور کرانے کے شوق میں لاعلمی  و ناسمجھی کی وجہ سے اس عاقبت نا اندیشی کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اُن علماء و حفاظ کرام پر جو ان کی سوچ و فکر، خیالات و نظریات اور مکتب فکر سے متفق نہیں ہوتے ہیں یا دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ ان کے کسی پیر ومرشد یا محبوب و پسندیدہ شخصیت سے کسی طرح کا فکری یا علمی اختلاف رکھتے ہیں لعن طعن کرنا، زبان درازی یا دست درازی کرنا، ان کی کردار کُشی کرنا، بلا تأمل انہیں علماء سوء کے کٹہرے میں کھڑے کرنا، انہیں کفاروں اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینا، ان کی خانگی و گھریلو زندگی کی ٹوہ میں لگے رہنا اپنا سب سے بڑا مسلکی فریضہ اور کار ثواب سمجھتے ہیں۔  اور ہائے کیا کہوں اور کس طرح کہوں، کاش آپ کو یہ بتانے سے پہلے میرا قلم خشک ہوجاتا اور وہ اس تکلیف دہ حقیقت کو رقم کرنے کے قابل نہ رہتا کہ وطن عزیز میں کچھ جماعتیں اور تنظیمیں ایسی بھی ہیں جواگرچہ دین و اسلام اور انسانیت کی خدمت کا دعوی کرتیں ہیں اور الحمدللہ ہمیں اس بات کا اعتراف بھی ہیں کہ وہ جماعتیں اور تنظیمیں مختلف میدانوں میں کافی گراں قدر و قابل ستائش خدمات انجام بھی دیتیں رہتیں ہیں، تاہم اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سماجی طور پر متحرک و سرگرم جماعتوں اور تنظیموں سے  وابستہ افراد کے دلوں کی نرم زمین اور کشتِ سادہ میں نائبینِ انبیاء اور وارثینِ نبی آخرالزماں ﷺ کی نفرت اور بغض کی تخم سازی کا ایمان سوز کام مسلسل کیا جاتا ہے۔ ان تنظیموں اور جماعتوں کی کوئی محفل اور نشست ایسی نہیں ہوتی ہے جس میں یہ خود ساختہ تعلیم یافتہ، مہذب اور موڈرن حضرات اپنی دانست میں علماء کرام کی جہالت، پسماندگی، ان کے ناکارہ پن، اور دین و مذہب کے نام پر قوم و ملت کو بے وقوف بنانے اور مدارس و مکاتب کے نام پر زکوۃ حاصل کرکے اپنے خفیہ محل تعمیر کرنے پر تبصرے نہ کرتے رہتے ہو۔ علماء وحفاظ کرام کے متعلق عوام کا یہ رویہ اور خودساختہ مہذب و موڈرن افراد کی یہ روش اور ان کا یہ طرز فکر و عمل کسی حد تک علماء و حفاظ کرام کے حقیقی منصب و مقام سے ناواقفیت کی وجہ سے بھی ہے۔

اس وقت ملت اسلامیہ ہندیہ جس صورت حال سے دوچار ہے اور اس کو جن فتنوں کا سامناہے اس سے ہر شخص واقف ہے، دیہاتوں اور قصبات میں بلکہ شہروں میں بھی متعدد باطل و گمراہ جماعتیں، تنظیمیں، اور فرقے (عیسائی، قادیانی، شکیلی) غریب و سادہ لوح مسلمانوں کو عیش وعشرت کے اسباب فراہم کرکے اور پُرکشش وعدوں کے ذریعے اپنے دام مکر و فریب میں پھنسانے کی کامیاب کوششیں کررہے ہیں۔  ان حالات میں عوام کا علماء سے دور ہونا یا علماء کے متعلق بدگمان ہونا، اور ان کے منصب و مقام سے نا واقف ہوکر ان کی اہانت و تخفیف کا مرتکب ہونا ملت کے لئے کسی بھی طرح سم ّ  قاتل سے کم نہیں ہے۔ علماء و حفاظ کرام نہ صرف دین اسلام کی کشتی کے ناخدا اور کھیون ہار ہیں بلکہ وہ انبیاء کرام کی بیش بہا دولت و وراثت علوم دینیہ کے وارث و امین ہیں، خالق کائنات نے اپنے دین کی حفاظت اس مقدّ س طبقہ کے ساتھ وابستہ کر رکھی ہے، اور سب سے اہم اور بنیادی بات یہ کہ علماء کرام امّت محمدیہ اورپیغمبر آخر الزماں محمد الرسول اللہ  ﷺ کے درمیان انتہائی مضبوط و باوثوق واسطہ ہے،  امّت کے علماء سے تعلق، محبت اور حسن ظن میں جتنی کمی آتی جائیگی امّت کا نبی اکرم ﷺ سے بھی تعلق اتنا ہی کم اور کمزور ہوتا چلا جائیگا۔ خدا غریق رحمت کرے شاعر کو کہ اس نے علماء کے منصب و مقام کی کیا صحیح ترجمانی کی ہے :

خدا  یاد  آوے جن کو دیکھ کر  وہ  نور کے پتلے

نبوت  کے  یہ  وارث ہیں یہی  ظل  رحمانی

ان  ہی کی  شان کو  زیبا  نبوت کی وراثت ہے

ان  ہی کی  اتقاء  پر  ناز  کرتی  ہے  مسلمانی

یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے  عبادت پر

ان  ہی  کا  کام  ہے  دینی  مراسم  کی نگہبانی

ان تمام فضیلتوں کے باوجود علماء کرام کی اس بے توقیری، عوام کی ان پر بے اعتمادی و بد گمانی اوران سے دوری کا اگر ایک بنیادی سبب عوام کی ان کے منصب و مقام سے عدم واقفیت اور اسلام دشمن عناصر کی کوششیں اور سازشیں ہیں تو وہیں دوسری طرف ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ کسی حد تک خود علماء کرام بھی اس کے ذمّہ دار ہیں،  ایسی صورت حال میں علماء  و حفاظ کرام کواپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، خود اس ذات گرامی قدر کا جس کے علماء کرام وارث ہیں فرمان مبارک ہے  الکیس من دانا نفسہ عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کا جائزہ لیتا رہے۔

مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں کوئی محقق یا تجزیہ نگار نہیں ہوں، بلکہ میں اپنے آپ کو دیگر علماء و حفاط کرام سے پہلے اور ان سے کئی گُنا زیادہ اپنی اصلاح کا حقدار اور محتاج سمجھتا ہوں، تاہم دینی و ایمانی خیرخواہی کے ناطے چند وہ اسباب پیش کرتا ہوں جو میری ناقص فہم میں عوام کے علماء سے بدگمانی یا دوری کا سبب بنتے ہیں۔

1۔ قول و فعل میں تضاد:

عام طور پر عوام الناس علماء و حفاظ کرام کے قول و فعل میں تضاد اور ظاہر و باطن میں عدم یکسانیت کا شکوہ کرتے رہتے ہیں  بقول حضرت اکبر الہ آبادی مرحوم  :

خلاف شرع کبھی شیخ  تھوکتا  بھی  نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

اور یہ حقیقت ہے کہ عوام کا یہ شکوہ بالکل درست اور بجا ہے، بلکہ انہیں شکوہ کرنے کا  پورا حق حاصل ہے اس لئے کہ انہوں نے علماء کرام ہی سے سن رکھا ہے کی منافقت شرک سے بھی بڑھ کر بدترین اور ہلاک کرنے والی عادت ہے۔ بھلا قول وفعل سے بڑھ کر بھی کوئی اور منافقت ہوسکتی ہے!۔

2۔ غیر اخلاقی حرکات و بدکرداریاں:

  سب نہیں تاہم چند نام نہاد و خودساختہ و غیرسند یافتہ ہوس پرست علماء و حفاظ کی غیراخلاقی و غیرشرعی حرکات اور بدکاریوں کے جو قصّے اورواقعات گذشتہ ایک عرصے سے سوشل و پرنٹ میڈیا پر پڑھنے اور دیکھنے میں آئے ہیں ان سے بھی عوام کا علماء پر اعتماد بہت بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس نوعیت کے مذموم واقعات کے سدّباب اور تدارک کے لئے مخلص و ذی اثرا ور صاحب رسوخ علماء کرام کو سنجیدگی سے کوئی عملی اقدام کرنا ہوگا۔

3۔ منبر و محراب کا غلط استعمال:

   امت مسلمہ کی اصلاح اور سماج و معاشرہ کی بے دینی و اخلاقی بگاڑ کو ختم کرنے اور نوجوانوں میں دینی و ایمانی روح پیدا کرنے میں منبر و محراب اور اس سے کیئے جانے والے خطبۂ جمعہ کا نہایت ہی اہم رول ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات کچھ نادان دوست علماء کرام اس منبرو محراب کے ذریعے فروعی فقہی اختلافات کو بیان کرکے مسلکی تعصب اور منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتے ہیں جس سے سنجیدہ و حسّاس افراد نہ صرف بے چینی محسوس کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے علماء کرام سے دور رہنے ہی میں اپنے دین و ایمان کی سلامتی محسوس کرتے ہیں۔

4۔ حسد و رقیبانہ کش مکش:

  یہ بات بڑی جسارت کے ساتھ زبان قلم پر لارہا ہوں کہ آج ہمارا طبقۂ علماء اس مرض میں بہت بری طرح ملوث ہے۔ عام طور پرہم علماء و حفاظ کی نجی مجلسوں اور نشستوں میں معاصر و ہم پیشہ علماء و حفاظ کی کردار کُشی اور انہیں اپنے سے کم علم و فروترثابت کرنے کی باتیں اخلاص اور خیرخواہی و ہمدردی کے خوشنما پیرائے میں کی جاتی رہتی ہیں،  بسا اوقات ان مجلسوں میں علماء کے قدردان عام افراد بھی موجود ہوتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ علماء کرام جو ہر وقت اللہ کے فضل اور بڑوں سے کسب فیض کی باتیں کرتے رہتے ہیں کس طرح ابوالفضل اور فیضی کا کردار ادا کر رہے ہیں تو ان کا  طبقۂ علماء سے بدگمان ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔ اللہ حفاظت فرمائے یہ مرض اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ معاصرین کی کردار کُشی اور انہیں فروتر ثابت کرنے کا عمل محض نجی محفلوں تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ اگر کسی معاصر عالم یا حافظ میں کوئی غلطی یا خامی نظر آجائے  (جو ہر انسان سے ہوسکتی ہے، معصوم عن الخطاء تو صرف انبیاء ہی تھے) تو اس کو رسوا کرنے کیلئے قدیم و جدید تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کواستعمال کرکے اس غلطی کا ڈھنڈورا پیٹنا دین و شریعت کے تحفظ کا سب سے اہم فریضہ سمجھتے ہیں۔

5۔ عوام کی محبت و عقیدت کا استحصال:

   ہمارے معاشرے میں عام طور پر عوام علماء کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہے، کچھ ان کے منصب و مقام سے ناواقف ہوتے ہیں تو کچھ اندھی عقیدتوں کا شکار بھی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عالم دین اور خصوصاً امام مسجد خواہ  وہ کسی درجہ اور مقام کا ہواس کا اپنا ایک حلقۂ ارادت و محبت بن ہی جاتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مفاد پرست علماء  ان سادہ لوح و مخلص ارادت کیشوں اور عقیدت مندوں کے سامنے اپنی پارسائی کا ڈھونگ رچ کر اور اپنی آستینوں میں پوشیدہ ید بیضا اور مخفی صلاحیتوں کا اور بزعم خود اپنی دینی بصیرت و علمی رسوخ کا ذکر کر کے اپنے گھریلو مسائل و ضروریات کی یکسوئی و تکمیل اور ذاتی مفادات کے لئے ان عقیدت مندوں کانہ صرف استحصال کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اپنے حریفوں کی تأدیب و تغسیل اور ان کی ظاہری و باطنی اصلاح و مرمّت کا کام بھی اپنے ان عقیدت مندوں کے قوت بازوسے لینا اپنے منصب و مقام کا حق سمجھتے ہیں۔

6۔ ذوق خود نمائی و فساد نیّت:

   علماء کرام کو ہر جمعہ منبر و محراب سے عوام کومخاطب کرنے کاسنہری موقعہ ملتا ہے، اگر کبھی کوئی بات یا بیان لوگوں کو زیادہ پسند آجائے  تو ایسے موقعوں پر بجائے اس کے کہ ہم اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کریں ہمارے ذہنوں میں یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے کہ بیان میں یہ حسن و خوبی اور لہجے میں یہ شگفتگی و شوخی میری اپنی صلاحیت وقابلیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، ورنہ شہر بھر میں اور بھی علماء کرام موجودہیں اور ان کے پاس بھی کتابوں کا کافی ذخیرہ موجود ہے لیکن پھر بھی وہ میری طرح اپنے ما فی الضمیر کو ادا نہیں کرسکتے، یہ خوش فہمی اور یہ شیطانی وسوسہ ہمیں ہر وقت اور ہر مجلس و اجلاس میں اپنے آپ کو نمایا کرنے اور دوسرں کی تحقیر کرنے یا تجاہل عارفانہ اختیار کرنے پرآمادہ کرتا رہتا ہے۔ یہ وہ عادت قبیحہ ہے جو زیادہ دنوں تک مخفی نہیں رہ سکتی۔ لوگ جان جاتے ہیں کہ یہ شخص نام و نمود اور مقام و مرتبہ کا خواہشمند ہے،  رسالت مآب ﷺ کا فرمان مبارک ہے کی جس نے علم اس لئے حاصل کیا کہ اس کے ذریعے دوسرے علماء سے مقابلہ آرائی کرے یا نادانوں اور جاہلوں سے بحث و مباحثہ کرے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے اپنا لوہا منوائے تو اللہ رب العزت ایسے علماء کو جہنم رسید کرے گا۔

عوام کے علماء سے تنفر اور دوری کے یہ چند اسباب ہیں جس کو اس عاجز نے حالات کے پیش نظر بڑی ہمت اور جسارت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اور بھی بہت سارے اسباب ہو سکتے ہیں لیکن یہ مختصر آرٹیکل زیادہ  بسط و تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا، خدا گواہ ہے کہ اس عاجز نے یہ ساری خامہ فرسائی محض الدین النصح کے جذبہ کے تحت کی ہے (عن  أبی امامۃ الباھلی ؓ :  قال اللہ عزّوجلّ :  أحبُّ ما تعبّد لی بہ عبدی  النصحُ لی)، حاشا و کلا کسی کی توہین یا تنقیص مقصود نہیں ہے۔ خدا کرے کہ ہم ان باتوں کو سامنے رکھ کر اپنا حقیقی جائزہ لینے کی کوشش کریں۔

خدا نے آج تک  اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تبصرے بند ہیں۔